جمال خاشقجگی کو منصوبے کے تحت قتل کیا گیا

سعودی عرب کے ریاستی ٹی وی نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور ترکی کی مشترکہ ٹاسک فورس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل کی منصوبہ بندی پہلے سے کی گئی تھی۔ریاستی ٹی وی کا مزید کہنا ہے کہ سعودی عرب مشتبہ افراد سے تفتیش کر رہا ہے۔

دوسری جانب سعودی خبر رساں ایجنسی سعودی پریس ایجنسی کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد ملک کی انٹیلیجنس سروسز کی تنظیم نو کے لیے قائم کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کی ہے۔

سعودی پریس ایجنسی کے مطابق کمیٹی نے اصلاحات کے منصوبے پر بات چیت کی۔ اس اجلاس میں جنرل انٹیلیجنس پریذیڈنسی کے تنظیمی ڈھانچے، موجود قانونی فریم ورک اور قواعد و ضوابط، پالیسیوں پر غور کیا گیا۔

انٹیلیجنس سروسز کی تنظیم نو کا فیصلہ 20 اکتوبر کو جمال خاشقجی کیے قتل کیے اعلان کے فوری بعد جاری کیے گئے شاہی فرمان میں کیا گیا تھا۔اس فرمان کے فوری بعد ایک اور شاہی فرمان جاری کیا گیا تھا جس میں متعدد اعلیٰ انٹیلیجنس حکام اور شاہی مشیران کو برطرف کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے پہلی بار سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بارے میں براہ راست بیان دیتے ہوئے عہد کیا کہ اس جرم میں ملوث تمام مجرموںکو سزا دی جائے گی۔

ریاض میں کاروباری شخصیات کے لیے منعقد کی گئی ’فیوچر انویسٹمینٹ انیشی ایٹو‘ نامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سعودی ولی عہد نے کہا کہ یہ جرم تمام سعودیوں کے لیے باعث تکلیف ہے لیکن وہ ترکی کے ساتھ کبھی بھی تعلقات خراب ہونے نہیں دیں گے۔

انھوں نے مزید کہا کہ یہ نہایت ہی گھناؤنا جرم ہے اور اس کی کوئی معافی نہیں ہےاور ساتھ ساتھ عہد کیا کہ وہ تمام لوگ جو اس جرم میں ملوث ہیں ان سب کو سزا ملے گی اور انصاف کا بول بالا ہوگا۔

ترکی سے تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ان سے روابط اچھے ہیں لیکن چند افراد ان حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دونوں ممالک کے تعلقات کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن میرا ان کے لیے پیغام ہے کہ وہ ایسا کبھی نہیں کر سکیں گے۔

دو اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں ہونے والے اس قتل کے حوالے سے سعودیوں نے مسلسل اس الزام کی تردید کی ہے کہ سعودی شہزادے کا اس میں کوئی عمل دخل تھا۔

حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ چند سرکش ایجنٹاس قتل کے ذمہ دار ہیں اور اس سلسلے میں دو اعلی افسران کو برخاست کر دیا گیا جبکہ 18 افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔

منگل کو ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے ترک پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سعودی حکومت کے ناقد جمال خاشقجی کا قتل سیاسی بنیادوں پر ہوا ہے جس کی بھرپور تیاری کی گئی تھی۔

منگل کو ہی شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے والد شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے ہمراہ جمال خاشقجی کے خاندان کے افراد سے ملاقات کی تھی جس میں سعودی صحافی کے بیٹے بھی شامل تھے۔33 سالہ محمد بن سلمان کو سعودی عرب کا حقیقی سربراہ سمجھا جاتا ہے اور ان کے حمایتیوں کا کہنا ہے کہ وہ قدامت پسند ملک کو جدید راہ پر گامزن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

لیکن دوسری جانب ان کے ناقدین ان کو قطر اور یمن کے بحران کا ذمہ دار ٹھیراتے ہیں اور جمال خاشقجی کے قتل کے بعد کئی نے مطالبہ کیا تھا کہ انھیں ہٹا دیا جائے۔

BBC

Comments are closed.