کیا ٹرک ڈرائیور کے قاتلوں کو سزا ملے گی؟

خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے تین ٹرک ڈرائیوروں کی ہلاکت اورسوشل میڈیا پر شور وغوغا کے بعد پولیس نے ایف ڈبلیو او کے اہلکاروں خلاف ایف آئی آر درج کر لی ہے تاہم فی الحال کسی گرفتاری کی اطلاع نہیں۔پشتون تحفظ مومنٹ کے کارکنوں اور رہنماؤں نے واقعے کی سخت مذمت کی تھی۔


پولیس نے ایف آئی آر پاکستان گڈز ٹرانسپورٹ  کے  احتجاج کے بعد  ٹرانسپورٹ یونین کے سربراہ شیر ایوب وزیر کی مدعیت میں درج کی۔

فرنٹیئر ورکس آرگینائیزیشن (ایف ڈبلیو او) پاکستانی فوج کا ذیلی ادارہ ہے جس کے پاس ملک بھر کے اہم تعمیراتی ٹھیکے ہوتے ہیں۔  فوجی انجینیئرنگ کا یہ ادارہ پانچ دہائیوں سے ملک میں روڈ، پُل اور سُرنگیں بنانے کا کام کرتا آیا ہے۔

کراچی سے کچھ صحافیوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس واقعہ میں لسانی کشیدگی کے خدشے اور ایک فوجی ادارے کے اہلکاروں کے ملوث ہونے کے باعث میڈیا سے کہا جا رہا ہے کہ اس واقعہ کو زیادہ نہ اُچھالا جائے۔اس واقعے پر ایف ڈبلیو او کا موقف ابھی سامنے نہیں آیا اور نہ ہی کسی گرفتاری کی تصدیق ہو سکی ہے۔

اطلاعات کے مطابق دو روز پہلے نیشنل ہائی وے سے سپر ہائی وے جانے والےکئی ٹرک ڈرائیوروں کو کراچی کے قریبی علاقے کاٹھور میں ایف ڈبلیو او کے اہلکاروں نے  اس لیے روکا کیوں کہ ان کے ٹرکوں کا وزن اس سڑک پر سفر کرنے کے لیے متعین وزن سے زیادہ تھا۔ حال ہی میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ جاری کیا تھا جس میں پابندی عائد کی گئی تھی کہ ہائی وے پر سفر کرنے والے ٹرکوں پر ایک حد تک ہی وزن لادا جاسکتا ہے۔

حکام کے مطابق ایف ڈبلیو او کے اہلکار اس فیصلے پر عمل در آمد کروانا چاہ رہے تھے جب وہاں صورتحال کشیدہ ہوگئی۔ بعض اطلاعات کے مطابق وہاں احتجاج شروع ہو گیا اور ایسے میں ایف ڈبلیو اہلکاروں پر پتھراؤ بھی ہوا۔ معاملہ شدت اختیار کر گیا اور اہلکاروں کی جانب سے ہوائی فائرنگ کی گئی۔

اس واقعہ کو رپورٹ کرنے والے ایک صحافی نے بتایا کہ،جب ہم اس مقام پر پہنچے تو کچھ افراد کا کہنا تھا کہ ٹرک ڈرائیوروں کے پاس بھی ہتھیار تھے اور جب  ان کو روکنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے ٹول ٹیکس دیے بغیر کاٹھور سے گزرنے کی کوشش کی جو جھگڑے کا سبب بنا۔‘‘ جبکہ ایک  صحافی کے مطابق  ٹرک کنڈکٹر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایف ڈبلیو او کے اہلکار انہیں تنگ کر رہے تھے اور پیسوں کا مطالبہ کر رہے تھے۔

سوشل میڈیا پر ایک بیان میں پاکستان مسلم لیگ کے رہنما احسن اقبال  نے کہا کہ فوجی سربراہ کو فوری طور اس واقعہ کی تحقیقات کرنا چاہیے۔

لیکن صحافی امبر شمسی نے ٹوئٹر پر خدشہ ظاہر کیا کہ،افسوس ! ذمہ داران کو سزا نہیں ملے گی‘‘۔

انسانی حقوق کے کارکن جبران ناصر نے ٹویٹ کی،پولیس کا کہنا ہے کہ ایف ڈبلیو او کے اہلکاروں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی لیکن ہسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ہلاک شدگان کی کمر اور سینے پر گولیاں ماری گئیں۔ ان اہلکاروں کو مثالی سزا دی جانی چاہیے۔ ان میں یہ ہمت کیسے ہوئی کہ انہوں نے عام شہریوں پر اپنی گنیں تانیں‘‘۔

سوال یہ ہے کہ کیا ذمہ داروں کے خلاف کاروائی میں غیر جانبداری برتی جائے گی؟ پورے ملک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ماروائے عدالت ان گنت قتل کیے ہیں لیکن کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہو سکی۔

DW/Web desk

Comments are closed.