بیرسٹر حمید باشانی
گزشتہ دنوں میلونی جولی اور بلاول بھٹو زرداری کے درمیان ویڈیو لنک کے ذریعے بات چیت ہوئی۔ کینیڈا کی وزیر خارجہ جولی نے بلاول بھٹو کو پاکستان کا وزیر خارجہ منتخب ہونے پر مبارکباد دی۔ اس کے علاوہ باہمی دلچسپی کے دیگر امور زیر بحث آئے۔ کینیڈا کے لیے اس خطے میں دلچسپی کے کئی امور ہیں۔ اس وقت کینیڈا کی فوری دلچسپی وہ افغانی ہیں، جن سےامریکی انخلا کے وقت کینیڈا نے امیگریشن دینے اور کینیڈا لانے کا وعدہ کیا تھا۔
کینیڈا کا خیال ہے کہ اس معاملے میں پاکستان اس کی مدد کر سکتا ہے۔ امریکی انخلا کے وقت پاکستان نے کینیڈا کے کچھ شہریوں کو افغانستان سے نکالنے میں سہولت کاری کی تھی۔ اس کے علاوہ پاکستان میں انسانی حقوق، عورتوں کی فلاح و بہبود جیسے مسائل پر کینیڈا دلچسپی لیتا رہا ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے کینیڈا 1950 کی دہائی سے لیکر پاکستان میں مختلف قسم کے پروجیکٹس کی فنڈنگ کرتا ر ہا ہے۔ کینیڈا کی طرف سے پاکستان کو وقتاً فوقتا دی جانے والی یہ امداد ایک خطیر رقم بنتی ہے۔ مگر بد قسمتی سے ان شعبوں کی حالت زار میں کوئی واضح نظر آنے والی تبدیلی نہیں آئی۔ انسانی حقوق کی حالت قابل رحم ہے۔
اس وقت پاکستان کے طاقت ور اور مراعات یافتہ طبقات، جن کی سیاسی طاقت کے علاوہ مختلف جگہوں میں حکومتیں بھی قائم ہیں شکوہ کناں نظر آتے ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ ان کے انسانی حقوق پائمال کیے جا رہے ہیں۔ جو لوگ آج مرکز میں اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں، چند ماہ قبل ان کا شکوہ بھی یہی تھا کہ ان کے قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ ان حالات میں عام آدمی کے انسانی حقوق کا کیا رونا ؟رہا سوال عورتوں کی آزادی اور مساوات کا تو یہ مسئلہ آج بھی اتنا ہی گھمبیر ہے، جتنا نصف صدی پہلے تھا۔ سماج میں چوبیس گھنٹے عورت کی احترام اور مساوات کے ڈھول تو پیٹے جاتے ہیں، لیکن عملی طور پر وہ اسی طرح جنسی امتیاز اور عدم مساوات کی شکار ہے، جس طرح نصف صدی قبل تھی۔ یہ عدم مساوات معاشی، سیاسی اور سماجی زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتی ہے۔
کینیڈا پاکستان تعلقات کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے،تو اعلی سطح کا پہلا دورہ لیاقت علی خان نے جون1950 میں کینیڈین دارالحکومت آٹاوا کا کیا تھا۔اس وقت لوئیس سینٹ لورنس کینیڈا کے وزیر اعظم تھے۔ لیکن کینیڈا کی جنوبی ایشیا کے معاملات میں دلچسپی اس سے بھی پہلے کی ہے۔ 1947 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مسئلے پر پہلی جنگ کے دوران کینیڈا نے امن کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔اقوام متحدہ کی طرف سے جنگ بندی لائن پر تعینات ہونے والے مبصرین میں کینیڈا شامل تھا۔
اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں جب پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی لڑائی اپنے عروج پر تھی ، تو اس وقت کینیڈا کے پاس اتفاق سے سیکورٹی کونسل کی صدارت تھی۔ اس وقت کشمیر پر مشہور قرار داد پاس ہوئی، جسے قرارداد نمبر 47کہا جاتا ہے، اور یہ قرارداد اقوام متحدہ میں پاس ہونے والی تمام قراردادوں کی بنیاد تصور کی جاتی ہے۔ اس قرار دادمیں کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا گیا تھا۔ اس وقت انڈریو میکناٹن سیکورٹی کونسل میں کینیڈا کی نمائندگی کر رہے تھے۔ میکناٹن نے اس قرارداد کے پاس ہونے میں کلیدی اور رہنمائی کا کردار ادا کیا تھا۔
جنوری1971میں کنیڈین وزیر اعظم پیئرایلیٹ ٹروڈو نے پاکستان کا دورہ کیا۔ دورہ تو اسے نہیں کہا جا سکتا، چونکہ ٹروڈو سنگاپور جاتے ہوئے پاکستان ٹھہرے تھے لیکن یہ مختصر قیام اس لیے اہم تھا کہ اس وقت پاکستان اور کینیڈا کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی تھی، جو بعد میں بنگلہ دیش میں پیدا ہونے والی صورت حال کی وجہ سے سخت کشیدگی اور سرد مہری کا شکار ہوگئے۔ بنگلہ دیش کی کی لڑائی اور انسانی حقوق کے حوالے سے آنے والی خبروں کی نتیجے میں کئی غیر ملکی سربراہوں اور سفارت کاروں نے مختلف شکلوں میں اپنا کردار ادا کیا، ان میں ایک ٹروڈو بھی تھے۔
وزیر اعظم ٹروڈو اپنی خاص افتاد طبع اورآزاد سوچ رکھنے والی کی شخصیت کے طور پر مشہور تھے۔ اپنی اس خاص افتاد طبع کا اظہار وہ اس پہلے کیوبا کے مسئلے پر کر چکے تھے۔ امریکہ کی ہمسائیگی اور قریب ترین معاشی اور ثقافتی تعلق کے باوجود انہوں نے کیوبا کے سوال پر امریکی پالیسی کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ کیوبا کے رہنما فیڈل کاسترو کے ساتھ ان کا بہت گہرا تعلق تھا، اور ان کا شمار قریب ترین دوستوں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے کیوبا کے خلاف امریکہ کی طرف سے سفری اور معاشی پابندیوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ امریکی پابندیوں کے باوجود کنیڈین شہریوں نے کیوبا کے ساتھ تجارت اور کاروبار اور سیاحت کا عمل جاری رکھا تھا۔
بہرحال1971میں مختلف عالمی فورمز پر وزیر اعظم ٹروڈو نے بنگلہ دیش کی حمایت کی۔ بعد میں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے ان کی خدمات کے اعتراف میں بنگلہ دیش کا بڑا ایوارڈ بھی دیا۔ یہ ایوارڈ چند برس قبل ان کے بیٹے اور کینیڈا کے موجودہ وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے شیخ حسینہ سے مونٹریال میں وصول کیا تھا۔ یہ ایوارڈ بنگلہ دیش نے کئی پاکستانی شخصیات کو بھی دیا تھا، جن میں فیض احمد فیض، ملک غلام جیلانی ، پروفیسر وارث میر، غوث بخش بزنجو اور حبیب جالب شامل تھے ، یہ ایوارڈ ان شخصیات کی بیٹیوں اوربیٹوں عاصمہ جانگیر، حاصل بزنجو، سلیمہ ہاشمی، طاہرہ جالب اور حامد میر نے وصول کیا تھا۔ حامد میر نے بعد میں شیخ حسینہ کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے یہ ایوارڈ واپس کرنے کا اعلان کیا تھا۔
سنہ 1971کے بحران کے دوران کینیڈا نے پاکستان کے بارے میں ایک پیچیدہ اور کثیر الجہتی پالیسی اپنا ئی تھی۔ برطانوی سیاست دان رچرڈ پلکنگٹن نے اپنی کتاب ” قومی مفاد” میں اس پالیسی کا گہرا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بنگلہ دیش کے بحران کے وقت پاکستان اور کینیڈا کے بہت گہرے تعلقات تھے۔ کینیڈا پاکستان کو بڑے پیمانے پر ترقیاتی امداد بھی فراہم کر رہا تھا، اور یہاں تک کہ پاکستان کے نیو کلئیر پاور پروگرام میں اس کا پارٹنر بھی تھا۔ بنگلہ دیش کی طرف واضح جھکاو کے باوجود کینیڈا نے پاکستان کی امداد بند کرنے یا نیوکلئیر تعاون ختم کرنے کی دھمکی نہیں دی۔
اس کے بر عکس کینیڈا نے ایک ایسی پالیسی اختیار کی جس کے کئی پہلو تھے۔ کینیڈا نے فریقین پر زور دیا کہ وہ اس مسئلے کا پر امن حل تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ پاکستان اور انڈیا دونوں سے ضبط کی اپیل کی۔ اور انسانی بنیادوں پر دی جانے والی امداد جاری رکھی۔ پلکنگٹن کے خیال میں کینیڈا کی اس پالیسی کی وجہ سے کینیڈا اور پاکستان کے تعلقات بالکل ہی ختم ہونے سے بچ گئے۔ اس وقت چین اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ دونوں کھل کر پاکستان کی حمایت کر رہے تھے، اس لیے کینیڈا کی مختلف پالیسی کے بہت زیادہ اثرات نہیں پڑہ سکتے تھے، لیکں وزیر اعظم ٹروڈو نے امریکہ کی پالیسی کے برعکس ایک آزادانہ سوچ کا اظہار کسی نہ کسی شکل میں کر دیا تھا۔
پاکستان نے1998میں جوہری دھماکہ کیا۔ اس وقت جان کریچئین کینیڈا کے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے پاکستان کے خلاف پابندیوں کا اعلان کر دیا۔ ان پابندیوں میں ہر قسم کی فوجی ساز و سامان کی بر آمادگی پر پابندی، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دی جانے والی امداد کی معطلی ،اور اسلام آباد سے کینیڈین ہائی کمشنر کی واپسی جیسے اقدامات شامل تھے۔ گیارہ ستمبرکے بعد جب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے امریکہ کے ساتھ پارٹنر شپ کا اعلان کیا تو کینیڈا کے ساتھ تعلقات بھی نارمل ہو گئے۔
♠