بیرسٹر حمید باشانی
پاکستان نے دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ دعوت امریکہ میں جمہوریت کے لیے ہونے والے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے تھی۔ وزارت خارجہ نے امریکہ اور دیگر میزبان ممالک کی طرف سے اس اجلاس کی دعوت پر شکر یہ ادا کیا، لیکن اس اجلاس میں شرکت سے معذرت کر لی۔ اس اجلاس میں سو سے زائد ممالک کو مدعو کیا گیا تھا۔ وزارت خارجہ نے کہا کہ ملک جمہوری اصولوں کے فروغ کے لیے امریکہ اور دیگر میزبان ممالک کے ساتھ مل کر دو طرفہ سطح پر کام کرے گا، لیکن اجلاس میں شرکت نہیں کرے گا۔ امریکی صدر جو بائڈن نے29مارچ کو جمہوریت کے لیے سربراہی اجلاس منعقد کیا ہے۔
یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے، جب دنیا بھر میں جمہوریت کی تصویر دن بدن دھندلی ہوتی جا رہی ہے۔ دنیا میں جمہوریت پر نگاہ رکھنے والے اداروں اور تنظیموں کی رپورٹس بڑی مایوس کن ہیں۔ ان رپورٹس کے مطابق گزشتہ ایک عشرہ کے دوران دنیا میں جمہوری نظام اور مجموعی طور پر جمہوری تصورات کو سخت دھچکے پہنچے ہیں۔ دس بارہ برس قبل ان ہی اداروں کی رپورٹس کے مطابق دنیا میں جمہوریت روبہ زوال ضرور تھی، لیکن دنیا کی کل آبادی کا صرف چھیالیس فیصد حصہ مطلق العنانیت یا آمریت پسند حکم رانوں کے زیر اثر تھا ۔ لیکن اب دس برس بعد نئی رپورٹس بتاتی ہیں کہ دنیا کی 72 فیصد آبادی کسی نہ کسی شکل میں مطلق العنانیت یا امریت کے زیر سایہ ہے۔
بائیڈن نے اقتدار میں آنے کے بعد دنیا میں جمہوری اقدار کے فروغ کے بارے میں بڑی گرم جوشی سے بات کی تھی۔ انہوں نے جمہوریت کے فروغ اور تحفظ لیے پہلی سربراہی کانفرنس میں، جو دسمبر 2021 میں منعقد ہوئی تھی، بڑا زور دیا تھا۔ لیکن انہوں نے عملی طور پر اس سلسلے میں کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا، جس کی وجہ سے دنیا میں روبہ زوال جمہوریت کو سہارا دیا جا سکتا ہو۔ اگر چہ اس بات کا اظہار بار بار کیا گیا کہ ریاستہائے متحدہ دوسرے ممالک میں جمہوریت کے دفاع کو خارجہ پالیسی کی ایک بڑی ترجیح قرار دیتی ہے، اور اس کے لیے سخت اقدامات کے لیے تیار ہے۔ اس بات کو ماضی کی طرح ایک خاص قسم کا” نظریاتی ٹچ” دینے کے لیے بائیڈن نے جمہوریت اور آمریت کے درمیان جدوجہد کو “ہمارے وقت کا واضح چیلنج” قرار دیا ہے۔
اس سلسلے میں وہ صدر بننے سے پہلے صدر کے امیدوار کے طور پر زیادہ پر جوش تھے۔ ان کی انتخابی مہم میں اندرون اور بیرون ملک جمہوریت کے تحفظ کی ضرورت ایک اہم نقطہ رہا ہے۔ عہدہ سنبھالنے کے بعد مگر انہوں نے اس موضوع پر دھیما لہجہ اختیار کر لیا۔ امریکی سرحدوں سے باہر جمہوریت کے دفاع کے لیے ان کا اور ان کی انتظامیہ کا انداز بہت کم زور بلکہ بڑی حد تک لاتعلقی کا رہا ہے۔ جمہوریت کے نام پر ہونے والے سربراہی اجلاسوں میں ان ممالک کو اکٹھا کیا گیا، جو پہلے ہی جمہوریت پسند ہیں، اور جمہوریت کے لیے پر عزم ہیں۔
لیکن جن ملکوں کو حقیقی طور پر اپنے اندر یا ارد گرد مطلق العنانیت کا مقابلہ تھا، ان سے کنارہ کشی یا لاتعلقی اختیار کی گئی ۔ اس کے بجائے مختلف ممالک کے اندر گورننس کے معاملات، سیکیورٹی اور معاشی معاملات کو زیادہ اہمیت دی گئی۔ ایک عرصے سے ترکی، ہنگری اور پولینڈ جیسے ممالک میں جمہوریت پر حملے ہو رہے ہیں۔ ان ملکوں میں جمہوریت کو بڑے پیمانے پر محدود کر دیا گیا۔ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئیں۔ شہری آزادیوں پر قدغن لگائی گئی۔ لیکن اس پر امریکہ کی طرف سے کوئی قابل ذکر رد عمل یہاں نہیں آیا۔ اسی طرح سوڈان اور میانمار جیسے ممالک میں جمہوریت، اور جمہوری تحریکوں کے کچلے جانے پر بھی خاموشی اختیار کی گئی ۔ اور جب چاڈ کے صدر ادریس ڈیبی کے بیٹے مہامت نے اقتدار پر قبضہ کر لیا، ریاستہائے متحدہ امریکہ نے اس اقدام کو بغاوت قرار دے کر چاڈ کے ساتھ اپنے تعلقات کو خطرے میں نہ ڈالنے کا انتخاب کیا۔
اسی طرح تھائی لینڈ اور ویتنام کے ساتھ امریکی دفاعی تعاون انتہائی تیز رفتاری سے بڑھتا رہا ہے، حالاں کہ یہ ممالک ان بنیادی جمہوری اصولوں کو نظر انداز کرنے پر اصرار کرتے رہے، جن کے تحفظ کا امریکہ نے بظاہر بیڑا اٹھانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ یہ صورت حال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ امریکہ نے دنیا کے ان حصوں میں جمہوریت کو لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی قابل ذکر کوشش نہیں کی، جہاں جمہوریت کے محدود کرنے یا اس کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے کی وجہ سے براہ راست امریکی مفادات پر کوئی ضرب نہیں پڑتی۔
اس طرح مختصر الفاظ میں بائیڈن نے درست طور پر خارجہ پالیسی میں جمہوریت پر زور دیا، مگر عملی دنیا میں آمریتوں کو چیلنج کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اور نہ ہی ایسی حکمت عملی وضح کی، جو امریکی پالیسیوں اور اقدامات کو دنیا بھر کے لوگوں کی جمہوری امنگوں کے ساتھ بہتر طور پر ہم آہنگ کر سکے۔ جمہوریت کے لیے دوسری سربراہی کانفرنس اب ہے، اور اس کی میزبانی ریاستہائے متحدہ کوسٹا ریکا، نیدرلینڈز، جنوبی کوریا اور زیمبیا کر رہے ہیں۔ یہ کانفرنس بائیڈن انتظامیہ کو ایک اور موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنے دعووں اور عمل کو ہم اہنگ کرنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔ لیکن اگر یہ سربراہی اجلاس، پہلے کی طرح آمریت کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی حکمت عملی وضح نہیں کرتا، تو یہ جمہوریت کے لیے مایوس کن بات ہے ۔
بائیڈن انتظامیہ کی جمہوریت کے دفاع کے لیے بیان بازی اور اس کی خارجہ پالیسی کے درمیان ایک بڑا خلا ہے ۔ 2021 میں جمہوریت کے پہلے سربراہی اجلاس میں، بائیڈن نے صدارتی اقدام برائے جمہوری تجدید کی نقاب کشائی کی تھی۔ ان پروگراموں میں دنیا میں آزاد میڈیا، اور آزاد و منصفانہ انتخابات کی حمایت جیسے اعلانات شامل تھے۔ تاثر یہ تھا کہ یہ پروگرام جمہوری جدوجہد کو تقویت دے سکتے ہیں، اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کو مضبوط کر سکتے ہیں۔ امریکہ کے نزدیک ان پروگراموں کا مقصد جمہوریت کو در پیش خطرات کا مقابلہ کرنا تھا۔ ان بڑے خطرات میں ٹیکنالوجی کا غلط استعمال یا بدعنوانی کا خاتمہ وغیرہ شامل تھے۔ لیکن اس میدان میں ریاستہائے متحدہ امریکہ کو جن آمرانہ رہنماؤں کا سامنا رہا ہے ، ان میں سے کچھ امریکی اتحادی ہیں ۔
بائیڈن انتظامیہ نے ان آمروں کو چیلنج نہیں کیا،اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی منصوبہ سامنے آیا۔ یہ امریکی پالیسی کے شدید تضاد ات ہیں۔ لیکن امریکہ کی پالیسیوں میں تضاد ات کے باوجود پاکستان کی طرف سے اس اجلاس میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ وضاحت طلب ہے۔ جو لوگ اس وقت پاکستان میں اقتدار میں ہیں، انہوں نے2021میں ہونے والے پہلے سربراہی اجلاس میں پاکستان کی عدم شرکت پر شدید اعتراض کیا تھا۔اس موضوع پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے موجودہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے اس فیصلے کو بہت بڑی غلطی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اس وقت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اپنے اپ کو کسی بھی فورم سے باہر رکھ سکے۔ انہوں نے ایسے فورم پر ہر صورت میں شامل ہونے اور مکالمہ کرنے پر زور دیا تھا۔ لیکن یہ لوگ جب اقتدار میں ہیں،، اور بلاول وزیر خارجہ ہیں تو انہوں نے عدم شرکت کا فیصلہ کیا ہے۔۔بین اقوامی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ان میں اس اجلاس میں تائیوان کی شرکت کی وجہ سے چین کا سخت رد عمل بھی ایک عنصر ہے۔ اس کے علاوہ اس اجلاس میں ترکی کو بھی شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔ یہ عناصر مجموعی طور پر پاکستان کی طرف سے دعوت کو مسترد کرنے کا باعث بنے ہیں۔
♥