شک کو خوش آمدید کہیے

محمد عیسٰی خان

اہلِ عقیدہ کا اصرار ہے کہ شک کو دل میں جگہ نہ دی جائے۔ ایسا کیسے ممکن ہے؟ آگاہی اور فکری بلوغت کے لیے انسان پر لازم ہے کہ ہمیشہ شک کو خوش آمدید کہے۔ شک سوالات کا مبداء ہوتا ہے۔ شک سے انسانی دماغ میں کسی بھی موضوع سے متعلق سوالات جنم لیتاہے۔ یہ سوالات انسان کو سوچنےپرآمادہ کر تے ہیں۔تحقیق کے نتیجے میں انسان بہت سے پیچیدہ معاملات سے روشناس ہوتا ہے۔

اسطرح، کسی بھی زیربحث موضوع کے لیے انسان کے پاس ٹھوس دلائل اور ثبوت میسر آتے ہیں۔اسکے ساتھ ساتھ، انسان کی وسعتِ فکرمیں بھی اضافہ ہوتا ہے۔چونکہ انسان عقل اور سوچ بچار کی نعمت سے بہرہ ور ہے اِس لیے شک کرنا ایک فطری عمل ہے۔

شک کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سوالات کے جوابات کے لیے علت و معلول کے سائنسی طریقہ کار کو اپنا کر فرد کسی منطقی نتیجے پر پہنچ سکتاہے۔ بصورتِ دیگر، سطحی خیالات بددلی کا باعث بنتاہے۔ پس یہ انسان کے اپنے استحقاق پر ہے کہ وہ عقل و تفہیم کو بروکار لانے کی زحمت کرتا ہے یا نہیں۔

اہلِ عقیدہ کے لیے شک کی گنجائش کیوں نہیں؟ معروف برطانوی فلسفی اور ریاضی دان برٹرینڈ رسل کے بقول ایمان لانا غوروغوص سے کہیں آسان عمل ہے۔ ایسا شاید اس لیے بھی ہے کہ سادہ لوح عوام کوبےخبررکھ کرمخصوص حلقے کی حکمرانی اور مراعات کو تحفظ دینا مقصود ہوتاہے۔

ماضی میں انسانوں نے اسکا تجربہ کی صورت میں کیا ہے۔برصغیر میں یہ طبقہ بادشاہ کو زمین پر خدا کے نمائندے کے طور پر پیش کرتا تھا۔ بادشاہ کو ظلِ الٰہی(خدا کا سایہ) کا خطاب دیکر عقیدے کے حصار میں بند کیا جاتا تھا۔ سوال کرنے والوں کے مُنہ یہ کہہ کر بند کر دیےجاتےکہ بادشاہ کو یہ حق خدا کا تفویض کردہ ہے۔ گویا بادشاہ کے اختیارات پر اعتراض کو خدا کی ذات پر اعتراض گرداناجاتاہے۔

اب بھی اجارہ دار طبقے کو شک سے خوف لاحق ہے کہ اس سے ہمہ دانی کی راہ ہموار ہو کر عوامی شعور بیدار ہوتا ہے۔ عوام اجارہ دار طبقے کے نظریات اور احکامات کو من و عن تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے۔ اسطرح، معاشرے میں تنقید و اصلاح کی ایک ریت پڑتی ہے جو انکے کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔

ھمارا خطہ بین القوامی قوتوں کی معرکہ آرائی کا میدان بنا ہے۔ یہاں مذہب،عقیدہ، اور نظریات کاسامراجی استعمال ہوتا ہے۔ ملک میں خدمت اور ترقی کے نام پر این جی اوز کا جو وسیع جال بچھایا گیا ہے اس کا فائدہ عوام کو کتنا پہنچا ہے۔ بڑھتی ہوئی نام نہاد اسلامائزیشن اور مدارس کے فروغ کے پیچھے کون کارفرماہے؟ انکے کیا مقاصد ہیں؟

یہاں ہزاروں افرادمارے اور لاپتہ کیوں ہوئے ہیں؟ کہیں اسں کارستانی میں ہمارے اپنے ہونے کے دعویدار ملوث تو نہیں؟ کہیں علم و آگہی، عوامی اور مذہبی خدمات کے نام پر ہمیں اقتدار کا زینہ تو نہیں بنایا جارہا؟ایسے میں جب بین القوامی قوتیں ہمارے مستقبل کی فیصلوں کی کوشش میں ہیں اِن عوامل کو نظرانداز کرنا آنے والی نسلوں کو غلامی کا تحفہ دینے کے مترادف ہوگا۔

دلکش نعروں، نفیس شخصیت، باریش نورانی چہروں، قوم اور مذہب کی خدمت اور رہنمائی کے دعویداروں پر اندھا اعتقادکرنا مزید انحطاط کو دعوت دیناہے۔ ہر فرد، باالخصوص اہلِ علم کیونکہ اجتماعی سرگرمیوں سے متعلق انکا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، کے کردار پر شک کرنا ناگزیر ہے۔ لیکن، اسکے نتیجے میں پیدا ہونےوالے سوالات کے جوابات کےلیے پوری ایمانداری کے ساتھ سائنسی طریقہ کار پر عمل پیرا رہنا بھی لازمی امر ہے۔ تب جا کر ہم اپنے مستقبل سے متعلق ہونے والے فیصلوں پر اثرانداز ہوسکتے ہیں ۔

Comments are closed.