خامنہ ای کی بلی چوہے کی کہانی

ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای نے بین الاقوامی جوہری ڈیل پر تہران کے آئندہ بھی کاربند رہنے سے متعلق یورپی یونین کو اپنے ملک کی شرائط گنواتے ہوئے ساتھ ہی امریکا پر جو شدید تنقید بھی کی ہے، اسے سنجیدگی سے نہیں لیا جا سکتا۔

اس موضوع پر ڈوئچے ویلے کے تبصرہ نگار جمشید برزگر لکھتے ہیں کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اپنی تازہ ترین تقریر میں یاد رہ جانے والی جو واحد بات کہی ہے، وہ یہ ہے: ’’امریکا مشہور (ٹیلی وژن کارٹون) ٹام اور جیری کی طرح ایک بار پھر ہارے گا۔ ہمیں کبھی بھی ایک لمحے کے لیے بھی اس بات میں کوئی شک نہیں رہا کہ دشمن ہارے گا اور جو کوئی بھی اسلامی تعلیمات سے آگاہ ہے، وہ یہ بات جانتا ہے‘‘۔

خامنہ ای ماضی میں بھی ’ٹام اینڈ جیری‘ کہلانے والی اسی امریکی کارٹون سیریز کا حوالہ دے چکے ہیں تاکہ امریکا کی مبینہ کمزوریوں کی وضاحت کر سکیں۔ ٹام ایک نر بلی ہے، جو بہت زیادہ اور مسلسل جدوجہد کرنے کے باوجود اپنی ان کوششوں میں کبھی کامیاب نہیں ہوتی کہ جیری کو پکڑ سکے۔

سات سال قبل اس وقت کے ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے ساتھ اپنی ایک ملاقات میں خامنہ ای نے کہا تھا، ’’جب کوئی امریکا دیکھتا ہے، تو وہ لازمی طور پر ٹام کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔ بہت دوڑ دھوپ، بہت شور، بہت محنت اور آخرکار ناظرین کے علاوہ خود ٹام بھی اپنی ہی توقعات سے بھی کہیں پیچھے۔ بات واقعی ایسی ہی ہے۔ بالآخر معاملات کا انحصار صرف اس بات پر ہوتا ہے کہ کوئی کتنا چالاک اور ہوشیار ہے‘‘۔

عملاً  بات ہے بھی یہی۔ ہوشیاری اور دانش مندی سے ایران یہ سمجھنے میں تو کامیاب ہو چکا ہے کہ طویل عرصے تک اپنے خلاف پابندیوں سے کیسے نمٹے۔ پابندیوں کے دور میں ایرانی تیل اور مصنوعات کی تجارت اور زرمبادلہ کے حصول کا غیر شفاف عمل ملکی معیشت میں اس وسیع تر بدعنوانی کی وجہ بھی بنا، جس کی پہلے کبھی کوئی مثال نہیں ملتی۔ لیکن پھر یہی (خامنہ ای کے الفاظ میں) ’بلیک میلنگ کی طرح کی پابندیاں‘ اس پیش رفت کا سبب بنیں کہ ایران اپنے متنازعہ جوہری پروگرام کو ختم کرنے یا اس کی بہت سخت نگرانی پر آمادہ بھی ہو گیا۔

بات یہ ہے کہ امریکا کی آئندہ ناکامی سے متعلق علی خامنہ ای نے ایک بار پھر ٹام اور جیری کا جو حوالہ دیا ہے، اس کے بارے میں کوئی سنجیدگی ممکن ہی نہیں۔ اسی طرح ایرانی سپریم لیڈر کی طرف سے یورپی یونین کے ساتھ کسی بھی طرح کے مزید مذاکرات سے انکار کو بھی قابل اعتماد نہیں سمجھا جا سکتا۔ حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ ایرانی مذاکراتی نمائندے اپنی طرف سے یہ پوری کوشش کریں گے کہ کم از کم یورپی ممالک سے بنیادی نوعیت کی چند ضمانتیں تو حاصل کر ہی لیں۔

ایران خود کو درپیش داخلی مسائل کی وجہ سے اس قابل ہی نہیں ہے کہ وہ یورپی مذاکراتی پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے یہ دھمکی دے دے کہ وہ اپنی جوہری تنصیبات میں یورینیم کی افزودگی دوبارہ شروع کر سکتا ہے۔ یہ بھی ایک ناقابل حصول خواہش معلوم ہوتی ہے کہ آیت اللہ علی خامنہ ای تہران کی طرف سے ایسی شرائط رکھیں، جو پوری کی ہی نہیں جا سکتیں۔

علی خامنہ ای نے اپنے تازہ ترین موقف سے بس ایک مقصد حاصل کیا ہے: انہوں نے یورپی یونین کی خارجہ امور کی نگران خاتون اہلکار فیدیریکا موگیرینی کی زندگی مشکل اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی زندگی آسان بنا دی ہے۔ ایران کے لیے اب آگے بڑھنے کا کوئی نیا راستہ کیا ہے، یہ بات خامنہ ای شاید اپنے کسی اگلے خطاب میں واضح کریں گے۔ اپنے ایسے کسی آئندہ خطاب میں شاید وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ کبھی کبھی دانشمندی یہی ہوتی ہے کہ انسان اپنے موقف میں نرمی یا تبدیلی لے آئے تاکہ بالآخر حتمی فتح بھی اسی کی ہو۔

مسئلہ یہ ہے کہ ٹام اور جیری کی بات کر کے ایرانی قیادت کو کوئی نئی تحریک تو ملے گی نہیں۔ اس لیے اگر ایرانی قیادت نے دوبارہ لازمی طور پر پھر بلیوں کی کہانیوں کا حوالہ دینے ہی کا فیصلہ کیا تو، جمشید برزگر کے بقول، وہ بھی قرون وسطیٰ کے ایران کے عبید زاکانی کی بلی اور چوہوں کی ایک کہانی کا حوالہ دینے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس کہانی میں چوہے ایک بلی کے خلاف بغاوت پر اتر آتے ہیں اور آخر کار بلی انہیں ایک ایک کر کے کھا ہی جاتی ہے۔

DW

Comments are closed.