جنگ کے بعد کیا ہوگا؟

بنجمن نتین یاہو اسرائیل کے اب تک کے سب سے زیادہ لمبے عرصے تک حکومت کرنے والے سیاست دان ہیں۔ ان کا پہلا دور اقتدار 1996 سے ٍ1999 تک ، دوسرا 2009 سے 2021 تک ۔ اورتیسرا 2022 سے اب تک۔

سال 2019 میں ان کی وزارت عظمی کے دوران ہی ان پر فراڈ اور رشوت خوری کےمقدمات درج ہوئے ۔ 2020 میں ان کے خلاف عدالت میں کاروائی شروع ہوئی ۔ لیکن کووڈ کی وجہ سے مقدمے کی کاروائی ملتوی ہوتی گئی ۔ الزام ثابت ہونے پر ان پر تین سے دس سال قید کی سزا کا امکان تھا۔ اسی دوران ملک میں ان کے خلاف احتجاج اور مظاہرے شروع ہوگئے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا۔ انھوں نے انتخابات کروائے اور ہار گئے ۔ 2021 سے 2022 تک وہ اپوزیشن لیڈر تھے۔ لیکن مخلوط حکومت جلد ہی آپسی اختلافات کی وجہ سے ختم ہوگئی ۔ پھر نئے انتخابات کا اعلان ہوا اور 2022 میں دوبارہ اقتدار میں آگئے ۔اکثریت پھر بھی نہ حاصل کرسکے اور انتہا پسند یہودیوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنائی۔

حکومت میں آنے کے بعد ان کا پہلا کام اپنے پر کرپشن پر مبنی مقدمات کا خاتمہ تھا اور اس سلسلے میں انھوں نے متعلقہ عدالتوں کے اختیارات کم کرنے کے لیے قانون سازی کی۔ جس پر پھر ان کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا۔ سپریم کورٹ نے اس قانون سازی کو مسترد کردیا۔نتین یاہو کی حکومت کے خلاف احتجاج جاری تھا کہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس نے اسرائیل پر حملہ کردیا جس میں 1200 افراد کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ یادرہے کہ مسلمانوں کا دشمن کو قتل کرنے کا چودہ سو سال پرانا اپنا ایک سٹائل ہے۔ اور 250 سے زیادہ مردو خواتین یرغمال بنائے گئے۔اس حملے نے نیتن یاہو کو ایک نئی زندگی عطا کردی۔

ماہرین کے مطابق اسرائیلی انٹیلی جنس نے حکومت کو متنبہ کیا تھا کہ حماس کسی غیر معمولی سرگرمی میں مشغول ہے ۔ لیکن نتین یاہو حکومت چونکہ اپنے مقدمات کو ختم کرنے پر لگی ہوئی تھی اور انٹیلی جنس وارننگ پر خاص توجہ نہیں دی۔بقول حکومت کے حماس تو ہمیشہ کوئی نہ کوئی کاروائی کرتی رہتی ہے۔حماس کے حملے کے بعد اسرائیلی قوم تمام اختلافات بھلا کر نیتن یاہوکی قیادت میں متحد ہوگئی۔ پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر حماس کے خلاف سخت کاروائی کی حمایت کی اور پھر جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔

جنگ کچھ لمبی ہوئی تو اسرائیلی شہریوں نے نتین یاہو کے خلاف پھر مظاہرے شروع کردیے اور سیز فائر کا مطالبہ کیا اور کہا کہ پہلے یرغمالی رہا کروائے جائیں اور پھر اگر کاروائی کرنی ہے تو کی جائے ۔ نتین یاہو جب عوامی دباؤ پر جنگ بند کرنے یا یرغمالیوں کی رہائی کا سوچتے تو پارلیمنٹ میں اس کےاتحادی انتہا پسند یہودی حکومت سے علحیدہ ہونے کی دھمکی دیتے ۔ نیتن یاہو اپنی حکومت بھی کھونا نہیں چاہتے تھے۔ دوسری طرف حماس بھی اپنی مظلومیت کا کھیل جاری رکھے ہوئے تھی۔ وہ اپنے بندے تو مروا رہی تھی لیکن یرغمالیوں کی رہائی بارے سنجیدہ نہیں تھی۔ حماس نے اپنے ہی شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا اور پوری دنیا کو بتایا کہ کیسے اسرائیلی معصوم انسانوں کے قتل عام میں مصروف ہیں۔ درمیان میں کچھ دن سیز فائر ہوا ۔ ایک اسرائیلی کے بدلے 10 یا بیس فلسطینی قیدی رہا ہوئے۔ دنیا نے دیکھا کہ حماس کے جنگجو جس شان و شوکت سے اسرائیلی یرغمالی رہا کرتے تھے کہ جیسے انھوں نے دنیا فتح کر لی ہو۔

اب چونکہ جنگ بندی ہو چکی ہے۔ کچھ آفٹر افیکٹس کے طور پر چھوٹی موٹی بمباری جاری رہ سکتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حماس باقی ماندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرتی ہے کے نہیں۔۔۔

جیسے ہی اسرائیل کے حالات نارمل ہوئے تو پھر بنجمن نتین یاہو کا اقتدار بھی ختم ہوجائےگا۔ اسرائیل موجود رہے گا۔ اسرائیل میں تو نئی قیادت آ جائے گی ۔ اپنے عوام کی تعلیم، صحت و سماجی انصاف کے کام جاری رکھے گی۔ لیکن سوال یہی ہے کہ کیا حماس جو کافی حد تک ختم ہوچکی ہے کیا جذبہ جہاد سے باز آئے گی؟ پہلے تو مظلومیت کا کارڈ کھیل کر یورپی ممالک امداد کردیتے تھے جو عوام پر خرچ کرنے کی بجائے ہتھیاروں کے انبار جمع کرنے پر صرف ہوجاتی تھی۔۔۔ لیکن اب تو یورپ سمیت کوئی بھی ملک فلسطینیوں کو امداد دینے پر تیار نہیں۔ اب فلسطینیوں کو اپنے حالات خود ہی درست کرنے ہیں۔

شعیب عادل

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *