ظفر آغا
گروگرام کی گرودوارہ ایسوسی ایشن نے جمعہ کی نماز کے لیے گرودواروں کی پیش کش کر جو احسان کیا ہے، مسلمان اس احسان کو چکانے کے لیے گرودواروں میں لنگر کریں اور گرودواروں میں کارسیوا انجام دینی چاہیے۔
اس ملک پر بھلے ہی ہندوتوا سیاست کا کتنا ہی رنگ چڑھ گیا ہے۔ ہندوستان بھلے ہی ہندو راشٹر کی دہلیز پر کیوں نہ کھڑا ہو۔ لیکن آج بھی عوامی سطح پر اس ملک کی گنگا–جمنی روح زندہ ہے۔ اگر آپ کو یہ حقیقت دیکھنی ہے تو آئیے آپ کو لے چلتے ہیں دہلی کے نزدیک (بلکہ اب وہ کم و بیش دہلی کا ہی حصہ ہے) گروگرام، جو ابھی کچھ عرصے قبل تک گڑگاؤں کہلاتا تھا۔ لیکن اس سے قبل یہ یاد دہانی کروا دیں کہ تقریباً دو ہفتے قبل گروگرام انتظامیہ نے وہاں آٹھ مقامات پر ہونے والی جمعہ کی نماز پر پابندی لگا دی تھی۔
یہ آٹھ جگہیں پارک وغیرہ جیسے مقام تھے جہاں ہندوتوا یعنی بی جے پی حامیوں نے نماز پڑھے جانے پر اعتراض کیا۔ پھر بجرنگ دل کے لوگوں نے ایک جمعہ کے روز جہاں نماز ہو رہی تھی وہاں احتجاج کیا۔ انتظامیہ نے بجرنگ دل اور نماز مخالفین کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے آٹھ مقامات پر جمعہ کی نماز پڑھے جانے پر پابندی لگا دی۔ ظاہر ہے کہ یہ قدم بی جے پی کے اشارے پر انتظامیہ نے اٹھایا ہوگا۔ کیونکہ بی جے پی کو آئے دن مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری ثابت کرتے رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
الغرض، آٹھ مقامات پر گروگرام میں جمعہ کی نماز بند ہو گئی۔ گروگرام ایک انڈسٹریل مقام ہے جہاں لاکھوں کی تعداد میں مسلم آبادی بس چکی ہے۔ وہاں محض دو یا تین مساجد ہیں، جب کہ سنتے ہیں آزادی کے قبل کی کئی سو مساجد بند پڑی ہیں۔ الغرض مساجد کی تنگی کے سبب وہاں کی مسلم آبادی پارک جیسے عوامی مقامات پر نماز پڑھنے پر مجبور تھی۔ لیکن اب ایسی جگہوں پر بھی نماز پڑھنا محال ہوتا جا رہا ہے۔ بے چارہ گروگرام کا مسلمان دل مسوس کر رہ گیا۔ اس مودی کے ہندوستان میں وہ کرتا بھی تو کرتا کیا۔ لیکن ابھی وہ مایوسی کے عالم میں جی رہا تھا کہ یکایک عوامی سطح پر یہ خبریں آنی شروع ہوئیں کہ ہندو بھائیوں نے نماز کے لیے اپنے گھر مسلمانوں کو جمعہ کے لیے پیش کر دیے۔ ابھی یہ خبر آئی ہی تھی کہ تین روز قبل گروگرام گرودوارہ ایسو سی ایشن نے گروگرام کے تمام گرودواروں کے دروازے جمعہ کی نماز کے لیے کھول دیے۔ اس طرح اللہ کی طرف سے جمعہ کی نماز کا غیبی انتظام ہو گیا اور انتظامیہ و بی جے پی کے حامیوں کے منھ لٹک گئے۔
کچھ ہندو بھائیوں اور سکھ گرودوارہ ایسو سی ایشن نے مسلمانوں کی نماز کے لیے جو کام کیا ہے، وہ محض قابل ستائش ہی نہیں بلکہ قابل صد احترام ہے۔ جمعہ جیسی اہم نماز کے لیے سکھ بھائیوں نے گرودواروں کو کھول کر جو کام کیا ہے، وہ مسلم قوم پر کسی احسان سے کم نہیں ہے۔ کیونکہ یہ محض مقامی انتظامیہ کے منھ پر ایک چانٹا ہی نہیں بلکہ بی جے پی کی مسلم منافرت کی سیاست کا ایک کرارا جواب بھی ہے۔ مودی کے دور میں سکھوں کی یہ جرأت قابل صد احترام ہے اور اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
جیسا عرض کیا کہ یہ سکھ قوم کا مسلمانوں پر احسان ہے، اب ہندوستانی مسلمانوں کا یہ فریضہ ہے کہ وہ سکھوں کے اس احسان کا جواب ایسے قدم اٹھا کر دیں جس سے سکھ مذہب کے تئیں احترام کا جذبہ ٹپکتا ہو۔ اور وہ محض دو ہی طریقے ہیں۔ اولاً سکھ گرودواروں میں روز لنگر چلتے ہیں جس میں ہر شخص کو بلاتفریق مذہب و ملت لنگر کا کھانا کھلایا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ محض گروگرام ہی نہیں بلکہ جہاں جہاں بھی ممکن ہو وہاں لنگر میں خرچ ہونے والی اناج و دیگر اشیاء ہدیہ کریں۔ اس کے علاوہ سکھ برادری گرودواروں میں کارسیوا روز کرتے ہیں۔ مسلم نوجوان بچوں کو چاہیے کہ اتوار کے روز اپنے پڑوس کے گرودواروں میں جا کر کم از کم دو گھنٹے کارسیوان انجام دیں اور یہ کام مولویوں کی قیادت کے بجائے پڑھے لکھے مسلم نوجوانوں کی قیادت میں ہونا چاہیے۔
گروگرام کی گرودوارہ ایسوسی ایشن نے جمعہ کی نماز کے لیے گرودواروں کی پیش کش کر جو احسان کیا ہے، مسلمان اس احسان کو چکانے کے لیے گرودواروں میں لنگر کریں اور گرودواروں میں کارسیوا انجام دیں۔ اس طرح مسلم–سکھ اتحاد مزید مستحکم ہوگی اور بی جے پی کی مسلم منافرت کی سیاست کمزور ہوگی۔
بشکریہ روزنامہ قومی آواز، نیو دہلی