عملی دو گرفتگی اور نظریاتی بہانے

37777_102498993140969_2268144_nخالد محمود

میجر اسحاق کے ڈرامہ ’’مصلّی‘‘ میں ہمارے ایوب تھانیدار صاحب نے مصلّی کا رول ادا کیا تھا۔ اور وہ اسی نسبت سے خود کو ایوب مصلّی لکھتے تھے۔بڑھاپے میں انہیں ذیابیطس کی پیچیدگیوں نے نروس بریک ڈاؤن تک پہنچا دیا۔لہذالاہور کے ایک ماہر پروفیسر معالج کی فیس ادا کر کے معائنے کا وقت لیا گیا۔ایوب صاحب گوجرانوالہ سے مقررہ وقت سے پہلے ،لاہورپہنچ گئے تاکہ معائنے کا طے شدہ وقت نہ نکل جائے۔وہاں انکے علاوہ اور بھی مریض انتظار کی کھونٹی پر لٹک رہے تھے۔ملاقات کا وقت نکل چکا تھا مگر پروفیسر ڈاکٹر صاحب نہیں پہنچے تھے ۔

دوگھنٹے کے انتظار کے بعدبالآخر ڈاکٹر صاحب آ تو گئے مگر مریض دیکھنے کی بجائے اپنے چیمبر میں ایک مہمان سے گپ شپ لگانے لگے۔بار بار پیشاب کی حاجت کے لئے اٹھنا ایک الگ عذاب تھا۔جب ایک گھنٹہ اور گزر گیا تو ایوب صاحب پھٹ پڑے اور بڑی شستہ انگریزی میں پروفیسر کی ماں بہن ایک کردی۔ساتھ میں دوسرے منتظر مریضوں کے صبر کے پیمانے ،چھلکنے کا جلترنگ، بھی شامل ہو گیا۔

پروفیسر صاحب شور سن کر باہر آئے تو ایوب صاحب نے کہا،’’باسٹرڈ! جن گوروں کی نقل کرتے ہوئے تم نے، پیسے لے کر، معائنے کا وقت دیا ہے اُن سے پیشہ ورانہ دیانت بھی سیکھ آتے تو اتنے مریضوں کی اہانت کے مرتکب نہ ہوتے۔یہ کہہ کر ایوب صاحب گالیاں دیتے باہر نکل آئے۔پروفیسر ڈاکٹر ان کے پیچھے لپکامگر ایوب صاحب نے اس سے چیک اپ کروانے سے انکار دیا۔اور کہا پہلے پیشہ ورانہ دیانت داری سیکھ کے آؤ۔

خوف وہراس اور بے یقینی کی جاری مستقل کیفیت میں اخبارات کی زینت بننے والی وہ پرانی خبریں بھی ذہن کی سکرین پر نمودار ہوتی ہیں جو، اب، اس ملک کی تاریخ کا حصّہ بن چکی ہیں۔ مملکتِ خدا داد اور آدم ساز کے ایک سابق صدر غلام اسحاق کو جب،ان کی’’اَڑی‘‘ کی وجہ سے چھڑی دکھا کر ایوان صدر سے باہر نکالا گیا تو ایک انٹرویو میں اپنی لاتعداد خدمات کا احسان جتاتے ہوئے ، ایک بے تکمیل خلش کا اظہار بھی کیا کہ وہ افواج پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک اسلامی فوج بنانے جا رہے تھے مگر انہیں قبل از وقت صدارت سے نکالے جانے کی وجہ سے یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔

ذرا اندازہ کیجئے ،کہ ان کے اس بیان سے ،تب کونسی طاقتیں مسرور ہوئی ہونگی؟اور مسلّح افواج میں وہ کونسی اسلامائزیشن باقی تھی جسے جالندھر میں پیدا ہونے والے چھٹے ارائیں صدر، پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے تھے اور بنّوں میں پیدا ہونے والے ساتویں پٹھان اور حادثاتی صدر کے لئے چھوڑ گئے تھے؟انکی پیشہ ورانہ غیر جانبداری کا منہ بولتا ثبوت انکی وہ وہ تقریر ہے جس میں وہ بینظیر کی حکومت کو گھر بھیجنے کے بعد پیپلزپارٹی کو’’ سیکورٹی رسک‘‘ اور غیرمحب وطن پارٹی قرار دیتے ہیں۔

جنگ عظیم دوم میں، ہندوستان کے مسلمان سپاہی یورپ اور افریقہ کے محاذوں پر اتحادی فوجوں کے شانہ بشانہ پیشہ ورانہ دیانت داری اور بہادری سے لڑے تھے۔وہ اپنے اتحادی سپاہیوں سے کسی میدان میں پیچھے نہیں رہے۔کئی جانیں جنگ کی نذر ہوئیں اور کئی زخمی ہو کر وطن لوٹے۔پچاس کی دہائی کے آغاز میں’’ پیشہ ورانہ دیانت داری‘‘ اتنی تیزی سے رُو بہ زوال نہیں تھی۔یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے متحدہ ہندوستان میں انگریز کے زیراثر تربیت پائی تھی۔

بے شمار خرابیوں کے باوجود،وہ زمانہ کثرت پسندی اور صلح کل کا زمانہ تھا۔تب اداروں میں فرض کی ادائیگی مقّدم تھی اور کسی قسم کے نظریاتی بہانے یا نمائش نہیں تھی۔فرض کی ادائیگی میں کوتاہی برتنے والوں کو گھر کی راہ دکھائی جاتی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب دوسری قومیں اپنے اپنے ترقیاتی اور تعلیمی منصوبوں کی داغ بیل ڈال رہی تھیں، اور یہاں نظریاتی صفیں سیدھی ہونا شروع ہو گئی تھیں۔بھلا ہو، قرارداد مقاصد کا، اور ماضی کے خبطِ عظمت سے پیوستہ مفادات کا جس نے حاضر سروس آرمی چیف کو وزارت دفاع کا قلمدان سنبھالنے کی ترغیب دی ۔

پیشہ ورانہ قواعد و ضوابط پر سپہ سالاروں کی صوابدیدہر جگہ ترجیح اوّل بن گئی۔اور پھر اس نے اتنے روحانی اور جسمانی بچے دیے جنہوں نے ریاست کے وجود کو ہی کھانا شروع کر دیا ہے۔ہمارے وہ سپاہی جو یورپی قوموں کی حفاظت کے لئے لڑے تھے انکی موجودہ نسلیں اپنی ہی بقا کیلئے لڑ رہی ہیں۔ایک دہشت گردی کے واقعہ کی دھول ابھی بیٹھتی نہیں تو دوسرا دھماکہ ہو جاتا ہے ۔ہر دھماکے اور جانی نقصان کے بعد،حکومت دہشت گردوں کے خلاف اپنے عزم کا اظہار ہی کرتی رہ جاتی ہے۔

چند دن کے وقفے سے لاہور کا بغداد سا حشرہو جاتا ہے۔ ایسٹر کے موقع پر سفاک حملے میں معصوم شہریوں کی شہادت اور اسلام آباد میں ڈی چوک میں مذہبی انتہاپسندوں کے دھرنے کے بعد بھی لگتا ہے موجودہ حکومت درپیش خطرات کے خلاف سینہ سپر ہونے کی بجائے عملی طور پر اگرمگر اور پس و پیش سے کام لے رہی ہے۔ موجودہ حکومت کے پاس قرارداد مقاصد اور ’’کٹّرسلفی اسلام‘‘ کے حتمی نتائج ہر شہر اور ہر چوک پر بکثرت موجود ہیں ۔

ابھی تک وزارت تعلیم ، انفارمیشن اور الیکٹرانک میڈیا پردہشت گردی کے جوابی بیانیے پر موئثرکام ہونا باقی ہے۔ریاستی امور میں مذہبی اور مسلکی نفوذ پذیری اور چھیڑ چھاڑ نے انتہائی بھیانک حالات کو جنم دیاہے۔ہماری’’ فکری دوگرفتگی‘‘ اور عملی استعداد کے درمیان گہری خلیج کو دیکھ کرہی امریکی صد ر بارک اوباما نے پیشین گوئی کی ہے کہ افغانستان اور پاکستان کئی دہائیوں تک دہشت گردی سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔

3 Comments