آصف جیلانی
ہندوستان کے نامور صحافی اور دانشور کلدیپ نئیر 95 سال کی عمر میں انتقال کر گئے ۔ ان سے میری پہلی ملاقات دسمبر 1959 میں دلی میں حکومت ہند کے پریس انفارمیشن بیورومیں ہوئی تھی جب وہ لال بہادر شاستری کے انفارمیشن افسر تھے ۔ انہیں جب معلوم ہوا کہ میں پاکستانی صحافی ہوں تو مینار کی طرح قدآور کلدیپ نئیر نے مجھے گلے لگا لیا۔ کہنے لگے تم سے مل کر سیالکوٹ یاد آگیا جہاں میں پیدا ہوا تھا ، وہی سیالکوٹ جو اقبال کا شہر تھا اور فیض صاحب کا بھی اسی شہر سے تعلق ہے۔ میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھیں نم تھیں ۔ کہنے لگے کہ میں تقسیم کے وقت چوبیس برس کا تھا ، میں نے اس عمر میں مذہب کے نام پر اتنا خون بہتے اور غارت گری دیکھی ہے کہ میں جب 13ستمبر 1947 کو سرحد پار کر کے ہندوستان پہنچا تو میں نے عہد کیا کہ ہم ہندوستان کو ایسا ملک بنائیں گے جس میں مذہب اور ذات پات کے اختلافات کی وجہ سے کسی کی جان نہیں جائے گی۔
اس عہد کی پاسداری کے لئے وہ ساری عمر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات اور عوام کے مابین دوستی کے لئے جد و جہد کرتے رہے ۔2000کے بعد سے وہ ہر سال امن کے کارکنوں کے ساتھ موم بتیاں لے کر ہندوستان اور پاکستان کی سرحد اٹاری، واہگہ پر جاتے تھے تاکہ بھٹکی ہوئی دوستی کی راہ روشن کی جائے ۔ انہوں نے ہندوستان کی جیلوں میں قید پاکستانیون اور پاکستان کی جیلوں میں ہندوستانی قیدیوں کی رہائی میں نمایاں کام انجام دیاتھا۔او ر ہندوستان میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے خلاف نفرت اور ظلم کے خلاف انہوں نے آواز بلند کی اور اس کے لئے وہ ڈٹ کر کھڑے ہوئے۔
مئی 1964 میں جواہر لعل نہرو کے انتقال سے چند ماہ قبل انہوں نے نئی خبر رساں ایجنسی یو این آئی میں شمولیت اختیار کی تھی ۔ نہرو کے جانشین کے انتخاب سے قبل جب کہ کسی کا نام سامنے نہیں آیا تھا ، کلدیپ نئیر کی اس خبر نے زبردست تہلکہ مچا دیا تھا کہ مرار جی ڈیسائی نے جانشین کے امیدوار کی حیثیت سے اپنا ہیٹ میدان میں ڈال دیا ہے ۔ اس خبر کے بعد مرارجی ڈیسائی کے انتخاب کے جو بھی امکانات تھے وہ معدوم ہوگئے کیونکہ کانگریس کے اراکین کی اکثریت نے اس بات پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا کہ ابھی پورا ملک نہرو کے انتقال پر سوگ میں ہے اور مرار جی ڈیسائی نے اپنی امیدواری کا اعلان کر کے اقتدار کے لئے بے تابی کا اظہار کیا ہے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کانگریس کے اراکین کی اکثریت نے لال بہادر شاستری کے حق میں فیصلہ کیا۔
بیشتر صحافیوں کی رائے تھی کہ کلدیپ نئیر نے بڑی چابک دستی سے اپنے پرانے باس لال بہادر شاستری کو وزیر اعظم بنایا ہے ۔
کلدیپ نئیر نے اردو خبار انجام سے صحافت کا سفر شروع کیا تھا ۔جب بھی میں ان سے پی آئی بی کے دفتر میں ملتا تھا ان کی میز پر اردو اخبارات نمایاں نظر آتے تھے۔اسی زمانہ میں روزنامہ جنگ نے کلر پرنٹنگ شروع کی تھی ۔ میں نے جب انہیں جنگ کا با تصویر شمارہ دکھایا تو اچھل پڑے اورکہنے لگے کہ پاکستان میں اردو اخبارات نے واقعی زبردست ترقی کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جب میں نے اردو اخبار میں کام شروع کیا تھا تو اس وقت کوئی گمان بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اردو اخبار یوں رنگوں میں شائع ہوگا۔
اردو صحافت سے آغاز کرنے والے کلدیپ نئیر انگریزی کے ممتاز اخبار اسٹیسمین کے ایڈیٹر کے منصب تک پہنچے اور کچھ عرصہ انڈین ایکسپریس کے بھی مدیر کے عہدہ پر فایزرہے۔
سنہ1975میں اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کے دوران کلدیپ نئیر پہلے صحافی تھے جو ایمرجنسی کی مخالفت اور اخبارات کی آزادی میں آواز اٹھانے پر گرفتار کئے گئے تھے۔ان دنوں وہ بیساکھی پر تھے اور اسی بیساکھی کے سہارے وہ تہاڑ جیل گئے۔
یواین آئی اور اس کے بعد اپنے سینڈیکیٹڈ کالموں میں انہوں نے کئی معرکہ آرا اسکوپس کے ذریعہ اپنا نام پیدا کیا۔ ان میں ایک اسکوپ پاکستان کے جوہری بم کے بارے میں انکشاف تھا۔ 1987کے یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہندوستان نے اور پاکستان کے درمیان شدید کشیدگی تھی اور ہندوستان نے براس ٹیک کے نام سے فوجی مشقوں کی آڑ میں بھاری تعداد میں فوجیں راجھستان میں پاکستان کی سرحد پر جمع کر دی تھیں۔
اس دوران کلدیپ نئیر پاکستان آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے پاکستان کے جوہری بم کے خالق ڈاکٹر عبد القدیر خان سے انٹرویو کیا تھا جس میں ڈاکٹر عبد القدیر خان نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان نے یورینیم افزودہ کرنے کے بعد جوہری بم تیار کر لیا ہے ، جو ہندوستان کے حملہ کی صورت میں پاکستان کے دفاع کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان نے کہا تھا کہ امریکہ کو اس کا علم ہے اور سی آئی اے کا یہ کہنا صحیح ہے کہ پاکستان کے پاس جوہری بم ہے۔
اس انکشاف کے بعد ہندوستان نے اپنی فوجیں پاکستان کی سرحد سے واپس بلا لیں اور دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کم ہوگئی۔
ڈاکٹر عبد القدیر خان کے ساتھ کلدیپ نئیر کے اس انٹرویو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا اہتمام روزنامہ مسلم کے اس زمانہ کے ایڈیٹر مشاہد حسین سید نے کیا تھا ۔آبزرور میں اس انٹرویو کی اشاعت کے بعد پاکستان میں ہنگامہ برپا ہوگیا تھااور یہ سوال کیا جارہا تھا کہ کلدیپ نئیر کو یہ سہولت کس نے فراہم کی ۔ نتیجہ یہ کہ مشاہد حسین سید کو ایڈیٹری سے استعفی دینا پڑا۔بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ فوج کی خفیہ ایجنسی نے اس انٹرویو کا اہتمام کیا تھا تاکہ ہندوستان کو خبردار کیا جائے کہ واقعی پاکستان کے پاس جوہری بم ہے اور اس بارے میں قیاس آرائیوں کی تصدیق کی جائے۔
کہا جاتا ہے کہ مشاہد حسین سید کے استعفی سے یہ ثابت کرنا تھا کہ اس انٹرویو کے پیچھے فوج کی خفیہ ایجنسی کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ بہر حال جو بھی ہو یہ اس انٹرویو کا اثر ہوا کہ ہندوستان نے اپنی فوجیں پاکستان کی سرحد سے واپس بلالیں اور دونوں ملکوں میں کشیدگی کم ہوگئی۔
سنہ1971میں پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد کلدیپ نئیر پاکستان آئے تھے۔ ان سے کراچی میں ملاقات ہوئی ۔ ان کو اس پر سخت حیرت تھی کہ پاکستان ٹوٹ کیا اور اتنا بڑا سانحہ ہوا لیکن پاکستان میں سنجیدگی سے اس پر کوئی بحث نہیں ہوئی کہ اس سانحہ کے کیا اسباب تھے اور اس کے کیا مضمرات ہیں۔
سنہ1990میں کلدیپ نئیر ہندوستان کے ہائی کمشنر کے عہدہ پر لندن آئے تھے۔ یہاں جب بھی ان سے ملاقات ہوئی وہ اس عہدہ پر زیادہ خوش نظر نہیں آئے۔ کہتے تھے کہ میں بنیادی طور صحافی ہوں ۔ میں کہاں سفارتی بھول بھلیوں میں گم ہوگیا ہوں ۔ ویسے بھی وہ زیادہ عرصہ لندن میں ہائی کمشنرکے عہدہ پر نہیں رہے اور بہت جلد انہوں نے کالم نگاری دوبارہ سنبھال لی۔
کلدیپ نئیر کے کالموں اور ان سے ملاقاتوں میں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ان کے دل میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دوستی کی خواہش کا ہر لمحہ فروزاں ایک شعلہ تھا۔ انہوں نے اپنی جوانی میں مذہب کے نام پر جو قتل و غارت گری دیکھی تھی اور اس کے خاتمہ کے لئے انہوں نے اکہتر سال قبل جو عہد کیا تھا اس کو پورا کرنے کے لئے ساری عمر انہوں نے جدو جہد کی لیکن حالات نے ان کا ساتھ نہیں دیا ۔ کلدیپ نئیر یہ شعلہ اپنے سینہ میں جلائے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
♦