صحافت  یا دکانداری ؟؟

آیئنہ سیدہ

m2_fa_rszd

صحافت کے بارے میں عوام کی عمومی رائے یہی ہے کہ یہ معلومات حاصل کرنے کا واحد طریقہ ہے اسکے  مقا صد میں عوام میں انصاف اور جمہوریت کے بارے میں  شعور اجاگر کیا جانابھی شامل ہے۔صحافیوں کی مستند تنظیموں کے مطابق صحافتی اقدارکا مطلب ہی صحافی  برادری کی طرف سے ایسی کوششیں ہیں جس میں اس بات کو یقینی بنایا جا  سکے کہ  معاشرے کے باشعور و تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ ہر دو قسم کے افراد کو معلومات کی فراہمی اس طرح یقینی بنائی جائےکہ یہ معلومات غیر جانبدارانہ ، مکمل اور مستند ہوں۔

سنہ ٢٠٠٢ کے بعد پاکستانیوں کا پیشہ ورصحافیوں اور روایتی تجزیہ کاروں کے علاوہ ایک نئی قسم سے پالا پڑا جس کو اینکر پرسن کا نام دیا جاتا ہے ۔عالمی طور پرنیوزاینکرز کی بھی کچھ تعلیمی اور پیشہ وارانہ قابلیتیں ہوتی ہیں مثلا کسی بھی اینکر کو اپنے شو کی میزبانی اور ایڈیٹنگ کا 65 فیصد خود نبھانا ہے۔ اس کی اپنی رپورٹنگ 25 فیصد ہوگی اور اپنے شو کا بقیہ انتظام  دس فیصد وغیرہ بھی وہ خود کرے گا۔

اس تمام ذمہ داری کے دوران نیوزڈاریکٹر اس کی مدد کرے گا اپنے نیوز آئیٹم پر شو کے دوران ایک اینکر کو بے تکان ، بلاوجہ بولنے پر پذیرائی شاید ہمارے ملک میں تو مل جاتی ہے مگر  عالمی سطح پر اصل عزت افزائی کا موجب اینکر کی نیوز آئیٹم کے بارے میں مستند معلومات ، صحیح وقت کاتعین اور معلومات کا صحیح استعمال ہے۔

خبریں سنانے والےاوران پر تجزیہ کرنے والے اینکرز کے لیے ضروری ہے کہ ان کو مقامی  سے لے کر بین الا اقوامی سیاسیات ،قانون ،معا شیات اور ثقافت کا بھر پور علم ہو وہ بہترین صحافتی اقدار کا علم  رکھتے ہوں اور ان پر عمل کرنے کی مسلسل کوشش کرتے رہیں ۔

سیاسی شوز کے دوران انکو بہتر الفاظ کے چناؤ اور اپنے جذبات پر قابو رکھنے کا تجربہ بھی ہو اور اپنے پروگراموں میں موجود سیاسی شخصیات اور تجزیہ کاروں کو قابو میں رکھنے کا ہنر بھی جانتے ہوں۔پروگرام کے دوران کبھی  بھی ایسا محسوس  نہیں ہونا چاہیے کہ  موڈریٹر کی کرسی پر اینکر نہیں بلکہ مرغے یا ریچھ اور کتے لڑانے والا مداری جلوہ افروز ہے۔

پاکستان کی صحافتی تاریخ  پر نظر ڈالیں تو آپکو فیلڈ رپورٹرز کے فرائض نبھاتے جانفشاں افراد بھی ملیں گے جنہوں نے اپنی جانوں پر کھیل کراپنی  جان کی دشمن سول ؤ ملٹری اشرفیہ کے پول کھولے ، آپ کو زیادہ سرکولیشن کی اخباروں میں لکھتے بکاؤ تجزیہ کار بھی ملیں گے جنہوں نے اپنی اولادوں کو ولایت میں تعلیم دینے کے لیے پاکستان کے نجات دھندہ ،منتخب جمہوری رہنماؤں کے خون میں ہاتھ ڈبوئے اور پھر ہوا کا رخ بدلتے دیکھ کر جمہوریت کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو کر پاک پوتر ہونے کی بہترین اداکاری بھی کی۔

یہ مضمون بہت لمبا ہوسکتا ہے اورغیر دلچسپ بھی اس لیے میں اسکو طوالت اور آپکو بور ہونے سے بچانے کے لیے آج صرف کچھ سوالات  اٹھاؤں گی ، جواب میرے پاس بھی نہیں لحاظہ ایسے میں بہترین طریقہ ہے ڈیٹا کا تبادلہ ! میرے سوالات کے جواب ڈھونڈنا آپکا کام۔

سوالا ت یہ ہیں  کہ اپنے فرایض منصبی  کے دوران جو فیلڈ رپورٹر  شہید کر دیے گئے وہ پاکستان کے کن علاقوں سے تعلق رکھتے تھے ؟  کیا وہ علاقے  الیکٹرانک نیوز میڈیا کی پہنچ سے باہر ہیں ؟ اگر ان صحافیوں کو  ہم تک خاص  معلومات پہنچانے کی وجہ سے شہید کیا گیا تو کیا نیوز چینلز پر پرائم ٹائم کے دوران دکانیں سجانے  والے ہم تک وہ خبریں ، وہ معلومات نہیں پہنچا رہے اگر پہنچا رہے ہیں تو پھر کوئی انکو شہید کیوں نہیں کر رہا اور اگر نہیں پہنچا رہے تو کیوں نہیں پہنچا رہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ مین اسٹریم میڈیا ان خبروں سے لاعلم ہو ؟ اگر نہیں تو یہ صحافتی بد دیانتی کرنے والے اینکرز اپنے ارد گرد رہنے والے عوام کو اپنی بد دیانتی اور کرپشن کا کیا جواز دیتے ہیں ؟

ایسا تو نہیں کہ جان دینے والے رپورٹرز اور جواب داری کرنے والی عوام کسی اور علاقے کی مخلوق ہوں اور صحافتی کرپشن میں ملوث اینکرز اور ان کے شوز میں مدعو ہونے والے نام نہاد سینئیر تجزیہ کار کسی اور دیس کے لا ؤ ڈ سپیکرز ہوں ؟۔

اعداد وشمار آپ کی خدمت میں پیش ہیں خود ہی ملاحظہ  فرمائیں ، میرے سوالات کے جواب آپکے پاس ہیں تو ارسال کریں ، تنقید اور ڈیٹا میں درستگی کو کھلے دل سے تسلیم کروں گی کیوں کہ میں کوئی سینئر یا جونیر تجزیہ کار یا لاکھوں کمانے والا ہیرو ٹائپ اینکر نہیں جو سوال اور تنقید برداشت نہ کر پاؤں اور اپنے کو خدا یا اولیاء اللہ سمجھ کر مخلوق خدا کا منہ بند کر دوں  بلکہ میں ایک عام  انسان ہوں جس کا کام ہی لوگوں سے سیکھنا اور اپنی بساط بھر انکو سیکھانا ہے۔

اینا سیدہ

ایک  بین الا اقوامی  تنظیم جس نے صحافیوں کے حقوق اور انکی آزادانہ رپورٹنگ کے تحفظ  کے لیےآواز اٹھاتی ہے، اس تنظیم نے سنہ ١٩٩٢ سے صحافیوں کی پیشہ وارانہ سرگرمیوں کے دوران ہلاکتوں کا ریکارڈ جمع  کیا ہے۔ اس تنظیم کےمطابق پاکستان سنہ ٢٠٠٠ سے  ٢٠١٤ تک ہمیشہ ھی 15 سرفہرست ممالک میں شامل رہا۔ سنہ ٢٠١٠ اور ٢٠١١ میں یہ صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ممالک میں سر فہرست رہا ان دو برسوں میں اس ملک خدا داد میں بائیس  صحافی شہید کر دیے گئے۔

سنہ  ٢٠٠٨ میں پاکستان کے  6 صحافی قتل کر دیے گئے جن میں تین پشتون صحافی تھے اسی طرح سنہ ٢٠١٢ میں پاکستان اس فہرست میں تیسرے نمبر پر رہا  آٹھ صحافی شہید کر دیے گئے 4  بلوچستان  ،تین سندھ اور ایک پختونخواہ  سےتعلق رکھتے تھے۔ سنہ ٢٠٠٩ اور ٢٠١٣ میں پاکستان اس خطرناک ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر رہا اور یہاں ١٦ صحافیوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا جن میں اکثریت ہمارے پشتون صحافیوں کی تھی ۔

سن ٢٠٠٩ میں  تقریبا پانچ صحافی خیبر پختونخواہ میں ٹارگٹ کیۓ گئے  ٢٠١٣ بھی صحافی برادری کے لیے خون آشام سال کہلایا چار شہید صحافیوں کا تعلق بلوچستان سے اور تین کا پختونخوا سے  تھا پچھلے سال یعنی ٢٠١٤ میں چار صحافی شہید کیے گئے۔ جن میں سے تین کا بلوچستان اور ایک کا سندھ سے تعلق تھا۔

اس ڈیٹا پر آپ ایک اچٹتی ہوئی نگاہ بھی ڈالیں تو شہید صحافیوں میں سب سے زیادہ تعداد پختونخواہ اور بلوچ صحافیوں کی  ملے گی ۔ ایک مزید افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ پنجاب کے شہید ہونے والے رپورٹرز میں جن صحافیوں کو ٹارگٹ کیا گیا۔ ان  میں سےاکثر کی رپورٹنگ اور تفتیشی صحافت کا تعلق بھی خیبر پختونخواہ ، بلوچستان اور کراچی سے تھا یعنی  خبروں کی حساسیت مخصوص  علاقوں سے وابستہ ہے یہ  پاکستان کے وہ علاقے ہیں جو چھوٹے صوبے یا سیاسی زبان میں چھوٹا بھائی ” کہلاتے ہیں۔

 پاکستان کی آبادی کاتقریبا ” 48 فیصد ان تین صوبوں میں موجود ہے اور بقیہ 52 فیصد صوبہ پنجاب میں اور غور طلب بات  یہ ہے کہ ان تین صوبوں میں آبادی کم ہونے کے باوجود صحافیوں کے قتل کی فیصد وارداتیں  بہت زیادہ ہیں ۔خاص کرکے بلوچستان میں جہاں کل پاکستانی آبادی کا  صرف  7  فیصد آباد  ہے۔

آئیے اب چلیں ٢٠٠٢ کے بعد  پاکستان میں آنے والے انقلاب کی طرف جس کا نام آزاد میڈیا رکھا گیا اور پاکستان کے طول و عرض میں موجود نہ ہونے کے باوجود وطن عزیز میں اس کے رعب داب کو عمومی طور پر چیلنج کرنے والا کوئی  دوسرا نہیں۔

اکثر چینلز پہلے سے جاری شدہ اخبارات کی ایکسٹینشن ہیں وہ اسی پالیسی کو اپنے الیکٹرانک چہرے پر بھی اچھی طرح مل لیتے  ہیں جو برس ہا برس  سے انکی اخبا رات کا حصہ ہے ۔

 مگر اسکے ساتھ ساتھ کیونکہ  ٹی وی ایک تصویری میڈیا ہے اس لیے اخبارات اور جرائد کے مقابلے میں یہ زیادہ بازاری ہے !معاف کیجیے گا آپکو میرے اس لفظ بازاری سے تکلیف محسوس ہو ئی ،دراصل پرنٹ میڈیا میں تو معلومات کے اضافے کے لیے کچھ خبریںشا ئع  ہوجاتی تھیں مگر الیکٹرانک نیوز میڈیا کسی فلم ، ڈرامے ، رنگ برنگے گانوں کی ویڈیوز کی طرح صرف اور صرف بکنے والی شے بن چکا ہے۔

خبریں ہیں تو طنز و مزا ح میں ڈوبی جگتیں ،  بیک گراونڈ  میں چلتے انڈین و پاکستانی گانے ، جلتی پر تیل چھڑکتی جملے بازی یعنی بکنے والی ہر سوغات آپکو نیوز چینل پر مل سکتی ہے۔ سوائےپکی معلومات میں اضافے کا با عث بننے والی حقیقت پر مبنی ، غیر جذباتی ، میعاری اور عوام کی نظر سے پوشیدہ رہ جانے والی خبریں۔

اب چونکہ میڈیا کی پہلی ترجیح بکنا اور بکتےہی چلے جانا ہے لحظہ  ایسی تمام معلومات کو زیر بحث نہیں لایا جاتا جو معلومات تو ہوں مگر بازار میں بکنے کا ان کا کوئی خاص چانس نہ ہو بلکہ ایسی خبریں سنانے سے  ہوسکتا ہے میڈیا ہاؤس اور اس کے زیر کفالت امیر کبیر اخبار  و چینل مالکان کے نفع  میں نقصان ہو جائے۔ جہاں صحافی موجود ہے اور جان سے جارہا ہے وہاں کی خبریں بکتی نہیں اور اس میں مسالہ موجود نہیں اور جہاں جان کا خطرہ نہیں وہاں  نام نہاد صحافی یعنی اینکرز زیادہ موجود ہیں۔

پچھلے ایک ہفتے کے مین اسٹریم نیوز میڈیا پر آنے والے پولیٹیکل شوز دیکھے جو شام کے آٹھ  اور رات کے دس بجے نشر کیے جاتے ہیں ، ان میں اکثرشوز، ہر شہری گھرانے کا مرد وزن ،بچے بوڑھے  شوق سے دیکھتے ہیں۔ سوال ہے کہ یہ لوگ کون ہیں اگریہ اینکرز ہیں تو کیا عالمی میعار پر پورے اتر رہے ہیں ؟ اگر نہیں تو ان میں وہ کیا ہیرے جڑے ہیں جو ان کی زندگیوں  کے ضامن ہیں جبکہ ان ہی  کی فیلڈ  سے متعلق صحافی سچی اور معیاری خبریں اکھٹی کرنے کے جرم میں دشمنوں کے ہاتھوں را ہی ملک عدم ہوگئے ؟

 سات دن میں  ٢٧ نیوز چینلز کے پرائم ٹائم شوز دیکھیں  اور اینکرز کی اہلیت جانچیں  ، اس  نیوز آئیٹم پر بھی غور فرمائیں جس کو پروگرام کا عنوان بنایا گیا ۔ ٨٠ سے ٩٥ فیصد اینکرز کا تعلق پاکستان کے مخصوص علاقوں سے ہے، ان کی اکثریت بلوچستان ، اندرون سندھ اور قبائلی علاقوں کے بارے میں اتنا ہی جانتی ہے جتنا ایک پانچویں جماعت کا طالب علم۔ بی ا ے  فلسفہ کے کورس کے بارے میں ،انکی اہلیت یا  تو ایک طویل عرصے تک کسی اخبار سے وابستگی ہے یا طاقتور حلقوں کی آشیر با د  یا پھر ریچھ  اور کتے لڑا نے میں مہارت بھی ایسے شوز کرنے کا میرٹ بن گئی ہے۔،

عنوانات کا تجزیہ کریں تو انڈیا سے کرکٹ کا جنگی جنون  ،عمران ریحام شادی ، عمران ریحام طلاق  ،محترمہ زمانی سے اندر کی بات اگلوانے کے لیے انٹرویوزآ یان  کی میک اپ زدہ  پیشیاں ، نواز زرداری کرپشن کے گھسے پٹے افسانے،  شکریہ راحیل کا دورہ امریکہ ، نندی پورمیں نیند کرتا  میاں،کرپشن میٹرو  ملن کے فوائد ،سندھ فیسٹیول پر تبرے ، میرا کی شادیاں  وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔

یہ  وہ خبریں ہیں جو محفوظ ترین ہیں ان بے مقصد خبروں کو عوام تک پہنچا نے اور ان پر گھنٹوں بے مصرف سر پٹھول کرنے والے گڈ اینکرز پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں محفوظ زندگیاں گزارتے ہیں ، بہترین تنخواہیں ، قیمتی لباس ، مہنگی گھڑیاں اور حسین بنانے والی بیوٹیشنز سےرابطہ رکھتے ہیں۔

یہ گڈ طالبان جیسے گڈ اینکرز طاقتور حلقوں کی چھپر چھاؤں تلے عوام میں جڑیں رکھنے والے ،ووٹ لینے والے منتخب نمایندوں کی کرپشن پرمیڈیائی تماشوں  میں  روزانہ ھی انگلیاں اٹھاتے ہیں مگر اپنی بد ترین صحافتی کرپشن پر نظر ڈالنا گوارہ  نہیں کرتے۔ اگر ان گڈ اینکرز کو  سوشل  میڈیا پر بلوچستان کے جبری گمشدہ افراد ، توتک خضدار کی اجتماعی قبروں ، وزیرستان کے لٹےپٹےمہاجرین پرگولیاں برسانے والےقانون کے رکھوالوں اور  کراچی میں اندھیر مچانے والے بھتہ خوروں ، ٹارگٹ کلرز کی یاد دلائی جائے تو یہ آپ پر اپنےفیس بک  یا ٹویٹر اکاؤنٹ کے دروازے بند کرنے میں سیکنڈ نہیں لگاتے۔

دوسری طرف برے صحافی ہیں جو اپنے فرایض منصبی کو ہم تک پہنچا نے کے لیے اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھے باجوڑ سے پنجگور اور لاڑکانہ سے خضدار تک موجود ہیں۔ وہ اپنے فرایض کی انجام دہی کرتے ہوئےانہی قتل گاہوں میں شہید ہو  جاتے ہیں اور انکی حاصل کی گئیں خبریں اکثر انہی کے ساتھ دفن کر دی جاتی ہیں۔

بدقسمتی سے وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئےوہ کبھی نہیں جان پائیں گے کہ اسلام آباد ، لاہور اور کراچی کے محفوظ اسٹوڈیوز میں بیٹھ کر زمانی بیگم سے لا یعنی  انٹرویوزلینا کس قدر فائدہ مند تھا۔۔۔کسی چودھری یا  ملک صاحب کے لیے اور انکو پر کشش تنخواہیں دینے والے،ریٹنگ کی بدنما دوڑ میں شامل چینلز اور میڈیا ہاوسز کے لیے۔

حوالہ جات:۔

www.cpj.org    

www.pvndg.org

Comments are closed.