لال مسجد کے دہشت گرد ایک بار پھر میدان میں

حال ہی میں لاہور میں لشکر طیبہ (جماعت الدعوۃ)نے ملکی سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے تو ساتھ ہی لال مسجد کے انتہا پسند ایک بار پھر میدان میں نکل آئے ہیں۔

اسلام آباد کی لال مسجد کی ایک ذیلی تنظیم شہداء فاؤنڈیشن نے ایک بار پھر عوام کو ہراساں کرنے کی مہم شروع کر دی ہے۔ اس بار اس نے ایک ایسی مقامی کمپنی کے خلاف اپنی مہم شروع کی ہے، جو جلد ہی ایک مقابلہ حسن منعقد کرانے والی ہے۔

اس فاؤنڈیشن نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست جمع کرائی ہے ، جس میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ ایک مقامی ہیئر ریموونگ کریم بنانے والی کمپنی کے زیر اہتمام ہونے والے ایک مقابلہ حسن کو رکوایا جائے کیونکہ یہ ’پاکستان کی ثقافت کے خلاف‘ ہے۔

شہداء فاؤنڈیشن کے وکیل طارق اسد نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہم نے 2014 میں یہ درخواست دائر کی تھی، جس میں ترک ڈرامے، موسیقی کا پروگرام پاکستان آئیڈل اور گانوں کے پروگراموں کو رکوانے کی استدعا کی گئی تھی۔ اب اس میں ہم نے اس مقابلہ حسن کو رکوانے کی بھی درخواست کر دی ہے کیونکہ اس کے لیے آڈیشن جاری ہیں۔‘‘۔

لیکن ملک کی فنکار برادری لال مسجد سے منسلک اس گروپ کی طرف سے دی گئی درخواست پر غصے میں ہے۔ معروف اداکارہ اور ہدایت کارہ سنگیتا نے اس درخواست پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’لال مسجد والے کون ہوتے ہیں کہ وہ عوام کو یہ بتائیں کہ انہیں کیا دیکھنا چاہیے اور کیا نہیں۔ دنیا ان کی حقیقت جانتی ہے کہ کس طرح انہوں نے لوگوں کو بم دھماکوں اور دہشت گردی کی تربیت دی۔ اگر ان کو خود کوئی ڈرامے نہیں دیکھنے، یا موسیقی نہیں سننی، تو کوئی ان کو مجبور تو نہیں کر رہا۔ پھر انہوں نے اپنے گھر میں ٹی وی کیوں رکھا ہواہے؟‘‘۔

سنگیتا نے کہا کہ انہیں پرواہ نہیں کہ لال مسجد والے اس حوالے سے کیا کام کرتے ہیں۔ ’’کیسے لگائے گا کوئی پابندی میوزک پر۔ موسیقی تو کائنات میں ہر جگہ ہے۔ یہاں تک کہ انسان کی گفتگو میں بھی ایک ردھم ہوتا ہے۔پتہ نہیں یہ لوگ کہاں سے آئے ہیں۔ یہ پتھر کے دور میں رہتے ہیں اور ان کی سوچ انتہائی دقیانوسی ہے۔ یہ لاکھ جتن کر لیں، کوئی ٹی وی چینل بند نہیں کروا پائیں گے۔‘‘۔

معروف اداکارہ فریال گوہر نے اس موضوع پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’یہ عدالتی درخواست بنیادی طور پر ایک خیال اور نظریے کی عکاسی کرتی ہے۔ اس طرز فکر کی بنیادیں بہت پرانی ہیں، شاید اورنگزیب کے دور کی۔ لیکن جدید دور میں یہ تقسیم ہند کے بعد شروع ہوئی۔ جب آپ نے ملک بنانے کے بعد اس کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کر دیا۔ پھر اس فکر کو ریاستی سرپرستی بھی حاصل رہی۔ تو نظریے کو صرف نظریے سے ہی شکست دی جا سکتی ہے۔ ہم نے سوات اور قبائلی علاقوں میں آپریشن کیے لیکن ہم اس سوچ کو اب تک شکست نہیں دے سکے۔ سب سے پہلے اس نظریے کے مقابلے میں ریاست کوئی نظریہ لے کر آئے، جس کی بنیاد برابری اور انصاف پر ہو اور جو اس طرز فکر کو شکست دے سکے‘‘۔

ایک سوال کے جواب میں فریال گوہر نے کہا، ’’میں ذاتی طور پر مقابلہ حسن یا ہر اس کام کے خلاف ہوں جو عورت کو ایک بازاری جنس یا شے میں تبدیل کر دے۔ چاہے وہ بازارِ حسن ہو یا پھر رنگ گورا کرنے والی کریمیں۔ کس نے ان کمپنیوں کا یہ حق دیا ہے کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ بال صاف کرنے سے یا پھر گورا رنگ کرنے والی کریموں کے استعمال سے حسن پیدا ہوتا ہے۔ یہ بڑی غلامانہ سوچ ہے اور میں اس کی شدید مخالف ہوں۔‘‘

فریال گوہر نے مزید کہا کہ اس طرح کی کسی کورٹ پٹیشن سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ’’معاشروں کے ارتقاء میں اس طرح کے مظاہر آتے ہیں۔ سماج میں قوتیں کبھی دائیں، کبھی بائیں اور کبھی وسط میں ہوتی ہیں۔ آپ امریکا ہی کو دیکھ لیں کہ کس طرح وہاں دائیں بازو کے عناصر آ گے بڑھ رہے ہیں۔ میرے خیال میں پاکستان میں بھی دائیں بازو کی قوتیں اپنے لیے جگہ تلاش کر رہی ہیں۔ ان کے لیے یہ جگہ ریاستی اداروں اور سیاست دانوں نے پیدا کی ہے۔‘‘

اس مقابلہ حسن کو ’ہم‘ ٹی وی پر دکھایا جاتا ہے۔ جب ڈوئچے ویلے نے اس حوالے سے ’ہم‘ ٹی وی کے دفتر سے رابطہ کیا، تو بتایا گیا کہ اس موضوع پر کچھ بھی کہنے کے لیے کوئی بھی متعلقہ فرد موجود نہیں تھا اور سب اس حوالے سے مصروف تھے۔

DW/News

Comments are closed.