پاکستان دو خطرناک طوفانوں کی زد میں 

آصف جیلانی

یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ پاکستان کو اس کے دیرینہ حریف ہندوستان اور نام نہاد دوست اور اتحادی امریکا نے مل کر ،نہایت خطرناک طوفان میں گھیرلیا ہے۔ ہندوستان سے کیا شکوہ ، امریکا البتہ وہی ہے جس نے پاکستان کے مشکل وقت میں جب اسے اپنی بقا کی جنگ در پیش تھی کبھی ساتھ نہیں دیا البتہ 9/11کے بعد پاکستان کو افغانستان میں اپنی مہلک جنگ میں دھکیل دیا جس میں پاکستان نے 22ہزار جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور دہشت گردی کی صورت میں یہ سلسلہ اب بھی برابر جاری ہے۔

ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی ،امریکا کے اپنے پہلے دورہ میں امریکی صدر ٹرمپ سے گلے مل کر اور مصافحہ کر کے انہیں اپنا ہم خیال بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ مودی کہتے ہیں ہندوستان اول، اور ٹرمپ کہتے ہیں امریکا فرسٹ اور دونوں اس پر اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستان دہشت گرد ملک ہے۔واشنگٹن میں نریندر مودی کی تمام تر حکمت عملی پاکستان کو دہشت گردوں کی کمین گاہ ثابت کرنا تھا جہاں سے ہندوستان پر سرحد پار سے دہشت گرد حملے ہوتے ہیں۔ اسی کے ساتھ امریکا پر زور دینا تھا کہ وہ پاکستان کی فوجی امداد بند کردے کیونکہ یہ امداد اس پر دہشت گرد حملوں کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ 

مودی کے واشنگٹن پہنچے سے پہلے ہی امریکی انتظامیہ نے کشمیر میں آزادی کی جنگ لڑنے والے حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین کو بین الاقوامی دہشت گرد قرار دے کر مودی کو تحفہ پیش کیا۔ ٹرمپ انتظامیہ کا اصل مقصد سید صلاح الدین کو بین الاقوامی دہشت گرد قرار دینے کا پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانا ہے کہ وہ ہندوستان میں دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہا ہے ۔ یہ انتہائی حیرت کی بات ہے 9/11 کے بعد سے اب تک امریکا اس شخص کو بین الاقوامی دہشت گرد قرار دیتا رہا ہے جو امریکا میں دہشت گردی میں ملوث رہا ہو یا جس سے امریکیوں کی جانوں کو خطرہ رہا ہو۔

یہ پہلا موقع ہے کہ جموں و کشمیر میںآزادی کی جنگ لڑنے والے کو بین الاقوامی دہشت گرد قرار دیا گیا ہے ۔سید صلاح الدین کے خلاف امریکا میں کسی دہشت گرد کاروائی میں ملوث ہونے اور نہ کسی امریکی کی جان لینے کا الزام ہے۔ اس کا سیدھا ساد مقصد پاکستان کو بدنام کرنا اور ہندوستان کو خوش کرنا ہے۔

یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ نریندر مودی جن کی وزارت اعلیٰ کے دور میں گجرات میں دو ہزار سے زیادہ مسلمانوں کا قتل عام ہواتھا ، اور گذشتہ تین سال سے ان کی وزارت عظمیٰ کے دور میں آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والے کشمیریوں پر دہشت گردی ہورہی ہے اور بچوں اور نوجوانوں پر چھرے برسا کر انہیں معذور اور نابینا بنایا جارہا ہے ، اور گؤ رکھشوں نے گائے کی ہتھیا کرنے کا الزام لگا کر جس بہیہمانہ طور پر مسلمانوں کو راہ میں پکڑ کر انہیں بری طرح سے مار مار کر ہلاک کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ وہ کسی طور پر بھی دہشت گردی سے کم نہیں ہے۔

یہی نریندر مودی ، واشگٹن میں ٹرمپ کے ساتھ کھڑے ہو کر پاکستان پر سرحد پار سے دہشت گردی کا الزام لگارہے تھے۔ مودی اور ٹرمپ کا پاکستان سے یہ کہنا کہ وہ یہ بات یقینی بنائے کہ سرحد پار دہشت گردی کے لئے اپنی سر زمیں استعمال نہیں کی جائے گی ۔ دوسرے لفظوں میں وہ یہ دعوی ٰکرتے ہیں کہ پاکستان اپنی سر زمین سرحد پار دہشت گردی کے لئے استعمال کر رہا ہے۔یہی نہیں دونوں کا یہ اصرار تھا کہ پاکستان بمبئی اور پٹھان کوٹ کے حملوں کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچائے۔

اس موقع پر مودی اور ٹرمپ نے پاکستان کی شمالی سرحد پر افغانستان میں بڑھتے ہوئے عدم استحکام پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور افغانستان میں ’’امن کے قیام ‘‘ کے لئے قریبی فوجی تعاوں کا پیمان کیا ہے۔ یوں پاکستان کو اب افغانستان میں تین طاقتوں ۔ امریکا ، ہندوستان اور افغان حکومت کے گٹھ جوڑ کا سامنا ہوگا۔

مودی کے امریکا کے پہلے دورہ پر امریکا نے ہندوستان کو 22گارڈین ڈرون طیاروں کی فروخت کی منظوری کا بھی مژدہ سنایا ہے۔ یہ ڈرون پاکستان کے خلاف جاسوسی کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے اردگرد سمندر میں بھی چوکسی کے لئے استعمال کئے جائیں گے۔ یہی نہیں امریکا اور ہندوستان نے باہمی فوجی تعاون بڑھانے کے لئے اگلے مہینے ملابار کے قریب مشترکہ فوجی مشقوں کا اہتمام کیا ہے۔

بیشتر ہندوستانیوں کو خدشہ تھا کہ ٹرمپ جو صدر اوباما کے دور کے ہر فیصلہ کو القط کرنے کے در پے رہتے ہیں کہیں ان کے دور میں ہندوستان اور امریکا کے درمیں اسٹریٹیجک اتحاد اور جوہری سمجھوتہ سے ہاتھ نہ کھینچ لیں۔ لیکن جب انہوں نے ٹرمپ کو مودی سے یہ کہتے سنا کہ آپ ہندوستان کے عظیم وزیر اعظم ہیں ان ہندوستانیوں نے اطمینان کی سانس لی۔ پھر مودی کے لئے ٹرمپ کی طرف سے یہ بڑا اعزاز دیا گیا کہ وہ پہلے غیر ملکی مہمان تھے جن کے اعزاز میں وائیٹ ہاؤس میں عشایہ دیا گیا۔ جس میں ٹرمپ نے مودی کو یاد دلایا کہ انتخابی مہم کے دوراں میں نے پیمان کیا تھا کہ اگر میں صدر منتخب ہو گیا تو ہندوستان کا ایک پکا دوست وہایٹ ہاوس میں ہوگا اور یہی ہواہندوستان کا سچا دوست اس وقت وائٹ ہاوس میں ہے۔ 

بلا شبہ پاکستان کی خارجہ پالیسی سازوں کو پاکستان کی طرف بڑھتے ہوئے طوفان اور اس کے مضمرات پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا اور امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کا از سر نو جایزہ لینا ہوگااور ہر لمحہ کشکول لئے امریکا کے قدموں میں بیٹھے رہنے کا سلسلہ ترک کر کے اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر آزاد خارجہ پالیسی وضع کرنی ہوگی۔ 

واشنگٹن کے اس طوفان کے بعد ایک اور طوفان اس وقت اٹھے گا جب نریندر مودی، 4جولائی کو اسرائیل کے تین روزہ دورہ پر تل ابیب جائیں گے جہاں اسرائیلی وزیر اعظم نیتھن یاہو جو مودی کو اپنا پکا دوست قرار دیتے ہیں ان کی پذیرائی کریں گے۔ مودی ، ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم ہوں گے جو اسرائیل کا دورہ کریں گے۔فلسطینیوں سے مودی کی دشمنی اس بات سے عیاں ہے کہ اس دورہ میں وہ فلسطینیوں کے دارالحکومت رحم اللہ نہیں جائیں گے اور نہ فلسطین کے صدر محمود عباس سے ملاقات کریں گے۔ غزہ جانے کا تو کوئی سوال ہی نہیں۔

اسرائیل کے دورہ میں بھی نشانہ پاکستان بنے گا اور مودی کا وہی منترا رہے گا کہ پاکستان دہشت گرد ملک ہے جہاں دہشت گردوں کو پناہ دی جاتی ہے اور دونوں ملک ، مسلم دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کا عزم کریں گے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ کشمیر میں بڑھتی ہوئی شورش پر قابو پانے کے لئے ہندوستان، اسرائیلی فوج اور خفیہ ایجنسی موساد کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کرے اور ممکن ایک مشترکہ کمان تیار کی جائے ۔ 

بتایا جاتا ہے کہ موساد پہلے ہی ہندوستان کے حکام کو مشورہ دے رہے ہیں کہ کشمیر کی شورش سے کیسے نبٹا جائے۔ مودی کے اسرائیل کے دورہ کا ایک اہم پہلو، بحر ہند میں فوجی تسلط کے لئے ہندوستان اور اسرائیل کی بحری افوج کے درمیان تعاون کا فروغ ہوگا ۔ہندوستان کی بحریہ کے سربراہ پہلے ہی اسرائیل میں ہیں۔اس بحری تعاوں کا مقصد سیپیک کے نتیجہ میں گوادر میں بحری آمدو رفت پر کڑی نگاہ رکھنا ہے۔

دوسری طرف اس کا تعلق ، جنوبی چین کے سمندر سے بحر ہند کی طرف چین کی بحری قوت کو روکنے کی حکمت عملی سے ہے ۔ اس عمل میں امریکا، اسرائیل اور ہندوستان کے ساتھ جاپان بھی شامل ہوگا۔بلا شبہ یہ صورت حال پاکستان کی بحریہ کے لئے سخت باعث تشویش ہوگی ، یوں پاکستان کو ایک ساتھ دو طوفانوں کا سامنا ہے۔ 

2 Comments