جنرل راحیل کا دورہ امریکہ :کتنا کامیاب؟

gtr

پاکستانی رہنما جب بھی امریکی حکام سے ملتے ہیں تو اسلام پسندانہ انتہا پسندی کے خاتمے کا بھرپور عزم ظاہر کرتے ہیں۔ تاہم مبصرین کے نزدیک یہ ایک ’کھوکھلی مشق‘ ہے، جس کی تازہ مثال پاکستانی فوجی سربراہ کا دورہ امریکا بھی ہے۔

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اپنے پانچ روزہ دورہ امریکا کے دوران اعلیٰ امریکی قیادت سے ملاقاتوں میں مصروف ہیں۔ پاکستان میں کئی حلقوں بشمول صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کا دعویٰ ہے کہ امریکا اور پاکستان کے مابین دفاعی اور اسٹریٹیجک تعلقات کو بہتر بنانے کے حوالے سے جنرل راحیل کا یہ دورہ انتہائی اہم ہے۔

فوج کے حامی ان حلقوں کے مطابق ملکی سول قیادت اس تناظر میں مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر سکتی، اس لیے وہ وزیر اعظم نواز شریف کے حالیہ دورہ امریکا کو غیر اہم قرار دیتے ہیں۔ یہ دعوے کسی حد تک درست بھی ہیں کیونکہ پاکستان کی طاقتور فوج ہی خارجہ اور دفاعی امور حتیٰ کہ داخلہ امور پر بھی حتمی اتھارٹی تصور کی جاتی ہے۔

پاکستان میں فوج اور سول قیادت کے مابین تعلقات نے امریکا کو بھی ہمیشہ ایک مشکل میں ڈالے رکھا ہے۔ ایک طرف تو واشنگٹن پاکستان میں جمہوری اقدار کے فروغ کی کوشش میں ہے تو دوسری طرف اسے معلوم ہے کہ اگر کوئی کام کرانا ہے، تو اس کے لیے فوج ہی مؤثر ادارہ ثابت ہو سکتی ہے۔ تاہم ماضی کے مقابلے میں امریکا کی موجودہ حکومت پاکستانی فوج کے مقابلے میں سول قیادت کو زیادہ توجہ دے رہی ہے۔

امریکی حکام نے واضح کیا ہے کہ پاکستانی فوج کے سربراہ اپنی خواہش سے امریکا کا دورہ کر رہے ہیں۔ اسی تناظر میں پاکستانی صحافی عبدل آغا نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جنرل راحیل کو امریکا کے دورے کے بجائے ملک میں اسلام پسندانہ انتہا پسندی کے خاتمے کی کوشش کرنا چاہیے۔ عبدل آغا نے سوال کیا، ’’ان (جنرل راحیل کے) کے باس، وزیر اعظم نواز شریف نے انہیں امریکی مطالبات سے آگاہ کر دیا ہو گا، تو پھر جنرل راحیل نے امریکا کا دورہ کرنے کی کیوں ٹھانی؟‘‘

مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ صدر اوباما کی انتظامیہ کو معلوم ہے کہ جب جنرل راحیل شریف پاکستان واپس چلے جائیں گے تو وہ امریکی تحفظات کو دور کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ لندن میں مقیم پاکستانی صحافی اور تجزیہ نگار فاروق سلہریا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’امریکا کو صورتحال کا علم ہے۔ لیکن اس وقت تک کچھ نہیں ہو سکتا جب تک پاکستان علاقائی سطح پر اپنی عشروں پرانی پالیسیوں کو ترک نہیں کر دیتا۔‘‘

تاہم کراچی سے تعلق رکھنے والے سکیورٹی تجزیہ نگار علی کے چشتی کے بقول یہ غلط ہے کہ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کے لیے امریکا کو پاکستان پر یقین نہیں ہے۔ چشتی کے مطابق قطر مذاکرات کے شروع ہونے کے بعد واشنگٹن اور اسلام آباد ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔

یہ امر اہم ہے کہ امریکا کو پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے محفوظ ہونے کے بارے میں بھی تحفظات لاحق ہیں۔ اسی لیے صدر اوباما کی کوشش ہے کہ پاکستانی جوہری ہتھیاروں کا تحفظ یقینی بنایا جائے اور ان کی تعداد میں اضافے کو روکا جائے۔ تاہم چشتی کہتے ہیں کہ سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے دور میں ان ہتھیاروں کی حفاظت کے لیے ایک نظام بنایا گیا تھا اور تب سے ہی یہ ہتھیار امریکا کی واچ لسٹ میں شامل ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اب امریکا پاکستانی جوہری ہتھیاروں کے محفوظ ہاتھوں میں ہونے کے حوالے سے پریشان نہیں ہے۔ چشتی کہتے ہیں، ’’امریکا کو صرف چھوٹے جوہری ہتھیاروں اوران کی تعداد میں اضافے کے حوالے سے پریشانی لاحق ہے۔‘‘ تاہم ناقدین کے مطابق جنرل راحیل امریکا کے ان تحفظات کو دور کرنے کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھائیں گے۔

جنرل راحیل شریف اور امریکی حکام کے مابین ملاقاتوں کے دوران مسئلہ کشمیر بھی اہم رہا۔ واشنگٹن کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ کشیدگی بڑھانے کے بجائے ملک کے اندر پائی جانے والی انتہا پسندی پر قابو پانا چاہیے۔ تاہم چشتی کے مطابق پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی طرف سے امریکا میں مسئلہ کشمیر پر تبادلہ خیال مناسب اقدام تھا کیونکہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پاکستان کے ساتھ تعاون کے لیے تیار نہیں ہیں۔

دوسری طرف امریکا میں مقیم پاکستانی اسکالر عارف جمال کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے مابین تناؤ کی بنیادی وجہ پاکستان کی طرف سے بھارت مخالف پالیسیاں اور جہادیوں کی حمایت ہے۔ اسلام پسندانہ انتہا پسندی سے متعلق امور کے ماہر جمال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’امریکا نے ہمیشہ ہی زور دیا ہے کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں جہادیوں کو بطور ایک آلہ استعمال کرنے کی مشق ترک کر دے۔‘‘ جمال کے مطابق ابھی تک اسلام آباد حکومت نے اس مشورے پر عمل نہیں کیا، اس لیے امریکا کو یہ بات زور دے کر کہنا چاہیے۔

One Comment