بیرسٹر حمید باشانی
دنیا میں جب سیاسی قیدیوں کی بات ہوتی ہے تو بڑے بڑے نام ذہن میں آتے ہیں۔ ان میں نیلسن مینڈیلا، موہن داس کرم چند گاندھی، یا حالیہ تاریخ میں انک سانگ سوچی جیسے نام ابھرتے ہیں۔بالکل ہی تازہ ترین تاریخ میں بیلا روس، چین یا نکاراگوا اور جنوبی سوڈان کے کچھ قیدی،جن کو قید تنہائی میں رکھا گیا، یا پھر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ قیدو بند کی صعوبتوں سے گزرنے کے باوجود ان قیدیوں کو کسی حد تک خوش قسمت کہا جا سکتا ہے کہ یہ اپنے اپنے ملکوں کے حالات، طرز سیاست ، اور عالمی سیاست میں ان کی “پوزیشنگ “کی وجہ سے مغربی میڈیا کے ریڈار پر آگئے۔ دنیا کی بڑی انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان پر فوکس کیا۔ وائیٹ ہاوس اور کانگرس میں ان کے ابتلا اور تکالیف کا ذکر ہوا۔
ان قیدیوں کوخوش قسمت اس لیے لکھا کہ دنیا میں ایسے قیدیوں کی تعداد ہزاروں میں نہیں، بلکہ لاکھوں میں ہے، جو دنیا کے مختلف ممالک میں خاموشی اور گمنامی سے طویل قید کاٹ رہے ہیں، اور جبر و تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ان کی بد قسمتی یہ ہے کہ وہ دنیا کی سیاست میں اس “خوش قسمت دائرے “کے اندر نہیں آتے، جس میں جمہوریت، اور انسانی حقوق کی بنیاد پر حکومتوں کے اقدامات پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اور جس بنیاد پر مغربی میڈیا اور حکمران ان کو اہیمیت دیتے ہیں۔ ان کے کاز اور جدوجہد کو نوبل کاز قرار دے کر اس کی حمایت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، چنانچہ وہ اس وجہ سے وہ دنیا کے ریڈار پر آجاتے ہیں۔
لیکن جو اس ریڈار پر نہیں آتے ان کے تجربات زیادہ مشکل ہیں، ان کی کہانیاں کئی زیادہ دردناک ہوتی ہیں ، لیکن ان کو کوئی بانٹنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ بات شاید باعث حیرت ہو لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں ایک ملین سے زیادہ سیاسی قیدی ہیں۔ اور اسی پر بس نہیں ، بلکہ آئے دن سیاسی قیدی بنانے کا یہ سلسلہ جاری ہے، اور اس فہرست میں تیز رفتاری سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
دنیا کے کئی ایک ممالک میں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید افراد کو غیر منصفانہ طور پر حراست میں لیا جا رہا یا جھوٹے مقدمات میں سزا سنائی جا رہی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں بےشمار لوگوں کو بغیر کسی معقول وجہ کے گرفتار کیا جاتا ہے، اکثر اس لیے کہ انہوں نے پرامن طریقے سے اپنے انسانی حقوق کا استعمال کرنے کی کوشش کی ہوتی ہے۔ ان میں سب سے بنیادی حق آزادی اظہار رائے کا حق ہے۔ دنیا میں سیاسی قیدیوں کی اکثریت کا تعلق اس حق کا استعمال کرنے والوں کا ہے، جو اس جرم کی پاداش میں جیل جاتے ہیں۔ ان سیاسی قیدیوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں، جنہوں نے دوسروں کے حقوق کا دفاع کرنے کی کوشش کی۔ یا ایسے لوگ جنہوں نے دوسرے شہریوں کے بنیادی حقوق اور شہری آزادیوں کی پائمالی کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کی۔ حکومت کے جابرانہ اور غیر منصفانہ اقدامات کے خلاف انہوں نے اپوزیشن کو منظم کیا ۔ اس میں بہت سارے ایسے لوگ شامل ہیں، جنہوں نے سچ لکھا یا بولا ۔ حرف حق اور حرف انکار کی جرات کی ۔بدعنوانی کی اطلاع دی ، یا اس کے خلاف آوازاٹھائی ، اور حکومتی نا انصافیوں اور اقدامات کے خلاف پرامن احتجاج میں حصہ لیا ۔
اس طرح ایسے سیاسی قیدیوں کی بھی کمی نہیں ، جن کو کچھ ممالک میں صرف اس وجہ سے نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ کون ہیں ۔ ان کی نسل یا مذہب کیا ہے، اور کیوں ہے۔ وہ جو زبان بولتے ہیں، کیوں بولتے ہیں، کس سے محبت کرتے ہیں، ان کی نسلی شناخت کی بنیاد کیا ہے۔ اقلیتی گروہوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی سیاسی قیدیوں میں نمائندگی زیادہ ہوتی ہے۔ سماج میں موجود سیاسی مسائل کو لے کر پر امن احتجاج کرنے والے مظاہرین اور حکومتوں کے ناقدین بھِی اکثر و بیشتر سیاسی قیدیوں میں شامل ہونے پر مجبور رہتے ہیں۔
مغربی میڈیا میں اکثر ایسی رپوٹس آتی رہتی ہیں، جن کے مطابق کیوبایا چین جیسے ممالک میں حکومت اور پارٹی سے اختلاف کرنے والے افراد کو عدالتوں کے ذریعے سزا سنائی جاتی ہے ۔ ایسے مقدمات میں عدالتوں کی آزادی اور خود مختاری پر سوال اٹھائے جاتے ہیں ۔ لیکن اکثر مغربی میڈیا اپنی رپورٹس میں یہ نہیں بتاتا کہ امریکہ میں سیاسی قیدیوں کی تعداد کیا ہے، ان کے خلاف چلنے والے مقدمات کی روداد کیا ہے۔ ان کی کاروائی کیا کھلی عدالتوں میں ہوتی ہے، اور کیا ان کو امریکی نظام انصاف کے وہ سارے فوائد میسر ہوتے ہیں، جو عام غیر سیاسی امریکی قیدیوں کو میسر ہوتے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت امریکہ کی جیلوں میں سو سے زائد سیاسی قیدی ہیں۔ ان کو انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے سیاسی قیدی مانا ہے۔ لیکن امریکی میڈیا ان کو سیاسی قیدی کہہ کر ” ہائی لائیٹ ” کرنے سے ہچکچاتا ہے۔ اس کی گونا گوں وجوہات ہیں۔ خوف، سمجھوتہ جانب داری، وفاداریاں اور حب وطنی کا خود ساختہ تصور۔امریکہ میں تاریخی اعتبار سے ” سیاسی قیدی” کی اصطلاح بھی بہت بڑی اور تاریخی شخصیات کے لیے استعمال ہوئی ہے۔ بیسویں صدی مین شہری حقوق کی تحریکوں کے دوران روزا پارکس اور مارٹن لوتھر کنگ جیسے لوگ سیاسی قیدی رہے۔ اس کے بعد ویت نام کی جنگ کے دوران امریکی حکومت کی مخالفت کرنے کی پاداش میں کئی بڑی امن پسند اور جنگ دشمن شخصیات سیاسی قیدی بننے پر مجبور ہوئیں۔ موجودہ دور میں بھی امریکی جیلوں میں مختلف وجوہات کی بنا پر کئی سیاسی قیدی موجود ہیں۔ ان میں مقامی انڈین مزاحمتی تحریک والے، سیاہ فام تحریکوں اور بائیں بازوں کے کچھ گروہوں اور تحریکوں سے وابستہ لوگ شامل ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹس کے مطابق دنیا کے مختلف ممالک میں سیاسی قیدیوں کو اکثر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور انہیں کئی ایک ممالک کی جیلوں میں غیر انسانی حالات میں رکھا جاتا ہے ۔ ان کو صحت کی بنیادی سہولیات نہیں دی جاتیں ۔قیدو بند کی صعوبتیں تو قیدی برداشت کرتے ہیں، لیکن ان کے یہ مصائب قیدیوں کے دوستوں اور اہل خانہ کے لیے بھی پریشان کن ہوتے ہیں۔ عزیز و اقارب کو اکثر اپنے پیاروں کے بارے میں معلومات دینے سے انکار کیا جاتا ہے، ان کو قیدیوں سے ملاقات کرنے سے روکا جاتا ہے۔
سیاسی قیدیوں کا تعلق کسی ملک کے اندر موجود جبر کے ماحول سے ہے۔ جن ممالک میں سیاسی قیدی ہیں، وہاں خوف اور سنسرشپ کا ماحول لازم ہوتا ہے۔ ایسے ممالک میں جمہوریت اور عوام کی سیاسی شرکت کو روکنے کی کوششیں ہوتی ہیں۔ اکثرمیڈیا پر پابندی ہوتی ہے، اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو کام کرنے سے روکا جاتا ہے۔ خودامریکی محکمہ خارجہ کی انسانی حقوق کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں65 سے زائد ممالک میں سیاسی قیدی موجود ہیں۔
ان میں سے اکثر لوگ جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے لڑائی لڑنے کی پاداش میں پابند سلاسل ہیں۔ یہ لوگ اپنے اپنے ملکوں اور سماج کی بہترین اور روشن امید ہیں۔ پاکستان میں سیاسی قیدیوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ باچا خان سے لیکر فیض احمد فیض تک اور جام ساقی، رسول بخش پلیجو، ولی خان، بزنجو، اور مری جیسے مشہور قیدیوں سے لیکر بے نظیر بھٹو کی قید تک سیاسی قیدیوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ آج کل اس کی ایک مثال ممبر قومی اسمبلی علی وزیر ہیں، جن کو اجلاس میں لانے یا نہ لانے کے لیے اہل حکم اور پارلیمان کے درمیان زور آزمائی ہوتی رہتی ہے۔ علی وزیر کی قید پاکستان کے پورے نظام انصاف پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
ابھی حال ہی میں آزاد کشمیر میں اپنے مطالبات کے حق میں عوامی احتجاج کے دوران درجنوں سیاسی کارکنو ں کو قید کیا گیا تھا۔ کسی بھی ملک میں سیاسی قیدیوں کی موجودگی اس ملک میں اظہار رائے پر پابندی کا ثبوت ہوتا ہے، جب حکمران کسی شخص کو اپنی بات کہنے کی پاداش میں پابند سلاسل کرنے پر اتر آتے ہیں۔ اور ضمیر کی آوازں کو قید کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
♠