پاکستانی میڈیا پر فوج کا خاموش کنٹرول

صحافیوں کے امور پر نظر رکھنے والی ایک بین الاقوامی تنظیم ( کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس )کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں آزادیء صحافت دباؤ کا شکار ہے۔ اس کی وجہ طاقتور ملکی فوج کی جانب سے صحافیوں کو ڈرانا دھمکانا اور بعض اوقات تشدد کرنا بتائی گئی ہے۔

کمیٹی کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کا سب سے با اثر ادارہ یعنی فوج، خاموشی کے ساتھ تاہم موثر طریقے سے رپورٹنگ پر پابندیاں عائد کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے صحافیوں کو بالواسطہ یا بلا واسطہ طور سے ڈرایا دھمکایا بھی جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق سینیئر ایڈیٹروں اور صحافیوں کا کہنا ہے کہ آج پاکستان میں آزاد صحافت کی صورت حال بالکل ویسی ہی ہے جیسے ملٹری حکومتوں کے ادوار میں ہوا کرتی تھی جب صحافیوں کو کوڑے لگائے جاتے تھے اور اخبارات کو جبراًﹰ بند کیا جاتا تھا۔

رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ اگرچہ صحافیوں کی ہلاکت کے واقعات میں کمی تو واقع ہوئی ہے تاہم گزشتہ ایک عشرے میں قتل ہونے والے بائیس میں سے نصف صحافیوں کی ہلاکتوں کو ملکی آرمی، خفیہ اداروں یا پھر فوج سے وابستہ تنظیموں سے منسلک کیا گیا ہے۔

تاہم اس رپورٹ میں صحافیوں کی ہلاکت میں کمی کو انہیں ڈرائے دھمکانے جانے اور تشدد کیے جانے کے واقعات سے جوڑا گیا ہے۔

ایک ایڈووکیسی گروپ کا کہنا ہے کہ حساس موضوعات کو زیادہ محتاط طریقے سے کَور کرنا اور بنیادی طور پر سیلف سینسر شپ عائد کرنا صحافیوں پر تشدد میں کمی کا اسباب ہیں۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے )کی یہ رپورٹ ایسے متعدد صحافیوں کے خیالات کی ترجمانی کرتی ہے جن کا کہنا ہے کہ انہیں دی جانے والی دھمکیوں کے نتیجے میں وہ حساس موضوعات پر آزادی سے بات نہیں کرتے۔

سی پی جے کے مطابق ایسے ہی ایک صحافی کو دارالحکومت اسلام آباد میں ایک حملے میں بری طرح مارا گیا تھا۔ کراچی میں تشدد کا نشانہ بنائے جانے والے ایک اور صحافی کا کہنا ہے کہ اسے مارنے والے افراد عام شہریوں کے بھیس میں سیکیورٹی فورسز کے ارکان تھے۔

 رپورٹ میں ایسے ہی ایک جرنلسٹ کے حوالے سے لکھا ہے،’’ فوج کا مائنڈ سیٹ ایسا بن چکا ہے کہ اجتماعی بیانیے کو کنٹرول کیا جائے اور آراء کے تنوع کو محدود کر دیا جائے۔ ہم سمجھتے تھےکہ جو ہمیں ٹھیک لگتا ہے بس وہ لکھنا چاہیے۔ لیکن اب لوگ خوفزدہ ہیں‘‘۔

سی جے پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے بعض صحافیوں کے نزدیک توہین رسالت کا الزام ، جسے پاکستان جیسے قدامت پسند ملک میں کسی پر بھی عائد کر کے اس کی موت کا سبب بنایا جا سکتا ہے، اب صحافیوں کو ڈرانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے پاکستانی آرمی کی رائے لینی کی کوشش کی گئی لیکن اس کی جانب سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ خیال رہے کہ پاکستان کی فوج ایک طویل عرصے سے اس قسم کے الزامات کو مسترد کرتی آئی ہے۔

DW

One Comment