بیرسٹر حمید باشانی
گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ سردار پٹیل نے لارڈ مونٹ بیٹن سے ہندوستان کی شاہی ریاستوں سے بھری ہوئی ٹوکری کی فرمائش کی تھی۔ مونٹ بیٹن یہ فرمائش پوری کرنے کی پوزیشن میں تھا۔ لیکن تقسیم کے وقت اس ٹوکری میں تین سیب کم تھے۔ ان تین کے علاوہ ہندوستان کے ساتھ وہ تمام ریاستیں شامل ہو چکی تھیں، جن کی کانگرس خواہش کر سکتی تھی۔ ان ریاستوں میں حیدر آباد، جونا گڑھ اور جموں کشمیر شامل نہیں تھیں، لیکن بعد میں ان تین ریاستوں کو بھی مختلف اوقات میں مختلف طریقوں سے ہندوستان میں شامل کر لیا گیا۔
ہندوستان کے ساتھ اتنی بڑی تعداد میں شاہی ریاستوں کی شمولیت میں سردار پٹیل اور لارد مونٹ بیٹن کا جو بھی کردار رہا ہو وہ اپنی جگہ، لیکن اس صورت حال کی اصل وجہ شاہی ریاستوں کے بارے میں آل انڈیا مسلم لیگ کی پالیسی تھی، جس کو سمجھے بغیر شاہی ریاستوں کی ہندوستان یا پاکستان میں شمولیت کے مسئلے کو نہیں سمجھا جا سکتا۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں اپنے قیام سے لیکر مسلم لیگ کی سیاست کا نقطہ ماسکہ برٹش انڈیا یعنی وہ صوبے تھے جو براہ راست برطانوی حکومت کے زیر انتظام تھے۔
شاہی ریاستوں کے بارے میں اس کی پالیسی یہ تھی کہ وہ وہ راجوں ، مہاراجوں، ناظمین اور والیان ریاست وغیرہ کو ان ریاستوں کے جائز حکمران سمجھتے تھی۔ وہ شاہی ریاستوں پر ان کے حکمرانوں کے حق حکمرانی میں عدم مداخلت کی قائل تھی۔ قائد اعظم اور مسلم لیگ کا موقف یہ تھا کہ ریاستوں کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے کا اختیار ریاست کے حکمرانوں کو حاصل ہے، خواہ یہ فیصلہ برطانوی حکومت کے ساتھ تعلقات سے متعلق ہو، یا ریاستوں کے مستقبل کے بارے میں کوئی سوال ہو۔ مسلم لیگ اس پالیسی پر بھی کاربند تھی کہ حکمرانوں کے خلاف ریاستی عوام کے کسی قسم کے راست اقدام کی حمایت بھی نہ کی جائے۔یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ اپنی سرگرمیوں کے دائرہ کار کو ریاستوں تک پھیلانے کے حق میں نہیں تھی۔یہ پالیسی پہلی بار اس وقت مسلم لیگ کے لیے ایک مسئلہ بنی جب انگریزوں نے ہندوستان میں فیڈریشن کی تجویز پیش کی۔
گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ1935 میں یہ تجویز کیا گیا تھا کہ پورے ہندوستان پر مشتمل ایک فیڈریشن بنائی جائے، جس میں تمام صوبے اور شاہی ریاستیں ایک یونٹ کے طور پر شامل ہوں۔شاہی ریاستوں کے لیے ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنے کے لیے ایک باقاعدہ دستاویز تیار کی گئی، جسے “انسٹرومنٹ آف اکیسیشن” یعنی الحاق کی دستاویز کا نام دیا گیا، جس میں الحاق کرنے کی شرائط درج کی گئی۔یہ فیصلہ مکمل طور پر شاہی ریاستوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا کہ ان میں سے جو ریاست چاہے، وہ ہندوستان کی مرکزی فیڈریشن کا حصہ بنے۔ایکٹ میں یہ بھی تجویز کیا گیا کہ ایک کونسل آف سٹیٹس بنائی جائے، جو برٹش انڈیا اور شاہی ریاستوں کے نمائندوں پر مشتمل ہو۔
اس تجویز کا مطلب یہ تھا کہ اگر فیڈریشن بنتی ہے تو ہندوستان کی ساری جماعتوں کو اپنی سرگرمیوں کا دائرہ ریاستوں تک پھیلانا پڑے گا۔ اس تجویز کو کانگرس اور مسلم لیگ دونوں نے غیر جمہوری قرار دے کر مسترد کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی کانگرس نے آل انڈیا سٹیٹس پیپلز کانفرنس کے زیر اہتمام احتجاج شروع کر دیا اور یہ مطالبہ کیا کہ راجے مہاراجے وفاقی مقننہ میں اپنے پسندیدہ اشخاص کو نامزد کرنے کے مجاز نہیں ہونا چاہیے، بلکہ شاہی ریاستوں سے منتخب افراد کو کونسل آف سٹیٹیس میں نمائندگی دی جائے۔
سٹیٹس پیپلز کانفرنس کے تحت کانگرس کے احتجاج نے مہاراجوں کی طاقت کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ الگ بات تھی کہ راجوں کی اکثریت کو انگریزوں کی اس نئی سکیم پر اعتراض تھا۔ اگرچہ اس اعتراض کی ان کی اپنی الگ الگ وجوہات تھیں۔ چنانچہ مسلم لیگ کو راجوں کی پوزیشن دیکھ کران کی حمایت کا سنہری موقع نظر آیا ، جو کانگر نس کے اثرو رسوخ کم کر سکتا تھا۔ مسلم لیگ نے اپنے سالانہ کنونشن میں مجوزہ فیڈریشن کے خلاف قرارداد پاس کر دی۔ اس اجلاس میں راجوں سے کہا گیا کہ جب تک برٹش انڈیا میں فریقین کے درمیان اتفاق نہیں ہو جاتا، اس وقت تک وہ فیڈریشن کونہ مانیں۔
آگے چل کر قائد اعظم کے دورہ حیدرآ باد کے دوران نظام حیدرآباد نے فیڈریشن کی آخری پیشکش رد کر دی۔ دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے فیڈریشن کا معاملہ ہی ختم ہو گیا۔ لیکن فیڈریشن کے مسئلے کو لیکر مسلم لیگ کو تاریخ میں پہلی بار ریاستوں کے حوالے سے کھلا موقف اختیار کرنا پڑا، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا کہ ریاستوں کے حوالے سے مسلم لیگ کا دیرینہ موقف بدل گیا تھا۔کانگرس کے برعکس مسلم لیگ ریاستوں کے اندرونی معاملات میں اپنے آپ کو راجوں اور ان کی رعایا کے درمیان لانے سے گریزاں تھی۔ مسلم لیگ کی اس دیرینہ پالیسی کو سمجھنے کے لیے مسلم لیگ کی پرانی دستاویزات اور شاہی ریاستوں کے باب میں اس کے آ ئینی ارتقا کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
سنہ1919 سے مسلم لیگ کے آئین میں یہ شق موجود تھی کہ کسی بھی ریاست کا کوئی مسلمان شہری مسلم لیگ کی جنرل کونسل کا ممبر بن سکتا ہے۔لیکن تیس کی دھائی میں مسلم لیگ کی اس پالیسی میں بتدریج تبدیلی ہوئی۔ 1937 میں راجوں مہاراجوں کو یہ یقین دلانے کے لیے کہ مسلم لیگ ریاستی معاملات کا مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی، انہوں نے مسلم لیگ کے آئین میں آئینی ترمیم لائی، جس کے تحت آئین میں یہ شق ڈالی کہ آج کے بعد صرف برٹش انڈیا کا شہری ہی مسلم لیگ کی ممبرشپ کا اہل ہے، اور کسی ریاست کا کوئی باشندہ مسلم لیگ کی جنرل کونسل کا ممبر نہیں بن سکتا۔
اس کے تین سال بعد نواب یار بہادر جنگ کی قیادت میں آل انڈیا سٹیٹس مسلم لیگ بنا دی گئی، جس کا ہیڈ کوارٹر ناگ پور رکھا گیا۔ مسلم لیگ کے آئین میں اس تبدیلی نے کسی قسم کے شک و شبہے کی گنجائش کو ختم کر دیا تھا کہ مسلم لیگ مستقبل قریب میں ریاستوں کے معاملات میں مداخلت کا ارادہ رکھتی ہے۔ مسلم لیگ کی اس پالیسی کا واضح اظہار 1940 میں ہوا۔ مارچ 1940 میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ بندوبست یا الگ وطن کی جو معروف قرارداد پیش کی گئی، اس میں صرف برٹش انڈیا کے زیر انتظام صوبے شامل تھے۔ جو قرارداد فضل الحق نے لاہور میں پڑھ کر سنائی وہ آج بھی آل انڈیا مسلم لیگ کے پیپرز میں شامل ہے، اور اس میں کسی ریاست کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
اس قرار داد کا اطلاق صرف برٹش انڈیا کے مسلم اکثریتی علاقوں پر ہوتا ہے۔شوکت حیات نے یہ قرارداد تیار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے پیپرز کی فائل میں شوکت حیات کی تقریر کا متن محفوظ ہے۔ بعد ازاں قائد اعظم نے بھی بار ہا اس کی وضاحت کی۔ ایل اے شیروانی کے سیلکشن آف ڈاکومنٹس میں اس امر کی وضاحت موجود ہے کہ جب موہن داس کرم چند گاندھی نے براہ راست قائد اعظم محمد علی جناح سے پوچھا کہ قرارداد لاہور کے ہندوستان کے اتحاد پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟۔
گاندھی کے سوال کے جواب میں قائد اعظم نے تسلیم کیا کہ پاکستان کے ابتدائی تصور میں کچھ تبد یلی آئی ہے، اور قرارداد لاہور کا اطلاق صرف برٹش انڈیا تک محدود ہو گا۔ ریاستوں کے بارے میں مسلم لیگ کی اس پالیسی کا نتیجہ یہ تھا کہ مسلم لیگ ریاستوں میں تنظیم سازی یا ریاستی عوام کی براہ راست حمایت حاصل کرنے کے لیے ہر قسم کی سرگرمی سے اجتناب کرتی تھی ۔ اس صورت حال کا عکس کچھ ریاستوں کے مستقبل کے بارے میں ان کے فیصلوں سے ہوا، جس کا احوال پھر کبھی بیان کیا جائے گا۔
♣