بیرسٹرحمید باشانی
یہ بلا شبہ آزاد کشمیر کی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج تھا۔ آزاد کشمیر کم آبادی والا علاقہ ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق یہاں کی آبادی چار ملین کے آس پاس ہے۔ یہ آبادی دور دراز پہاڑوں اور دیہاتوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ شہروں اور قصبوں میں آمد و رفت کے لیے لوگوں کو انتہائی دشوار گزار راستوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ بہت سارے علاقوں کو اب بھی سڑکوں تک رسائی نہیں ہے، اور جہاں سڑکیں میسر ہیں وہ بھی ٹوٹی پھوٹی ہیں، جگہ جگہ خوفناک گڑھے ہیں۔ ان سڑکوں کو کئی لوگ ہالی وڈ کی کسی ڈر وانی فلم کی خون آشام سڑکوں سے تشبیہ دیتے ہیں، جو موت کا “ٹریپ” یعنی جال کی طرح ہوتی ہیں۔ چالیس لاکھ کی آبادی میں سے اٹھارہ سال سے ساٹھ سال کے درمیان کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ اس علاقے سے نکل کر پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں بسلسلہ روز گار مقیم ہے۔
دوسری طرف آبادی کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے، جو ذ ہنی اور دلی طور پر عوامی حقوق کی اس تحریک میں شامل ہے، لیکن وہ جسمانی طور پر بنفس نفیس اس احتجاج اور مارچ کا حصہ نہیں بن سکتا۔ ان میں عورتوں اور بچوں کے علاوہ ایسے لوگوں کی بڑی تعداد ہے، جو صحت کے مسائل کی وجہ سے اس طرح کے احتجاج کا حصہ نہیں بن سکتے۔ یہ احتجاج اتنا آسان نہیں جتنا بظاہر نظر آتا ہے۔ اس میں میلوں پیدل چلنا پڑتا ہے۔ پولیس کے ساتھ آنکھ مچولی ہوتی ہے۔ آنسو گیس اور پولیس تشدد کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ طویل سفر کے دوران کھانے پینے کے مسائل بھی ہوتے ہیں، اور راستے میں ٹوائلٹ وغیرہ کی بنیادی ضروریات بھی میسر نہیں ہوتی۔ راتوں کو جاگنا پڑتا ہے، یا سڑکوں پر سونا پڑتا ہے۔ اس لیے اس تحریک کا دل وجان سے حصہ ہونے کے باوجود ہزاروں لوگ اس میں شمولیت سے معذور ہوتے ہیں، لیکن وہ بھی تحریک کا حصہ ہیں اور مطالبات کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔
اگر ایسے لوگوں اور بسلسلہ روز گار باہر مقیم لوگوں کو نکال دیا جائے تو آزاد کشمیر کی ایک تھوڑی سی آبادی بچتی ہے، جو اس طرح کی پر مشقت مارچ یا احتجاج میں شامل ہو سکتی ہے۔ ان سارے فیکٹرز کو سامنے رکھنے کے باوجود اگر احتجاج میں شامل ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہو، اور کچھ اندازوں کے مطابق لاکھوں میں ہو تو یہ حکمران طبقے کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج اور لمحہ فکریہ ہے۔ خصوصاً جب عام آدمی اپنے محدود وسائل کے باوجود دامے، درمے سخنے تحریک میں شامل ہو رہے ہوں۔ تحریک کی قیادت کے لیے کوئی قومی ہیرو، سٹار یا نامی گرامی شخصیت نہ ہو۔ کسی کنسرٹ یا محفل موسیقی کا اہتمام نہ ہو۔ بریانی کی بھینی بھینی خوشبو نہ ہو اور عام آدمی اپنے عام لیڈر کی قیادت میں جان ہتھیلی پر رکھ کر نکل پڑا ہو تو یہی وہ مقام ہوتا ہے، جب حکمران اشرافیہ کو اپنے دامن میں جھانکنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ یہ تو وہی عوام ہیں ، جن کا مینڈیٹ لیکر وہ آئے تھے، اور کیا وہ مینڈیٹ باقی ہے ؟ یا یہ وہ مقام ہے، جہاں انہیں واپس عوام میں جا کر اپنا مینڈیٹ ریفرش کرنا چاہیے ؟
لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوتا۔ اپنے گریبان میں جھانکنے کا ہمارے ہاں رواج نہیں ہے۔ اس طرح کی لڑائیوں میں حق اور سچ کو ہی سب سے پہلے پس پشت ڈالا جاتا ہے۔ حقیقت تسلیم کرنے کے بجائے پلٹ کر وار کیا جاتا ہے۔ اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے دوسرے کا گریبان پکڑا جاتا ہے۔ تحریکوں اور ان کی لیڈرشپ میں کیڑے نکالے جاتے ہیں۔ ان کو غدار، غیر محب وطن اور غیر ملکی ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔ تحریک میں غیر ملکی ہاتھ تلاش کیے جاتے ہیں۔ اور بالی ووڈ کی حالیہ فلموں کے سٹائل پر پڑوسی دیش کو اس ساری کاروائی کا زمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے یہ دیکھے بغیر کے اگر پڑوسی ملک میں آپ کی اتنی بڑی آبادی کو گراس روٹ لیول پر کنٹرول کرنے کی صلاحیت ہے کہ وہ پردے کے پیچھے بیٹھ کر ہزاروں لاکھوں لوگوں کو سڑکوں پر لا سکتا ہے تو پھر آپ حکومت کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ آپ کا حکومت کرنے کا حق اور اختیار ختم ہو چکا ہے۔ آپ کی اتنی بڑی آبادی کسی غیر ملکی طاقت کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن چکی اور آپ کو خبر ہی نہیں ہے۔
معاملہ یہ ہے کہ یہ ایک گراس روٹ تحریک ہے۔ اس میں آپ کے گامے ماجھے شامل ہیں۔ اس تحریک میں آپ کا کسان، استاد، وکیل اور تاجر سب ہی شامل ہیں۔ ان کو اس تحریک کے بارے میں پوری جانکاری ہے۔ تحریک کے لیے گاڑی کس نے دی۔ کھانے کا بل کس نے ادا کیا۔ یہ سب کچھ ان کو معلوم ہے۔ اس لیے حکمران جب ان کو بتاتے ہیں کہ اس تحریک کو کوئی اور چلا رہا ہے تو حکمران کا جھوٹ ان کے سامنے عیاں ہوتا ہے۔ تحریک کے تین بنیادی مطالبات ہیں۔ بجلی کی پیداواری لاگت پر فراہمی، آٹے کی سبسڈی کی بحالی، اور سرکاری اخراجات اور مراعات میں کمی۔ ان تینوں مطالبات کا تعلق انسان کی بنیادی ضروریات سے ہے۔
نجانے حکمران طبقات کو ان سیدھے سادے عوامی مطالبات میں غیر ملکی مداخلت اور سازش کہاں سے نظر آتی ہے۔ اس سارے قصے میں اگر کوئی سازش ہے تو وہ یہ ہے کہ حکمران اشرافیہ اپنی مراعات سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔ آٹا اور گندم کی سبسڈی، بجلی کی قیمتوں کا تعین حکمران اشرافیہ کرتی آئی ہے، اس کے لیے جو میکانزم بنایا گیا ہے، اس میں کئی ” سٹیک ہولڈرز” شامل کیے گئے ہیں۔ اس سارے میکانزم میں قدم قدم پر کمیشنز، اور کک بیکس ہیں۔ سٹیک ہولڈرز اس پورے عمل مین قدم قدم پر کروڑوں روپے بنا رہے ہیں۔ اس دولت میں حکمران اشرافیہ کا حصہ ہوتا ہے۔ رہا سوال سرکاری ملازمین کی مراعات کا تو اس میں اب کوئی را ز نہیں رہا ہے۔ عام آدمی کو بھی پتہ ہے کہ ایک سرکاری ملازم کی طرف سے گاڑی کے ذاتی استعمال پر جو اخراجات آتے ہیں، وہ اس کی تنخواہ سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ سرکاری نوکریوں کی کشش کی وجہ تنخواہ کبھی نہیں رہی، اصل کشش تو ان مراعات میں ہے۔
اس احتجاجی تحریک کے جن تین مطالبات میں جو کچھ مانگا جا رہا ہے، وہ اگر عوام نہ بھی مانگیں تو پھر بھی اب وقت آگیا ہے کہ حکمران اس طرح کے مسائل کا خود ہی حل نکالیں اس سے پہلے کے بہت دیر ہو جائے۔ ظلم اور انصافی پر قائم یہ بندوبست لمبے عرصے تک اس لیے چلتا رہا کہ حکمران اس پورے نظام پر سیکریسی کی ایک چادر تان رکھی تھی۔ کسی کو علم ہی نہیں تھا کہ کہ بجلی کے ایک یونٹ کی پیداواری لاگت کتنی ہے۔ اب لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ کہ بجلی کے ایک ہونٹ کی پیداواری لاگت دو روپے انسٹھ پیسے ہے تو ہم ساٹھ ستر روپے فی یونٹ کیوں چارج کیا جاتا ہے۔ اب لوگ جانتے ہیں کہ امریکہ میں کوئی سول سرونٹ سرکاری گاڑی کا ذاتی استعمال کا سوچ بھی سکتا تو ہمارے ہاں یہ سرکاری پلیٹوں والی گاڑیاں ریستو رانوں اور مارکیٹوں میں رات گئے کیسے گھو متے ہیں۔
دوسرے الفاظ میں یہ وہ دور ہے جس میں ہر قسم کی معلومات تک لوگوں کو رسائی ہے، اور معلومات کو پھیلانے کے ذرائع موجود ہیں۔ ماضی کی روایات کو برقرار رکھنے کے لیے حکمران اشرافیہ نے ان ذرائع کو قابو کرنے کی بہت کوشش کی ہے۔ معلومات تک رسائی کے حق اور آزادی اظہار رائے پر پابندی لگانے کی کوشش کی ہے۔ اس مقصد کے لیے کئی آرڈیننس اور بل لائے گئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ابلاغ کے ان ذرائع کو قابو نہیں کیا جا سکا۔ ان حالات میں عوامی شعور سے مسلح کسی تحریک کو دبانا ممکن نہیں ہوتا، چنانچہ حکمران اشرافیہ کو با امر مجبوری کچھ مطالبات تسلیم کرنے پڑے، لیکن تحریک ابھی تمام نہیں ہوئی، ایک نئے مر حلے میں داخل ہوئی ہے۔
♠