پاکستان میں پانی کی قلت کا مسئلہ شدید ہوتا جا رہا ہے اور ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت نے پالیسی تبدیل نہیں کی تو ملک کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہو سکتا ہے۔
حالیہ دنوں میں جہاں چولستان میں پیاس سےمرتے جانوروں کی تصاویر سوشل میڈیا میں دیکھی جارہی ہیں وہیں سندھ کے کئی علاقوں میں پانی کی شدید قلت کے حوالے سے زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔ ٹھٹہ، بدین، سجاول، کے ٹی بندر، دادو اور سیہون شریف سمیت سندھ کے کئی علاقوں میں پانی کی شدید قلت رہی، جس سے آبادکاروں اور کاشتکاروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
اس قلت کا سامنا صرف صوبہ سندھ کو ہی نہیں بلکہ بلوچستان کے بھی کئی علاقے پانی کی قلت سے شدید متاثر ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں گوادر میں پانی کی قلت کے حوالے سے شدید احتجاجی مظاہرے ہوئے، جس نے پورے بلوچستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس کے علاوہ نصیرآباد، جس کو بلوچستان کا گرین بیلٹ بھی کہا جاتا ہے، اس کو بھی دریائے سندھ سے اس کی ضروریات کے مطابق پانی نہیں مل رہا، جس سے کھیتی باڑی اور کاشتکاری متاثر ہو سکتی ہے۔
بلوچستان حکومت کے سابق ترجمان جان محمد بلیدی کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے کئی علاقوں میں زیر زمین پانی کو بے دردی سے نکالا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے آنے والے وقتوں میں ان علاقوں میں پانی کا شدید بحران آئے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مستونگ، قلات کوئٹہ، زیارت اور پشین سمیت کئی علاقوں میں ایک ایک ہزار فٹ کھدائی کر کے زیر زمین پانی کو بے دردی سے استعمال کیا جا رہا ہے اور اس عمل کو کوئی روکنے والا نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہی صورتحال رہی تو ان علاقوں میں پانی کا بحران مزید شدید ہو جائے گا۔ جان بلیدی کے مطابق بلوچستان کا علاقہ نصیرآباد بھی پانی کی قلت کا شکار ہے: ”اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے دریائے سندھ سے اس کے حصے کا پانی نہیں مل رہا، جس کی وجہ سے نا صرف زراعت بلکہ ہزاروں لوگوں کا روزگار بھی متاثر ہوگا۔‘‘
ملک کے کچھ حلقے یہ کہتے ہیں کہ پانی کی قلت پر قابو پانے کے لیے مزید ڈیم بنانے چاہییں لیکن کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ڈیموں اور بیراجوں کی وجہ سے ہی پاکستان میں پانی کی قلت کا مسئلہ کھڑا ہوا ہے، جس سے صوبوں کے درمیان بھی تلخیاں بڑھی ہیں۔
آبی امور کے ماہر ڈاکٹر حسن عباس کا کہنا ہے کہ ہم نے پانی کے فطری نظام کو خراب کیا ہے، جس کی وجہ سے سندھ میں پانی کی قلت کا مسئلہ کھڑا ہوا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ہم نے ڈیم اور بیراج بنا کر پانی کے قدرتی طریقے کو خراب کیا۔ ورنہ ملک میں پانی کی قلت نہ ہوتی کیونکہ آپ کے دریاؤں میں پانی برف پگھلنے، گلیشیئر پگھلنے اور مون سون کی بارشوں کی وجہ سے آ جاتا تھا۔ برف باری اور گلیشئیر کے پگھلنے کی وجہ سے جو پانی ماضی میں آتا تھا، وہ براہ راست دریا میں چلا جاتا تھا۔ اب ہم نے ڈیم اور بیراجوں کے ذریعے اس پانی کو روک لیا ہے، جس کی وجہ سے پانی سندھ کے کئی علاقوں تک پہنچ نہیں پاتا‘‘۔
حسن عباس کے مطابق یہ تصور غلط ہے کہ ڈیموں کو بھرنے کے لیے گلیشیئر اور برف باری سے پگھلنے والے پانی کو استعمال کیا جائے: ”ڈیموں میں پانی مون سون کی برسات سے آسانی سے بھرا جا سکتا ہے لیکن ہم پہلے برف باری اور گلیشئیر سے پگھلنے والے پانی کو ڈیموں سے بھرتے ہیں اور مون سون کی بارشوں سے بھی ان ڈیموں کو بھرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ برف باری اور گلیشئیر سے پگھلنے والے پانی کو اس وقت ڈیموں میں ذخیرہ کیا جاتا ہے جب اس کی سندھ کو شدید ضرورت ہوتی ہے اور وہاں یہ فصلوں کے کیے انتہائی ضروری ہوتا ہے‘‘۔
ڈاکٹر حسن عباس نے یہ تجویز کیا کہ حکومت کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ آیا ڈیموں کا یہ پانی انسانی اور زرعی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ہے یا اس سے بجلی پیدا کرنی ہے، ”میرے خیال میں مزید ڈیم نہیں بننے چاہییں اور پانی کی تقسیم کو بہتر بنایا جانا چاہیے۔ تربیلا اور منگلا ڈیم چار ملین ایکڑ فٹ سے زیادہ پانی ذخیرہ کرتے ہیں اور سندھ اور پنجاب کی لڑائی صرف دو ملین ایکڑ فٹ پر ہوتی ہے۔ اگر اس پانی کو نہ روکا جائے تو دونوں صوبوں میں لڑائی بھی نہ ہو اور سندھ میں پانی کی قلت کا مسلئہ بھی حل ہو جائے‘‘۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے آبی امور کے ماہر ڈاکٹر عارف محمود کا کہنا ہے کہ پانی کی قلت سے مستقل طور پر چھٹکارا پانے کے لیے ہمیں زراعت پر انحصار کم کرنا پڑےگا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ”ہم زراعت کے لیے سیلابی طریقے سے پانی استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے چار ملین ایکڑ فٹ سے زیادہ پانی سالانہ ضائع ہوتا ہے جبکہ نہری نظام میں بھی بہت ساری خامیاں ہیں اور اس کی وجہ سے یہ پانی ضائع ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ گنے، چاول اور وہ تمام دوسری فصلیں جن میں پانی بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے ان فصلوں کی کاشت کو ہم محدود کریں۔‘‘
ڈاکٹر عارف محمود کے مطابق کیونکہ سندھ دریائے سندھ کے آخری کونے پر واقع ہے اس لیے اس تک پانی پہنچنے میں تاخیر ہو جاتی ہے: ”لیکن اس سال برف باری بھی کم ہوئی ہے اور بارش بھی کم ہوئی ہیں جس کی وجہ سے سندھ کے کئی علاقے خصوصاً ٹھٹہ، بدین، سجاول، دادو اور سہون شریف پانی کی قلت کا شدید شکار ہوئے ہیں تاہم 25 سے 30 دن میں پانی کی فراہمی بہتر ہو جائے گی‘‘۔
DW.COM/URDU