بلاشبہ قائداعظم محمد علی جناح اورعلامہ محمد اقبال جیسے عظیم لوگ ہمارے محسن اور راہنما تھے ۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یہ عہد ساز شخصیات ہمارے عہد رفتہ کے روشن ستارے ہیں۔ بڑی خوش آئند بات ہے کہ ہمارے ہاں ہرسال ان عظیم رہنماووں کو سرکاری اور عوامی سطح پر یاد بھی کیا جاتاہے اوران کے حق میں بہت کچھ لکھا بھی جاتاہے ۔ لیکن بعض اوقات میں اپنے آپ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ کیا برصغیر پاک وہند کی تاریخ فقط انہی دوتین شخصیات سے تشکیل پاتی ہے یا اس سلسلے میں ہمارے پاس روشن ستارے اور بھی ہیں؟
اس سوال کاجواب مجھے یوں ملتاہے اور سچی بات بھی یہی ہے کہ ایسی عبقری شخصیات کے حوالے سے پاک وہندکے مسلمانوں کی تاریخ بہت روشن ہے۔ البتہ یہ اور بات ہے کہ کانگریس اور مسلم لیگ یا سرحدات کی عینک لگا نے کے بعد ہم نے اپنے بے شمار روشن ستاروں کوایسابھلا دیاہے کہ اب غلطی سے بھی ان کانام لینانہیں چاہتے۔ بقول شاعر
تو ہی نادان چند کلیوں پر قناعت کرگیا۔۔۔ ورنہ گلشن میں علاج تنگئی دامان بھی ہے
ہمارے حافظوں سے محو ہونے والوں ان روشن ستاروں میں ایک ستارہ مولانا ابوالکلام آزاد بھی ہیں ۔مولانا آزاد نہ صرف برصغیر کی چوٹی کے سیاستدانوں میں سے ایک تھے بلکہ وہ اپنے وقت کے متبحر عالم دین اور غیر معمولی ادیب اور انشاء پرداز بھی تھے ۔
مولانا سیاست کے میدان میں اس وقت وارد ہوئے جب ہندوستان مکمل طور پر انگریز سامراج کے قبضے میں جاچکاتھا اور 1905میں لارڈ کرزن بنگال کی تقسیم کا فیصلہ کرنے لگے تھے۔ لارڈ کرزن کے اس فیصلے پر اُسی زمانے میں ایک زبردست سیاسی وانقلابی جوش پیدا ہوا تھا۔ یہیں سے مولانا کے دل میں انقلابی سیاست نے انگڑائی لی تھی اورپھر یہیں سے انہوں نے ہندو انقلابیوں کے ایک گروپ کو جوائن کرلیا۔ 1916 میں انگریزی حکومت نے مولانا کوگرفتار کرکے انہیں رانچی جیل میں قید کردیاجہاںپر وہ چار سال تک رہے۔
چاربرس بعد رہائی ملنے کے بعد مہاتما گاندھی سے ان کی پہلی ملاقات ہوئی جس کے بعدوہ باقاعدہ طور پرہندوستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت گانگریس میں شامل ہوگئے اور مرتے دم تک اسی پلیٹ فارم سے وہ متحدہ ہندوستان کے دفاع اور انگریز وں کی مخالفت میں اپنی آواز بلند کرتے رہے ۔مولانا کی زندگی پر نظر ڈالنے کے بعداس بات کا اعتراف کیے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ انگریزی سرکارکے خلاف وہ ایک ایسی توانا آواز تھی جو اسٹیج سے تقاریرکی صورت میں بھی بلند ہوتی تھی اور ماہنامہ ”الہلال و البلاغ ” کی تحریروں کی شکل میں انگریزوں کیلئے دردسرثابت ہوئی ۔انگریزوں کے خلاف اسی مزاحمت کی بنا پر مولانا آزادکوچھ مرتبہ قید وبند کی صعوبتیں جھیلنے سے واسطہ پڑا ۔پہلی مرتبہ ان کو اس وقت گرفتار کرکے رانچی جیل میں ڈال دیاگیا جب ان کی عمر ستائیس سال تھی ۔
پھر 1921،1931،1932اور1941میں یکے بعد دیگرے مسلسل ان کو جیل کی کٹھن اور آزمائشی زندگی سے پالا پڑا ۔قلعہ احمد نگر جیل سے لکھے گئے اپنے ایک خط میں مولانا لکھتے ہیں کہ ستر سالہ زندگی میںگویا انہوں نے ہرسات دن میں سے ایک دن قید کے اندر گزارا ہے ”۔سیاسی میدان میں مولانا کا ہمیشہ مطمح نظردوچیزیں رہیں ، ایک ہندوستان کو انگریزی استعمار سے آزادی دلوانا اور دوسرا ہندوستان میں مسلمانوں اور ہنددوں کا اتحاد ۔ اگرچہ مسلم لیگ کی قیادت کے مطابق مسلمانوں کی فلاح ایک الگ اسلامی ریاست میں پنہان تھی لیکن مولانا آزاد کے خیال میں منقسم ہندوستان میںمسلمانوں کا ہر اعتبار سے خسارہ تھا اور ان کا وجود خطرے میں پڑسکتاتھا۔وہ سمجھتے تھے کہ تقسیم کے عمل سے گزر کر مسلمانوں کو مستقبل میں گوناگوں نقصانات اٹھانا پڑیں گے۔
اس بارے میں مولانانے شورش کاشمیری کو ”چٹان ” کیلئے ایک مفصل انٹرویو بھی دیا تھا جس میں انہوں نے تقسیم کے حوالے سے بے شمار پیش گوئیاں کی تھیں ۔ مولانا ابوالکلام آزاد محض ایک سیاستدان ہی نہ تھے بلکہ اپنے وقت کے جید عالم دین بھی تھے ۔ اردو ، فارسی اور انگریزی زبانوں کے ساتھ ساتھ ان کی عربیت بھی اتنی اچھی تھی کہ قلیل عرصے میں عربی کے کتب خانے چھان لیے ۔ ترجمان القرآن کے نام سے قرآن مجید کی تفسیر لکھی اور کمال کی لکھی ۔
اٹھارہ سال کی عمر میں اسلامی توحید اور مذاہب عالم ” کے نام سے کتاب لکھی جس میں انہوں نے اسلام کی وسعتوں کا جائزہ لیاہے اور لکھا ہے کہ یورپ اور ایشیا کے تمام مذاہب اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ اسی طرح خلافت کے مسئلے پر بھی انہوں نے لکھا اور” کشش مادہ اور کشش عشق” کے نام سے ایک رسالہ لکھا۔ بارہ سال کی عمر میں انہوں نے جلال الدین سیوطی کے ایک رسالے ”نوراللہ فی الخصائل الجمعہ ” کا ترجمہ کیااور پھر اس کے بعد علامہ سیوطی کے ایک اور رسالے ”انیس البیب فی الخصائص الحبیب ” کا ترجمہ کیا۔اسی طرح علامہ غزالی کی کتابوں ”منہاج العابدین،فنون امام غزالی بھی ترجمہ کیا۔
اسی لئے تو مولانا انور شاہ کاشمیری نے جب ان کو دارالعلوم دیوبند میں مولانا نانوتوی اور حضرت شیخ الہند کے قبور کے پاس دیکھاتو فی البدیہہ فرمانے لگا ”وہ دیکھو علم ٹہل رہاہے ”۔ دیکھاجائے تودوسری طرف مولانا کمال کے مترجم اور غیرمعمولی ادیب اور انشاء پرداز تھے۔قلعہ احمد نگر جیل میں اسارت کے دوران لکھی گئی کتاب ” غبار خاطر ” مولانا کی ایک ایسی حسین نثری کاوش ہے جس میں انہوںکمال کا نثر شامل کیاہے ۔ماہنامہ ” الہلال نے مولانا آزاد کو ایک نئی شناخت دی اور یہ شاہکار ماہنامہ ان کی صحافتی معراج تھی ۔الہلال ہی کی برکت تھی کہ نہ صرف ہندوستانی مسلمانوں پر ان کا ماضی منکشف ہوا بلکہ انہیں نئی راہیں تلاش کرنے کا گُر بھی سیکھنے کو ملا۔ الہلال کے مضامین سے الرجی انگریزی سرکار نے جب اس پر پابندی لگادی توبعدمیں مولانا نے البلاغ کے نام سے ایک اور ماہنامے کا اہتمام کیاجو بھی ہر حوالے سے اپنی مثال آپ تھی ۔مولانا کی اسی بے باک گویائی کے متعلق مولانا حسرت موہانی فرمانے لگے،
جس زمانے میں سب تھے مہر بلب۔۔۔ ایک گویا تھے ابوالکلام آزاد
طبیعت جب فارسی شاعری کی طرف مائل ہوگئی تو ”تومل ودُمن ” کے وزن پر فارسی مثنوی لکھنے کا آغاز کیا لیکن ناتمام رہ گئی ۔1902میں فرہنگ جدید کے نام سے انہوں نے مرزا غالب کی قاطع برہان اور ہدایت قلی ناصری کے طرز پر تھاایک فارسی لغت بھی مرتب کیا۔شورش کاشمیری کے مطابق اگرچہ مولانا آزاد نثر اور علامہ اقبال نظم کے شہسوار تھے لیکن سچ یہ ہے کہ مولانانے شعر لکھنے میں بھی طبع آزمائی کی اور غزلوں کاایک دیوان بھی شائع کیا جوکہ بدقسمتی سے اب تک مفقود ہے ۔
مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی نے مولانا کو ہمیشہ اپنا مرشد کہا کرتے تھے اور فرماتے کہ ” ابوالکلام میں ابوذر کا فقر، علی کا استغناء ، صدیق کا عشق ، فاروق کا دبدبہ اور عثمان کی حیا اور امام احمد بن حنبل کی استقامت رچی ہوئی ہے۔غرض مولانا ابوالکلام آزاد مسلمانان ہند کیلئے وہ بیش بہا عطیہ تھے جنہوں نے اپنی ستر سال کی مختصر زندگی میں قوم کیلئے صدیوں کا کام نمٹا کر رحلت فرماگئے ،
بھلا سکیں گے نہ اہل زمانہ صدیوں تک ۔۔۔ مری وفا کے مری فکر وفن کے افسانے۔
One Comment