بیرسٹر حمید باشانی
پاکستان کے ایک بڑے انگریزی اخبار کی ویب سائٹ پر چے گویرا کی ایک تصویر ہے۔ اس تصویر میں صدرایوب خان بھی ہیں۔ یہ تصویر غالباً 1965 میں چے کے دورہ پاکستان کے دوران کراچی ائر پورٹ پر لی گئی تھی۔ یہ مشہور مارکسسٹ لیڈر کا پاکستان کا دوسرا دورہ تھا۔ پہلی بار چے گویرا1959 میں پاکستان آئے، جب وہ مشرق وسطی اور تیسری دنیا کے دیگر ممالک کے دورے پر تھے۔ بہت لوگوں نے سوال اٹھایا ہے کہ اپنے وقت کا مشہور ترین مارکسسٹ، امریکہ مخالف، سامراج دشمن اور سویت دوست رہنما ایوب خان جیسے شخص سے کیوں مل رہا تھا، جس نے نا صرف امریکہ کے ساتھ فوجی اتحاد کیا ،بلکہ تمام ایسے علاقائی اور عالمی فوجی اتحادوں کا حصہ بن گیا، جو امریکہ کی سرپرستی میں سویت یونین کے خلاف قائم کیے گئے تھے۔
یہ ایک جواب طلب سوال ہے، جس کا جواب آئندہ کبھی ان ہی سطور میں دیا جائے گا۔ لیکن یہاں ہم چے گویرا کی شخصیت اور اس کی جدوجہد پر تھوڑی سی بات کر لیتے ہیں۔
چے گویرا دنیا بھر کے نوجوانوں میں ایک مقبول شخصیت ہیں، لیکن کیوبا میں ان کی مقبولیت کی کوئی حد نہیں ہے۔ کیوبا میں ہر چیز پر چے گویرا کا سایہ نظر آتا ہے۔ کیوبا کی دوسری دو بڑی شخصیات فیڈل کاسترو کی مقبولیت یا ہوزے مارٹی کا احترام اپنی جگہ ، لیکن جو مقام چے کو کیوبا میں حاصل ہے، شاید ہی دنیا میں اس کی کوئی مثال موجود ہو۔ اس بات کا اندازہ سیاح کو کیوبا کے ہوائی جہاز میں قدم رکھتے ہی ہو جاتا ہے، جہاں چے سے متعلق گیت سنائی دنیا شروع ہوتے ہیں۔ ہوانا ائیر پورٹ سے اس کی قد آور تصاویر دیکھ کر کیوبا کے لوگوں کا چے سے پیارو محبت و پیار کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہاں چے کے حوالے سے ایسا ماحول دکھائی دیتا ہے کہ کسی سیاح کے لیے چے گویرا کی یاد گاریں ، میوزیم اور مزار دیکھنا لازم ہو جاتا ہے۔
چے کی سب سے بڑی اور اہم ترین یاد گار کیوبا کے ایک چھوٹے سے شہر سنتا کارلا میں واقع ہے۔ سنتا کارلا ہوانا سے دو سو اکسٹھ کلو میٹر دور ہے۔ دونوں شہروں کے درمیان سفر کے لیے ہوائی جہاز، ٹرین ، بس اور پرائیویٹ کاریں موجود ہیں۔ میں نے کیوبا کے سفر کے دوران ہوانا سے سنتا کارلہ تک بس کے ذریعے جانے کا پروگرام بنایا۔ میری ٹورسٹ گائیڈ ایلیسیا کے لیے کچھ مصر وفیات کی وجہ سے اس سفر پر جانا ممکن نہیں تھا، اس لیے میں نے اکیلے ہی جانے کا فیصلہ کیا۔ ہوانا سے سنتا کارلہ کے لیے روزانہ بس سروس موجود ہے۔ ہر گھنٹے بعد ہوانا سے سنتا کارلہ کے لیے ایک بس نکلتی ہے۔ میں نے ایکسپرس بس لی جو راستے میں رکے بغیر یہ سفر طے کرتی ہے۔ اس بس کو سنتا کارلہ پہنچنے میں تقریباً چار گھنٹے لگے۔
سنتا کارلہ میں جس جگہ چے کی باقیات دفن ہیں، اس کو” پلازا چے گویرا ” کہا جاتا ہے۔ اس جگہ چے کے ساتھ اس کے دوستوں کی باقیات بھی دفن ہیں ، جو بولیویا میں مسلح بغاوت کے دوران شہد ہوئے تھے۔ یہاں پر چے گویرا کا بائس فٹ کا مجسمہ نصب ہے۔ چے کی باقیات کو 1997 میں بولیولیا میں دریافت کیا گیا تھا۔ چے کی باقیات کے علاوہ یہاں ایک میوزیم بھی ہے ، جہاں چے سے وابستہ چیزیں رکھی گئی ہیں۔ چے گویرا کی باقیات کی تدفین اور یاد گار کے لیے سنتا کارلا کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کہ بتیستا کے خلاف1958 کی جنگ میں چے گویرا اور اس کے ساتھیوں نے اس شہر کو فتح کیا تھا۔ یہ کیوبا کے انقلاب کے سلسلے کی ایک فیصلہ کن لڑائی تھی، جس کے نتیجے میں بتیستا کو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا تھا۔
اسی شہر کے دوسرے حصے میں ایک ٹرین ابھی تک موجود ہے، جو بتیستا کا فوجی ساز و سامان لے کر جا رہی تھی، جہاں چے گویرا اور اس کے ساتھیوں نے اس کو پٹری سے اتار دیا تھا، اس ٹرین کی باقیات ابھی تک موجود ہیں۔ اس یاد گار کے بارے میں نادرن لائف کی رپورٹر لز فلمنگ نے ایک بار لکھا تھا کہ اس یاد گار کی سیر تاریخ کی سیر کی طرح ہے۔ قطع نظر اس بات کہ آپ کے سیاسی نظریات کیا ہیں، یا آپ اس آدمی کے بارے میں کیا نظریات رکھتے ہیں، چے سے وابستہ چیزیں عوام اور انکے لیڈر کے درمیان دنیا کی طویل ترین محبت کی ایک جھلک دکھاتی ہیں۔ اس یاد گار کے بارے میں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کی تعمیر کے دوران سنتا کارلہ کے پانچ لاکھ لوگوں نے رضا کا رانہ طور پر چار لاکھ گھنٹے کام کیا۔
اس کمپلیکس میں گویرا کی زندگی کے مختلف پہلوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔یہاں پر اس کے گوئٹے مالا اور اقوام متحدہ میں گزارے ہوئے وقت کی جھلکیاں دکھائی گئی ہیں، اور اس کا وہ مشہور الوداعی خط بھی موجود ہے، جو اس نے فیڈل کاسترو کو لکھا تھا۔دنیا کا یہ مقبول ترین انقلابیارنسٹو گویرا ڈی لا سرنا، جسے چی گویرا کے نام سے جانا جاتا ہے، 14 جون 1928 کو روزاریو، ارجنٹائن میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوا۔ انہوں نے بیونس آئرس یونیورسٹی میں طب کی تعلیم حاصل کی ۔ میڈیکل کی تعلیم کے دوران اس نے جنوبی اور وسطی امریکہ کا وسیع سفر کیا۔
سفرکے دوران اس نے جس وسیع غربت اور جبر کا مشاہدہ کیا، اس نے اسے اس بات پر قائل کر لیا کہ جنوبی اور وسطی امریکہ کے مسائل کا واحد حل انقلاب ہے۔ اس نے اس گہرے مشاہدے کے علاوہ مارکسسٹ نظریات کو بھی اپنایا اور ایک پیشہ ور انقلابی کے طور پر میدان عمل میں کود پڑا۔ بعد میں انقلابی جدوجہد کے دوران وہ میکسیکوچلے گئے، جہاں1955 میں ان کی ملاقات کیوبا کے انقلابی رہنما فیڈل کاسترو سے ہوئی۔ گویرا نے کاسترو کی تحریک میں شمولیت اختیار کی اور کیوبا کے ڈکٹیٹر فلجینسیو بتیستا کے خلاف اس کی گوریلا جنگ کی حتمی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا۔
کاسترو نے 1959 میں بتیستا کا تختہ الٹ کر کیوبا میں اقتدار سنبھال لیا۔ 1959-1961 تک،چےگویرا نیشنل بینک آف کیوبا کے صدر اور پھر صنعت کے وزیر رہے۔ اس عہدے پر، اس نے کیوبا کے سفیر کے طور پر دنیا کا سفر کیا۔ کیوبا میں اس نے زمین کی دوبارہ تقسیم اور صنعت کو قومیانے کے منصوبوں کو عمل جامہ پہنانے کا آغاز کیا۔ اس نے کاسترو کی حکومت کی سوویت یونین کے ساتھ اتحاد کی طرف رہنمائی کی۔ آگے چل کر اس نے ترقی پذیر دنیا کے دیگر حصوں میں انقلاب پھیلانے کی خواہش لے کر عالمی جدوجہد کا غاز کیا اور 1965 میں کاسترو نے اعلان کیا کہ گویرا کیوبا چھوڑ چکے ہیں۔
کیوبا چھوڑنے کے بعد گویرا نے کئی مہینے افریقہ، خاص طور پر کانگو میں گزارے، جہاں انہوں نے باغی افواج کو گوریلا جنگ میں تربیت دینے کی کوشش کی۔ ان کی کوششیں ناکام ہوئیں اور 1966 میں وہ چپکے سے کیوبا واپس آگئے۔ کیوبا سے اس نے بولیویا کا سفر کیا تاکہ رینی بیرینٹوس کی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والی افواج کی قیادت کر سکے۔ امریکی مدد سے بولیویا کی فوج نے گویرا اور اس کے باقی ماندہ جنگجوؤں کو پکڑ لیا۔ اسے 9 اکتوبر 1967 کو بولیویا کے گاؤں لا ہیگویرا میں شہد کیا گیا اور اس کی لاش کو خفیہ مقام پر دفن کر دیا گیا۔ 1997 میں اس کی باقیات کو دریافت کر کہ کیوبا واپس لایا گیا، اور سنتا کارلا میں دوبارہ دفن کیا گیا۔ کیوبا کا سفر کرتے ہوئے سیاح لز فلمنگ کی اس بات کی تصدیق کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ کیوبا کے لوگوں کی چے گویرا سے محبت واقعی کسی ملک کے عوام کی اپنے لیڈر سے طویل ترین محبت ہے۔
♣
One Comment