نصاب تعلیم اور روبہ زوال سماج

4212_109624585991_3851843_nبیرسٹر حمید باشانی خان

ہمارا سماج روبہ زوال ہے۔ہم اخلاقی پستیوں کی انتہا کو چھو رہے ہیں۔ہمارے ہاں اب جھوٹ فراڈ، رشوت، دھونس، دھاندلی اور نا انصافی کو برا نہیں سمجھا جاتا۔اس زوال کی بنیادی وجہ نظام تعلیم اور نصاب تعلیم ہے۔ ہمارے سکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جو نصابی کتب پڑھائی جاتی ہیں وہ اس زوال کی بڑی وجہ ہیں۔ان کتب کی ایک لمبی فہرست ہے۔

تاریخ کو ہی لے لیجیے۔ ہماری تاریخ کی نصابی کتب میں جو کچھ لکھا ہوا ہے اس میں سے پچاس فیصد یا تو جھوٹ ہے یا پھر غیر متعلق۔ہماری تاریخ کی کتب اس طر ح نہیں لکھی گئی جس طرح تاریخ لکھی جانی چاہیے۔ہماری نصابی تاریخ میں وہ واقعات شامل نہیں کیے گئے جن کا پڑھنا ہمارے لیے ضروری ہے۔ اور وہ واقعات شامل کیے گئے جن کا پڑھنا ہمارے لیے غیر ضروری ہے۔اور جن کو پڑھ کر ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

تاریخ حقائق اور و ا قعات کے مجموعے کا نام ہے۔ مختلف لوگ مختلف واقعات کو مختلف نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ اپنے اپنے نقطہ نظر کے حوالے سے واقعات کو بیان کرتے ہیں۔ اپنے اپنے نقطہ نظر کے اعتبار سے ان واقعات کی تشریح و تعبیر کرتے ہیں۔ اور اپنی پسند کے نتائج اخذکرتے ہیں۔ ایک ہی تاریخی واقعہ پر دو مختلف مکاتب فکر متضا درائے رکھتے ہیں۔ ایک اس واقعہ کی مذمت کرتا ہے دوسرا اس کی حمایت۔

ایک مکتب فکر اس واقعہ کے محرکین اور مرکزی کرداروں کو ہیرو سمجھتا ہے۔ جبکہ دوسرا مکتب فکر ان کرداروں کو غدار ظالم اور جابر تصور کرتا ہے۔ اب اس حد تک تو بات ٹھیک ہے۔ہر مکتبہ فکر کا حق ہے کہ وہ تاریخ کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھے۔ اور اپنی فہم و فراست کے مطابق اس سے نتائج اخذ کرے۔ لیکن مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب ایک مکتب فکر تاریخ کے کسی واقع سے اپنی پسند کے نتائج اخذ کرنے کے لیے کسی تاریخی واقعہ کو غلط بیان کرے یا توڑ موڑ کر پیش کرے۔

یہ عمل تاریخ مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ اور ہم نے نصابی کتب میں تاریخ مسخ کی ہے۔ اپنی پسند کے نتائج اخذ کرنے کے لیے حقائق توڑ موڑ کر پیش کیے ہیں۔ اس لیے ہمارے تعلیمی اداروں میں تاریخ کے نام پر جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے وہ ایک مخصوص مکتب فکر کا نقطہ نظر ہے تاریخ نہیں۔تاریخ کے نا م پر ہمیں جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے وہ وہ مذہبی بنیاد پرستی اور جذباتیت ہے۔ مذہبی بنیاد پرستی اور جذباتیت کی چھاپ اس قدر گہری ہے کہ انتہائی ظالم جابر اور وحشی لوگوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا ہے۔

جو شخص انسانوں کو قتل کر کے ان کی کھوپڑیوں سے مینار تعمیر کرتا ہے۔ ان کی عورتوں کو لونڈیاں بنا کر جنسی تشدد کا نشانہ بناتا ہے۔ان کے مال و متاع لوٹ کر لے جاتا ہے اسے ہم وحشی اور بربر کہنے کے بجائے اپنا ہیرو قرار دیتے ہیں۔ اور اپنے بچوں کو اسکی فتوحات اور کارناموں کی تفصیل پڑھاتے ہیں۔ جن لوگوں نے دوسرے ملکوں اور قوموں پر فوج کشی کی۔ جارحیت کے مرتکب ہوئے۔نا حقْ خون بہا۔ لوگوں کو غلام بنایا۔ زبردستی ان کا مذہب تبدیل کیا۔ ان کا کلچر برباد کیا۔ ان کی عورتوں کو ریپ کیا۔ان لوگوں کو ہم عظیم فاتح، نجات دہندہ اور عظیم سپاہ سالار اور پتہ نہیں کیسے کیسے عظیم القاب سے پکارتے ہیں۔

ڈھٹائی کی حد یہ ہے کہ جن لوگوں نے خود ہم پر فوج کشی کی وہ بھی ہمارے ہیرو ہیں۔پیشہ ور ڈاکو اور لٹیرے جن کا کام ہی دوسرے ملکوں پر فوج کشی کرنا اور لوٹ مار کرنا تھا وہ ہماری لکھی ہوئی تاریخ کے عظیم کردار ہیں۔ اور انہیں ہم اپنے بچوں کے سامنے رول ماڈل بنا کر پیش کرتے ہیں۔جن وحشی اورناپاک جنگوں کی انسان صرف مذمت کر سکتا ہے۔ ہم نے ان کی تعریفوں کے پل باندھے ہوئے ہیں۔ان کو اخلاقی جوازبخشنے کے لیے دلائل کے انبار لگا دئیے ہیں۔ 

دوسرا بڑامسئلہ ہماری تاریخ کی نصابی کتب کے ساتھ یہ ہے کہ یہ کتابیں صرف حملہ آوروں، فاتح اور حکمران طبقے کی تاریخ بیان کرتے ہیں۔ تاریخ کی ان کتابوں میں عوام کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے جو تاریخ بناتے ہیں۔ یہ تاریخ پڑھتے ہوئے ایسے لگتا ہے جیسے تاریخ میں عوام کا وجود ہی نہیں تھا۔ اس بڑی حقیقت سے یکسر چشم پوشی کی گئی کہ انسانی تاریخ دراصل تبدیلی کی تاریخ ہے۔ اور تبدیلی صرف اس وقت آتی ہے جب انسان ایک خاص معاشی اور سماجی تشکیل سے نکل کر دوسری معاشی اور سماجی تشکیل میں داخل ہوتا ہے۔

ایسا اس وقت ہوتا ہے جب پرانے پیداواری رشتوں کی جگہ نئے پیداواری رشتے تشکیل پاتے ہیں۔ انسان پتھر کے زمانے سے نکل کرزرعی دور میں کسی لڑائی یا فاتح کی وجہ سے نہیں داخل ہواتھا۔ ایسا ان ہتھیاروں کی وجہ سے ہوا تھا جو انسان نے پیداوار کے لیے استعمال کرنا شروع کیے تھے۔ ان ہتھیاروں کا استعمال پیداواری رشتوں کو بدلتا ہے اور نئے سماجی اور معاشی تشکیل ترتیب پاتی ہے۔ 

زرعی دور سے صنعتی دور اور صنعتی دور سے ٹیکنالوجی کے اس جدید دور تک کا انسانی سفر صرف ہتھیاروں کے استعمال کا نتیجہ ہے جو عام لوگ استعمال کرتے ہیں۔ اور اس استعمال کے نتیجے میں تاریخ بناتے اور بدلتے ہیں۔ مگر ہماری نصابی تاریخ کی کتابوں میں ان حقائق کی جھلک تک نہیں ہے۔ تاریخ کے نام پر جو مواد ہم پڑھاتے ہیں وہ غیر حقیقی اور خیالی ہے۔ ایسا ہم گزشتہ نصف صدی سے کر رہے ہیں اور اس کا نتیجہ اب ہمارے سامنے ہے۔

ہمارے ہاں حقیقت پسند اور سائنسی دماغ مفقود ہیں۔ زندگی کے کسی شعبے میں کوئی قابل زکر کام نہیں ہوا۔ علم و ادب سے لیکر سائنس اور ٹیکنالوجی تک کئی بھی کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوا۔ جعلی کارنامے پڑھ پڑھ کر جہادیوں کی ایک فوج تیار ہو گئی ہے۔ بنیاد پرستی وبا کی طرح پھیل رہی ہے۔ جعل سازی، دکھاوا باقاعدہ اخلاقی قدر بن چکا ہے۔۔ رشوت، جھوٹ،منافقت، تشدد، جبر ،نا انصافی کو لوگوں نے باقاعدہ اقدار کے طور پر قبول کر لیا ہے۔۔

اس صورتحال کی ایک وجہ ہمارا نصاب تعلیم اور اس میں شامل مواد ہے۔جو تعصب اور تنگ نظری پر مبنی ہے اور انسانی زہن کے سوتے خشک کرنے کا باعث ہے۔ جب تک ہم نصاب تعلیم پر توجہ نہیں دیں گے پستی کی طرف سفر جاری رہے گا۔

2 Comments