بیرسٹر حمید باشانی
بیسویں صدی کا پہلا نصف دنیا میں عظیم اتھل پتھل اور گہری تبدیلیوں کا دور تھا۔ نو آبا دیاتی نظام کی پرانی شکل دم توڑ رہی تھی۔ ایک نئے طرز کا عالمی نظام اس کی جگہ لے رہا تھا۔ سوویت یونین ایک سپر طاقت کے طور پر ابھر رہا تھا۔ برطانیہ کا سورج غروب ہو رہا تھا۔ اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ دنیا کی ایک نئی طاقت کے طور پر اس کی جگہ لے رہی تھی۔ لیکن کچھ دانش وروں کا خیال تھا کہ1947 میں جب ہندوستان سے نو آبا دیاتی نظام کی بساط لپیٹی جاری تھی، تو اس وقت جنوبی ایشیا میں امریکہ کے کوئی واضح سیکورٹی یا معاشی مفادات نہیں تھے۔ اور اگر تھے بھی تو اس وقت امریکہ اس کے لیے نا تو تیار تھا، اور نہ ہی اس سلسلے میں اس نے کوئی پالیسی واضح تھی۔ ایسے دانش ورں کے خیالات سے اتفاق ممکن نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ بر صغیر سے برطانوی انخلا کے نتائج اور اثرات کے بارے میں بہت حساس تھا، اور اس سلسلے میں صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے تھا۔ امریکہ کی اس وقت کی تاریخی اور سفارتی دستاویزات اس کا ثبوت ہیں ۔امریکہ کی اس وقت کی جنوبی ایشیا سے متعلق دستاویزات یہ دکھاتی ہیں کہ امریکہ کو جنوبی ایشیا کے بارے میں واضح پالیسی اختیار کرنے میں چند سال ضرور لگے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہندوستان کی آزادی اور پاکستان کے قیام کے ابتدائی برسوں میں امریکہ یہاں کے معاملات سے لا تعلق تھا۔
امریکہ نے1947 سے ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر میں ہونے والی پہلی جنگ میں دلچسپی لینی شروع کر دی تھی۔ جنوری 1948 میں مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں چلے جانے کے بعد امریکہ نے عالمی فورم پر فیصلہ کن کردار ادا کرنا شروع کر دیا تھا۔ لیکن اس خطے میں سوویت یونین کے مفادات اور سوشلسٹ نظریات کی پیش قدمی اور خطے کی سٹریٹجک اہمیت کے پیش نظر عملی طور پراس کو واضح پوزیشن لینے کے عمل میں چند سال لگے۔ لیکن یہ سفر امریکہ نے بڑی تیز رفتاری سے طے کیا۔ اگلے چند برسوں میں اپنے منصوبے کے مطابق امریکہ اس خطے میں برطانیہ کی جگہ لے چکا تھا، اور1954 میں اس نے پاکستان کے ساتھ دفاع کے معاہدے پر دستخط کر دئیے تھے۔
اس طرح صرف سات سال کے عرصے میں امریکہ پاکستان کے ساتھ ایک انتہائی اہم ترین فوجی معاہدہ کر چکا تھا، جس کا واضح مقصد خطے میں سوویت مداخلت روکنا، کمیونزم کے خلاف عالمی محاذ تشکیل دینا اور اپنی ضروریات کے مطابق اس خطے کی سیکورٹی کے بارے میں اقدامات کرنا شامل تھا۔ یہ معاہدہ اس بات کا اظہار تھا کہ امریکہ اس خطے کی سیکورٹی کہ ذمہ داری میں شامل ہو چکا ہے۔لیکن اس کے باوجود یہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ کے لیے جنوبی ایشیا کی کیا اہمیت تھی۔یہ بات بڑی حد تک درست ہے کہ اس وقت خطہ اپنے وسائل کے حوالے سے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ برطانیہ کے نکلتے وقت جنوبی ایشیا بہت حد تک لوٹ کھسوٹ کا شکار ہو چکا تھا، اور اس کے معاشی حالات نا گفتہ بہ تھے۔ یہ خطہ اس وقت امریکی منڈی ، تجارت، یا سرمایہ کاری کے لیے کوئی بڑی کشش نہیں رکھتا تھا۔ لیکن سٹرٹیجک اعتبار سے یہ خطہ سوشلسٹ نظریات کے خلاف امریکہ کی عالمی جنگ کے تناظر میں غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا۔
پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع امریکہ کی اس عالمی لڑائی میں اور بھی اہم تھا۔ سوویت یونین اور چین کے ساتھ اس کی سرحدیں ملتی تھیں۔مشرق وسطی سے سمندر کے ذریعے رسائی اور قربت تھی ۔ اس طرح امریکہ کو پاکستان کی شکل میں خلیج فارس کے قریب سوویت یونین کے خلاف ایک اہم پوسٹ نظر آ رہی تھی۔نو آبا دیاتی نظام میں توڑ پھوڑ کی وجہ سے ایشیا کا پورا خطہ ہی اس وقت ایک خاص قسم کی اہمیت اختیار کر چکا تھا۔ اس وقت برٹش ملایا، ڈچ انڈونیشیا اور فرنچ انڈو چائینا میں نو آبا دیاتی نظام کے خلاف لڑائیاں جاری تھیں۔ سیاسی اور سماجی انقلاب فلپائن، تھائی لینڈ اور برما کے دروازے پر دستک دے رہے تھے، اور سب سے بڑھ کر چین میں چینک کیائی شیک کے زیر انتظام نظام کو انہدام کا خطرہ تھا۔
امریکہ کو دوسرا بڑا خطرہ جنوبی ایشیا کے مقامی سوشلسٹ نظریات سے تھا۔ اس وقت ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی ایک بہت بڑی قوت بن چکی تھی، جس سے کئی لوگ خوف محسوس کر رہے تھے۔ ہندوستان کی آزادی کے فورا بعد کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے پے در پے کامیاب ہڑتالوں اور مظاہروں کے ذریعے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس پارٹی کی قیادت میں کئی جگہوں پر مسلح بغاوت کے واقعات بھی ہوئے تھے۔ اس کے نتیجے میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا تھا۔ پارٹی کے رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ان کے اثاثے ضبط کر لیے گئے تھے۔ اور پارٹی کے خلاف پوری ریاستی مشینری کو پوری قوت سے استعمال کیا جا رہا تھا۔
حکمران اشرافیہ کا خیال تھا کہ سوویت یونین کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی مالی امداد کر رہا ہے۔ اور بھارت کی غیر جانب دارانہ پالیسی کے خلاف پارٹی کو استعمال کر رہا ہے تاکہ بھارت عالمی سیاست میں غیر جانب دار پوزیشن نہ اختیار کر سکے۔دوسری طرف آزادی کے فورا بعد ہی پنڈت نہرو نے ماسکو کو بہت ہی خصوصی حیثیت دینے اور انتہائی خصوصی تعلقات قائم کرنے کی کوششوں کا آغاز کر دیا تھا۔ نہرو نے اپنی بہن وجے لکشمی پنڈت کو ماسکو میں اپنا سفیر مقرر کر دیا تھا۔ لیکن سٹالن نے اس تقرری کو خاص اہمیت نہیں دی اور لکشمی پنڈت سے ملاقات ہی نہیں کی۔
البتہ ماسکو میں حاکم مسلسل نہرو کی بہن پر زور دے رہے تھے کہ بھارت سرد جنگ میں غیر جانب داری کی پالیسی ترک کرے اور سوویت یونین کا ساتھ دے۔ اس بات کو لے کر لکشمی پنڈت اور مقامی حکام کے درمیان کئی بار تلخ کلامی بھی ہو چکی تھی۔اس کے باوجود عام تاثر یہ تھا کہ سوویت یونین بھارت کو عالمی سیاست میں اپنے قریب لانے میں کامیاب ہو رہا ہے۔ اس تاثر کے پیش نظر بھارت نے جب 1948 میں امریکہ سے مالی امداد کی درخواست کی تو اسے مسترد کر دیا گیا۔
اس ساری صورت حال کے باوجود صدر ہیری ٹرومین اور ان کی انتظامیہ کا خیال تھا کہ جنوبی ایشیا کے معاملات میں صرف اس حد تک مداخلت کی جائے جو اس خطے میں خود مختار، مستحکم ریاستوں کے قیام کے لیے ضروری ہے ، تاکہ یہاں پر سوویت یونین کو مداخلت کا موقع نہ مل سکے۔لیکن ان ریاستوں کے لیے یہ بھی ضروری ہو کہ وہ مغرب کے بارے میں دوستانہ رویہ رکھتی ہوں، اور اندرونی یا بیرونی طور پر کمیونسٹ خطرے کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہوں، اور عالمی سیاست میں مغربی سرمایہ دارانہ بلاک کے ساتھ کھڑی ہوں۔
میک موہن نے اپنی کتاب “جنوبی ایشیا میں سرد جنگ کی امریکی پالیسی” میں اس امر کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھاہےکہ ہیری ٹرومین کی انتظامیہ کا عزم تھا کہ وہ جنوبی ایشیا میں امن ، استحکام اور معاشی ترقی کے لیے کام کریں گے، اور خطے کی تمام ریاستوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کریں گے۔ اس وقت کی سٹیٹس ڈیپارٹمنٹ اور سی آئی اے کی کئی رپورٹس میں یہ پالیسیاں پیش کی گئیں، جو پاکستان امریکہ کے تعلقات کی ابتدائی نوعیت اور خطے میں عالمی طاقتوں کے مفادات اور مسئلہ کشمیر جیسے تنازعات کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں، جن کا تفصیلی احوال آیندہ اقساط میں بیان کیا جائے گا۔
♣