پاکستان :دہشت گرد مسلسل سرگرم

160526143151-paton-walsh-who-are-the-taliban-orig-00005127-exlarge-169

رواں برس مئی میں طالبان کے سربراہ مقرر ہونے سے قبل قریب 15 برس تک ہیبت اللہ اخوندزادہ جنوب مغربی پاکستانی علاقے میں واقع الحاج مسجد میں کھلے عام عسکریت پسندی کی تبلیغ و تشہیر کرتے رہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے ہیبت اللہ اخوندزادہ کے طلبہ اور ساتھیوں نے بتایا کہ کوئٹہ کے قریب کچلک کے علاقے میں اپنی زندگی گزارنے والا یہ طالبان کمانڈر کس طرح سرگرم رہا۔ ان رپورٹوں کے سامنے آنے کے بعد پاکستانی حکومت اور فوج پر عسکریت پسندوں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن میں مزید سنجیدگی کے لیے دباؤ بڑھ سکتا ہے۔

یہ ایک ایسا معاملہ ہے، جس کے تناظر میں پاکستان کے امریکا اور افغانستان دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات کشیدہ چلے آ رہے ہیں۔ واشنگٹن اور کابل حکومتیں پاکستان سے مسلسل مطالبہ کرتی آئی ہیں کہ وہ طالبان اور دیگر عسکریت پسند گروپوں کے خلاف بلاتخصیص کارروائیاں کرے، کیوں کہ انہی گروپوں کی وجہ سے افغانستان میں قیام امن میں دشواریاں پیش آ رہی ہیں اور اب بھی قریب دس ہزار امریکی فوجیوں کی افغانستان میں موجودگی کی بنیادی وجہ یہی ہے۔

اس موضوع پر امریکی محکمہ خارجہ کے دفتر برائے جنوبی ایشیا کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کا دفتر ہیبت اللہ اخوندزادہ کے ماضی یا حال کے مقام کی بابت کچھ بھی کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

اخواندزادہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ طالبان کے سربراہ مقرر ہونے کے بعد ممکنہ طور پر سرحد عبور کر کے کسی افغان علاقے میں منتقل ہو چکے ہیں، تاہم بلوچستان کے علاقے کچلک میں وہ ایک طویل عرصے تک مقیم رہے اور انہیں کسی حکومتی کارروائی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

رواں برس مئی میں ایک امریکی ڈرون حملے میں طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور کی پاکستانی علاقے میں ہلاکت کے بعد ہیبت اللہ اخوندازد کو ان کا جانشین مقرر کیا گیا تھا۔

اس سے پانچ برس قبل سن 2011ءمیں امریکی خصوصی دستوں نے پاکستانی فوج کی اہم ترین تربیتی اکیڈمی کے نہایت قریب واقع ایک مکان میں ایک خفیہ آپریشن کر کے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو بھی ہلاک کیا تھا۔

الحاج مسجد کے موجودہ منتظم حافظ عبدالمجید نے بتایا کہ طالبان کے ’امیر‘ منتخب ہو جانے کے بعد ہیبت اللہ اپنے اہل خانہ کے ہم راہ افغانستان منتقل ہو گئے تھے۔ مجید کا کہنا ہے کہ وہ خود بھی ایک طویل عرصے تک ہیبت اللہ کے شاگرد رہے ہیں۔ ’’ظاہر ہے یہ ممکن نہیں کہ آپ دینی تعلیم بھی دیں اور حکومت (طالبان کی حکومت) بھی چلائیں۔ یہ ہمارے لیے، دیگر شاگردوں کے لیے اور اس مسجد کے لیے خطرہ ہوتا، اگر وہ بعد میں بھی یہاں رہتے‘‘۔

پاکستانی حکومت کا موقف ہے کہ وہ اپنی تمام تر طاقت استعمال کر کے عسکریت پسندوں کی سرکوبی میں مصروف ہے، تاہم اخوندزادہ کی کچلک میں اس طویل عرصے تک موجودگی اور کوئی حکومتی کارروائی نہ ہونے کے سوال پر پاکستانی وزرات داخلہ نے کسی بھی تبصرے سے انکار کیا ہے۔ پاکستانی فوج نے بھی اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے اجتناب برتا ہے۔

DW

Comments are closed.