سعودی عرب کے جلا وطن رہنماؤں اور حکومت کے ناقدین نے ملک میں سیاسی اصلاحات پر زور دینے کے لیے حزب اختلاف کی جماعت کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ اپوزيشن نے ملک میں پرامن تبدیلی کی بات کہی ہے۔
سعودی عرب کے فرماں روا شاہ سلمان نے بدھ 23 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر سے ایران کے خلاف سخت موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب اس کے سامنے جھکنے والا نہیں ہے۔ ان کے اس خطاب کے محض چند گھنٹوں بعد ہی سعودی عرب کے جلا وطن رہنماؤں کے ایک گروپ نے ملک میں حزب اختلاف کی جماعت کے قیام کا اعلان کر دیا۔
سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے ایسے بیشتر رہنما برطانیہ، امریکا اور کینیڈا جیسے ممالک میں مقیم ہیں۔ اس کی قیادت لندن میں رہنے والے انسانی حقوق کے سرگرم کارکن یحییٰ عصیری کر رہے ہیں۔ یحییٰ عصیری کا کہنا ہے کہ ان کی سیاسی جماعت کا مقصد، ”سعودی عرب میں شاہی سلطنت کی جگہ ایک جمہوری طرز کی حکومت کا قیام ہے”۔
حزب اختلاف کی نئی جماعت ‘نیشنل اسمبلی پارٹی‘ (این اے اے ایس) نے اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا کہ موجودہ، ”حکومت بڑی تعداد میں سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریاں اور قتل کر کے مسلسل ظلم و تشدد کی راہ پر عمل پیرا ہے” عصیری سعودی عرب کی فضائیہ کے ایک سابق افسر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن پارٹی کا قیام ایک، ”ایسے نازک وقت پر ہوا ہے جب ملک کو بچانا بہت ضروری ہوگیا ہے”۔
برطانیہ میں تعلیم و تدریس سے وابستہ معروف شخصیت مدوی الرشید پارٹی کی ترجمان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعت قائم کرنے والے افراد کو سعودی عرب کے حکمراں خاندان سے کوئی ذاتی بغض و عناد نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس جماعت کے قیام کا، ”وقت اس لیے بہت اہم ہے کیونکہ ظلم و تشدد کے ماحول میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جارہا ہے”۔
اپوزیشن جماعت کے قیام اور اس کی جانب سے جاری ہونے والے بیانات پر سعودی عرب کی طرف سے ابھی تک کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ البتہ ماضی میں سعودی عرب اس بات کی تردید کرتا رہا ہے کہ اس کی انتظامیہ ناقدین اور مخالفین کی آواز دبانے کے لیے ظلم و جبر اور تشدد کا راستہ نہیں اپناتی ہے۔
سعودی عرب آئندہ نومبر میں جی 20 چوٹی اجلاس منعقد کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے لیکن خام تیل سے ہونے والی آمدنی میں شدید کمی کے باعث وہ معاشی مندی کی مار جھیل رہا ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اس صورت حال میں اپوزیشن جماعت کا اعلان اس کے لیے ایک نیا اور سخت چیلنج ہے۔
شاہ سلمان نے ماضی کی تمام روایات کو توڑتے ہوئے 2017 میں اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا تب سے عالمی سطح پر سعودی عرب کے خلاف ہونے والی نکتہ چینی میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ 2018 میں محمد بن سلمان اور سعودی حکومت کی بعض عوام مخالف پالیسیوں کے ناقد سعودی صحافی جمال خاشقجی کے استنبول میں سعودی سفارت خانے میں قتل کے بعد سے محمد بن سلمان اور ملک کی شبیہہ بری طرح سے متاثر ہوئی ہے۔
سعودی حکام گرچہ اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ جمال خاشقجی کے قتل میں محمد بن سلمان ملوث تھے، تاہم ایک عدالت نے حال ہی میں آٹھ افراد کو اس قتل کے لیے 20 برس قید کی سزا سنائی ہے۔ محمد بن سلمان نے بعض سماجی اصلاحات کا بھی اعلان کیا ہے، جس میں خواتین کو گاڑی ڈرائیو کرنے کی جازت شامل ہے۔
لیکن ان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ محمد بن سلمان مخالفین اور ناقدین کا تعاقب کرنے کے لیے معروف ہیں۔ حزب اختلاف کے مطابق محمد بن سلمان نے متعدد انسانی حقوق کے کارکنان، مذہبی علماء اور ملک کے ایسے دانشوروں کو غیر قانونی طور پر حبس بے جا میں رکھا ہوا جو ان کی بات سے متفق نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ محمد بن سلمان ان افراد کو کنارے لگانے میں لگے رہتے ہیں جن سے ان کی تخت نشینی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
سعودی عرب کے فرمانروا 84 سالہ شاہ سلمان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں خطے کے اپنے حریف ایران پر امن کا ہاتھ نہ تھامنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ، ”اپنے دہشت گردارنہ نیٹ ورک کا استعمال کرتا ہے۔” حسب معمول انہوں نے یہ بات بھی دہرائی کی سعودی عرب پر مسلمانوں کے لیے مقدس شہر مکہ کی حفاظت کی خاص ذمہ داری ہے۔
dw.com/urdu
♣