بیرسٹر حمید باشانی
چند دن پہلے عرض کیا تھا کہ پاکستان نے 1964 میں اچانک مسئلہ کشمیر سکیورٹی کونسل کو ریفر کر دیا تھا۔ اس نئے قدم نے امریکا کو سخت ناراض کر دیا تھا۔ امریکی سفارتی حلقوں میں اس ناراضی کا کھلا اظہار بھی کر دیا گیا تھا۔دوسری طرف دنیا کی دوسری بڑی سپرطاقت سوویت یونین کی طرف سے مخالفت اور ویٹو کا خطرہ بھی موجود تھا، چونکہ سوویت یونین ابھی تک مسئلہ کشمیر کو برصغیر میں سامراجی مداخلت قرار دینے کی اپنی روایتی پالیسی پر قائم تھا۔ ان حالات میں سوال یہ تھا کہ ایوب خان اور ذولفقار علی بھٹو کوایسی کیا امید تھی کہ انہوں نے مسئلہ کشمیر سیکورٹی کونسل میں لے جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ان کی پشت پر ایسی کون سی قوت تھی، جس کے بھروسے پر انہوں نے یہ قدم اٹھا لیا تھا۔
اس وقت کی عالمی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے لوگوں کا خیال ہے کہ اس وقت پاکستان کی چین کے ساتھ تعلقات میں ایک طرح کی ابتدا تھی، جس میں گرم جوشی بڑھ رہی تھی۔ غالبا چو این لائی نے ان کو یقین دلایا تھا کہ وہ افرو ایشین بلاک میں موجود اپنے دوستوں کو مسئلہ کشمیر کی حمایت پر راضی کر دیں گے۔ لیکن جب مسئلہ سیکورٹی کونسل ریفر ہو چکا تو پاکستان کو اس بات کا احساس ہوا ہے کہ عملی طور پر اس کو عالمی برادری کی کوئی حمایت حاصل نہیں ہے، اور اس معاملے کو سوویت یونین ویٹو بھی کر سکتا ہے۔اب فیصلہ ساز ” ڈمیج کنٹرول” کی تگ و دو میں لگ گئے۔ اس سلسلے میں ایک بار پھر گھوم پھر کر امریکہ کے دروازے پر ہی دستک دی گئی، اور امریکی لیڈروں کے ساتھ نئے سرے سے گفت و شنید کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
امریکا سے سکیورٹی کونسل میں میں مدد کی درخواستیں ہونے لگیں۔ کافی تگ و دو کے بعد بلآخر بارہ فروری 1964 کو پاکستان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو سیکرٹری آف سٹیٹ نے مختصر نوٹس پر واشنگٹن آنے اور اس مسئلے پر گفت وشیند کی دعوت دی ۔ بھٹو اس وقت نیویارک میں تھے، وہ آغا شاہی کو ساتھ لیکر فورا واشنگٹن پہنچے۔ واشنگٹن میٹنگ میں سیکورٹی کونسل میں کشمیر کا مسئلہ ایجیڈے کا واحد نقطہ تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سیکورٹی کونسل میں سوویت یونین کی طرف سے ویٹوکے استعمال کے امکانات و نتائج پر بات کی، اور اس مشکل مرحلے پر امریکہ سے مدد کی درخواست کی ۔
بھٹو نےاس بات پر زور دیا کہ بھارت جو کچھ کر رہا ہے، اس کے خلاف دنیا کی رائے عامہ ہموار کرنا ضروری ہے۔ جوابا سیکرٹری نے یہ واضح کیا کہ مسئلہ کشمیر اور پاکستان بھارت کے بارے میں امریکہ کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ہم اس حوالے سے ہونے والی ہر سرگرمی کے بارے میں حساس ہیں۔ ہم دونوں ممالک پر زور دیتے ہیں کہ وہ کسی سمجھوتے پر پہنچیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ اگر کشمیر پر کوئی سمجھوتہ ہو سکتا ہے تو اس کے لئے بہترین فارمولہ ایوب خان کی 1959پیش کش ہے۔ جس پر بات کی جاسکتی ہے، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ اس بات کی انڈیا کو خبر نہ ہو کہ ہم اس پیشکش کے تحت معاملات طے کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ایوب خان کی پیشکش کیا تھی ؟ یہ پیشکش صدر ایوب نے بائیس دسمبر 1959 کو پیش کی تھی۔ اس پیشکش کے پس منظر میں اس وقت کے امریکی سفیر ران ٹری کی انتھک کوششوں کا دخل تھا۔ اس کا احوال ایمبیسڈر ران ٹری کی اس خط و کتابت میں ملتا ہے، جو اس وقت اس نے واشنگٹن سے کی تھی۔ اس پیشکش میں صدر ایوب نے کہا تھا کہ اگر بھارت پاکستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل کے بنیادی اصول طے کر لیتا ہے تو وہ بھارت کے ساتھ ایک مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کر نے کے لیے تیار ہیں، جس میں اس بات کا اعلان کیا جائے گا کہ پاکستان اور بھارت مستقبل میں اپنے تمام معاملات باہمی بات چیت سے طے کریں گے۔
سیکرٹری آف سٹیٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو بتایا کہ سیکورٹی کونسل میں کچھ نہیں ہو سکتا۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات قائم ہوں۔ محض دنیا کی رائے عامہ کا انڈیا پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ یہ سوچنا غلطی ہوگی کہ بھارت کو دباوڈال کراپنی مرضی کے حل پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں دونوں طرف سے بات چیت کی ضرورت ہے۔بھارت میں پنڈت نہرو کی علالت کی وجہ سے لیڈر شپ میں تبدیلی آ رہی ہے۔ یہ پاکستان کے پاس موقع ہے کہ وہ پہل کرے۔اس گفتگو کے دوران ذوالفقار علی بھٹو نے یہ دعوی کیا کہ ایوب خان کی اس وقت پوزیشن 1959 کی پوزیشن سے زیادہ مضبوط ہے۔بھٹو نے کہا کہ اگر مسئلہ کشمیر کے کسی حل پر اتفاق ہو رہا ہے تو ہم وہ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں۔کھانے کے وقفے کے بعد سیکریٹری نے کہا کہ ہمیں اتفاق رائے کو مضبوط کرنا چاہیے۔ سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کو زبردستی مسلط نہیں کیا جاسکتا ، اس کے لیے اتفاق پیدا کرنا ضروری ہے۔
دوسری طرف امریکہ کی دوبارہ حمایت حاصل کرنے کے لیے بھٹو اور آغا شاہی کی سفارت کاری کے علاوہ برصغیر میں بھی سفارتی سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں۔ ایوب خان اس سلسلے میں بہت ہی سرگرم تھے۔ تیرہ فروری کو اس سلسلے میں ایک ٹیلی گرام پاکستان سے امریکی سفارتخانے نے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو ارسال کیا۔ اس ٹیلی گرام میں امریکی سفیر نے لکھا کہ آج صبح صدر ایوب سے میری ملاقات ان کے کراچی دفتر میں ہوئی، جو تقریبا چالیس منٹ تک جاری رہی۔ گفتگو کا اہم موضوع سیکورٹی کونسل میں مسئلہ کشمیر پر غور و غوض تھا۔ صدر اس بات پر ناخوش تھے کہ ان کو موصول ہونے والی رپورٹس کے مطابق امریکہ بڑی سرگرمی سے سیکورٹی کونسل میں کشمیر کے حل کی مخالفت کر رہا ہے، اوراس مسئلے کا حل نکالنے کے بجائے سیکورٹی کونسل میں ایک بے سود قسم کا متفقہ بیان سامنے لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں سیکورٹی کونسل میں جو ڈرافٹ پیش کیا گیا ہے وہ بھارت کو موقع دیتا ہے کہ وہ براہ راست مسئلہ کشمیر کا سامنا کرنے کے بجائے اسے پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود دیگر مسائل کے ساتھ گڈ مڈ کرکے اس کی اہمیت کو ختم کر دے۔
صدر نے امید ظاہر کی کہ امریکہ یہ دیکھ سکتا ہے پورے برصغیر کی سیکورٹی مسئلہ کشمیر کے ساتھ منسلک ہے۔ انہوں نے کہا کہ پورے برصغیر کا دفاع آپس میں جڑا ہوا ہے، اور سوویت یا چینی کمیونزم کا کسی بھی طریقے سے داخلہ پورے برصغیر کر گرا دے گا۔ جب تک کشمیر کا تنازعہ موجود ہے، اور یہ برصغیر کے جسم پر ایک رستے ہوئے زخم کی طرح موجود ہے، اس وقت تک یہاں پر کمیونسٹوں کے لیے کمیونسٹ “انفیکشن” پھیلانےکے لیے راستہ کھلا رہے گا۔ جب کشمیر کا زخم بھر جائے گا تو برصغیر میں باہمی تعان سے کا ایک مضبوط دفاع قائم ہو جائے گا۔
صدر ایوب ایک طرف امریکی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے برصغیر میں کمیونسٹ انقلاب کے خلاف مشترکہ دفاع کا خیال پیش کرکے امریکی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ دوسری طرف وہ چین کے اتنے قریب ہو رہے تھے کہ بعض خفیہ رپورٹس کے مطابق پاکستان اور چین کے درمیان ایک خفیہ معاہدہ ہو گیا تھا۔
آگے چل کر حالات نے بالکل ایک نئی کروٹ لے لی، جس کا احوال پھر کبھی پیش کیا جائے گا۔
♠