نور ڈاھری
اسلامی ریپبلک آف پاکستان کے قیام کے نو ماہ بعد دنیاکے نقشے پر ایک اور ملک ظاہر ہوا ۔یہ ملک دنیا کی واحد یہودی ریاست اسرائیل تھا۔ دونوں ملک مذہب کی بنیاد پر وجود میں آئے۔ دونوں ملکوں کے عوام نے اپنے ملک کے قیام کے لیے لاکھوں جانوں کی قربانی دی ۔دونوں ریاستیں کے جنم کے وقت خون کی ندیاں بہیں۔ پاکستان کے قیام کے وقت فسادات میں لاکھوں لوگ مارے گئے جبکہ اسرائیل کے قیام سے پہلے یورپ میں لاکھوں یہودیوں کا قتل عام ہوا۔
سنہ1947 میں برطانیہ نے ہندوستان پر سے اپنا کنٹرول ختم کر دیا اور دو علیحدہ ریاستیں وجود میں آئیں۔ ہندومسلم اختلافات کی وجہ سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے مطابق اس تقسیم کے نتیجے میں 14 ملین افراد بے گھر ہوئے۔ ہندو اور سکھ ہندوستان گئے اور مسلمان پاکستان آئے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک ملین افراد اس تقسیم کے نتیجے میں ہونے والے فسادات میں مارے گئے۔
سنہ 1920 میں لیگ آف نیشنز نے برطانیہ کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ ٹرانس جارڈن اور فلسطین کو کنٹرول کرے جس کے نتیجے میں بعد میں اسرائیل نے جنم لیا۔ برطانیہ نے 1946 میں فلسطین اور ٹرانس جارڈن کی جغرافیائی تقسیم کی۔ 1948 میں فلسطین کو مزید تقسیم کرکے فلسطین اور اسرائیل کو آزادریاست میں تقسیم کر دیا۔ اسرائیل میں یہودیوں کی بڑی تعداد یورپ سے دربدر ہونے والے یہودیوں کی تھی بعد میں مزید 8 لاکھ یہودیوں نے نقل مکانی کی جنہیں مختلف عرب ملکوں سے زبردستی بے دخل کیا گیا تھا۔
جنرل ضیاء الحق نے 1981 میں ایک دفعہ کہا تھا کہ پاکستان اسرائیل کی طرح ایک نظریاتی ریاست ہے۔ اگر اسرائیل سے یہودیت نکال دی جائے تو وہ ریاست تاش کے پتوں کی طرح دھڑام سے گرجائے گئی اس طرح اگر پاکستان سے اسلام نکال دیا جائے اور اسے سیکولر بنایا تو یہ بھی ختم ہو جائے گا۔جنرل ضیا پاکستان کو اسلامی ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے کئی اقدامات اٹھارہے تھے۔
دونوں ملکو ں میں قدر مشترک مذہبی آئیڈیالوجی ہے، دونوں ملکوں کے عوام میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر مذہب رچا بسا ہوا ہے۔ دونوں ملک ایٹمی طاقت ہیں لیکن دونوں نے کبھی ایک دوسرے کو تباہ کرنے کی دھمکیاں نہیں دیں۔عزرائیل برنیٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان پہلی مسلمان ایٹمی قوت ہے جس نے کبھی اسرائیل کو تباہ کرنے کی دھمکی نہیں دی یا وہاں دہشت گردی کے لیے کسی کی حمایت کی ہو۔ اس بات کی اطلاعات ہیں کہ پاکستان نے اسرائیل کی مدد طلب کی کہ وہ واشنگٹن پر اپنا اثرو رسوخ استعمال کرے اور ہندوستان پر دباؤ ڈالے کہ اس خطے کو ہتھیاروں سے پاک کیا جائے اور دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ ختم کی جائے۔ پاکستان نے اسرائیل کو یقین دہائی کرائی کہ وہ عرب اسرائیل جھگڑے میں کوئی دخل اندازی نہیں کرے گا۔
پاکستان نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا لیکن بہت سے مواقع پر ایسے اقدامات اٹھائے گئے کہ دونوں ملکوں کو قریب لایا جاسکے۔تاہم ابھی تک دونوں ممالک کے درمیان سفارتی سطح کے تعلقات بھی قائم نہ ہو سکے ہیں۔ اسرائیل کے قیام کے بعد پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریان نے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کو ٹیلی گرام بھیجا کہ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کیے جائیں لیکن جناح نے اس خدشے کے پیش نظر کوئی خاص جواب نہ دیا کہ کہیں عرب ممالک ناراض نہ ہوجائیں۔
سنہ 1953میں امریکی سفارت کاروں نے پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان اور امریکہ میں اسرائیل کے سفیر عباعبن کے درمیان ملاقات کروائی۔ سرظفر اللہ نے عباعبن کو کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کوئی زیادہ روشن تو نہیں لیکن انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’ پاکستانی حکومت کی اسرائیل کے ساتھ کوئی عداوت نہیں اور وہ سمجھتی ہے کہ مشرق وسطیٰ ایک ایسا عنصر ہے جس پر غور کرنا چاہیے‘‘ ۔ انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں کے ماہرین، طالب علموں اور اساتذہ کے تبادلے پر بھی آمادگی ظاہر کی۔
اسرائیل ہمیشہ سے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں رہا ہے لیکنصورت حال اس وقت خراب ہوئی جب پاکستان نے عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی نہ صرف حمایت کی بلکہ ان کی مدد کے لیے فوجی جوان بھی بھیجے۔
1948 کی اسرائیل کی جنگ آزادی میں واشنگٹن میں موجود اسرائیلی سفارت خانے کو یہ اطلاع ملی کہ پاکستان اسرائیل کے ہمسایہ عرب ممالک کو فوجی امداد مہیا کر رہا ہے اور یہ افواہیں بھی گردش کرتی رہیں کہ پاکستان کی ایک بٹالین فلسطینیوں کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے فلسطین بھیجی جارہی ہے۔ پاکستان نے چیکوسلاوکیہ سے ڈھائی لاکھ رائفلز خرید یں جو کہ عربوں کو لڑنے کے لیے دی جائیں گی اور یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان نے اٹلی کے تین لڑاکا جہاز مصر کو دینے کے لیے خریدے ہیں۔مزید یہ کہ پاکستان ائیر فورس نے 1967 کی چھ روزہ جنگ اور 1973 میں یوم کپور جنگ میں پاکستانی پائلٹوں نے اردن اور شام کے طیارے اڑائے اور اسرائیلی ائیر فورس کے ساتھ مقابلے میں ان کے تین جہاز گرائے۔ پاکستان ائیر فورس کے سابق پائلٹ سیف الاعظم کا کہنا ہے کہ انہوں نے چھ روزہ جنگ میں چار اسرائیلی جنگی طیارے گرائے۔
ستر کی دہائی کے آخر میں جنر ل ضیاء واحد حکمران تھے جو اسرائیل سے قریبی تعلقات رکھنے کے خواہش مند تھے اور انہوں نے مختلف حوالوں سے اسرائیلی انٹیلی جنس کے ساتھ خفیہ روابط قائم کیے۔ 1970 میں جنرل ضیاء نے اردن کی سول وار میں بطور بریگیڈئر ایک آپریشن کی قیادت کی تھی جسے بلیک ستمبر کہا جاتا ہے۔ اس جنگ میں ضیاء کا کردار کافی متنازعہ تھا۔ وہ سیکنڈ بریگیڈ کی کمانڈ رکر رہے تھے جس نے بلیک ستمبر میں اہم کردار ادا کیاتھا۔یہ جنگ بنیادی طور پر اردن میں فلسطینیوں کے دو دھڑوں کے درمیان لڑی گئی تھی ایک دھڑے کو یاسرعرفات کی حمایت حاصل تھی اور دوسرے دھڑے کو اردن کے بادشاہ شاہ حسین کی حمایت حاصل تھی۔
آپریشن بلیک ستمبر بنیاد ی طور ان فلسطینیوں کے خلاف تھا جویاسرعرفات کی حمایت کر رہے تھے۔کہا جاتا ہے کہ یاسر عرفات کے دھڑے سے تعلق رکھنے والے کوئی پانچ سے سات ہزار فلسطینیوں کو قتل کیا گیا تھا جبکہ یاسر عرفات کا دعویٰ تھا کہ مرنے والوں کی تعداد پچیس ہزار سے زیادہ تھی۔کامیاب آپریشن کے بعد بریگیڈئیر ضیاء کو ان کی شاندار خدمات کے عوض ارد ن کا سب سے بڑا اعزاز دیا گیا۔ اسرائیلی جنرل موشے دایان نے شاہ حسین کے متعلق کہا تھا کہ ’’ اسرائیلی فوجیوں نے پچھلے 20 سالوں میں اتنے فلسطینیوں کو نہیں مارا جتنے شاہ حسین نے گیارہ دنوں میں قتل کیے ہیں‘‘ ۔
بریگیڈئر ضیاپاکستان آئے تو انہیں ترقی دے کر کھاریاں کا کورکمانڈر لگا دیا گیا۔ پاکستان کے اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو نے اس آپریشن کو معمول کی کاروائی قرار دیا حالانکہ اس وقت ان کے یاسر عرفات کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے۔چند سال بعدہی بھٹو نے ضیاء کو ترقی دے کر لیفٹینٹ جنرل بنادیا اور پھر چیف آف آرمی سٹاف۔ چھ سال کے دوران بریگیڈئر سے چیف آف آرمی سٹاف تک جنرل ضیاء نے تیزی سے ترقی کی ۔ بلیک ستمبر کے بعد جنرل ضیاء امریکہ اور اسرائیل کے چہیتے بن چکے تھے۔ اسرائیل نے ان سے بہتر تعلقات رکھنے کی کوشش کی۔ افغان سوویت جنگ میں اسرائیل نے پاکستان آرمی کی افغان مجاہدین کو تربیت دینے اور انہیں ہتھیار فراہم کرنے میں مدد دی۔
چارلی ولسن (امریکہ کا بارہ دفعہ منتخب ڈیمو کریٹ سنیٹر) نے ایک دفعہ جنرل ضیاء کو کہا کہ اسرائیل کے پاس روسی اسلحہ بڑی تعداد میں موجود ہے جو اس نے پی ایل او سے چھینا ہے اور یہ افغان مجاہدین کے لیے بہترین ہو گا۔ اگرمیں (ولسن) سی آئی اے کو آمادہ کر لیتا ہوں کہ یہ اسلحہ افغان مجاہدین کو دے دیا جائے تو آپ کو کوئی مسئلہ تو نہیں ہو گا۔ ضیانے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’’ بکسوں کے اوپر اسرائیل کا نشان ڈیوڈ سٹار نہیں ہونا چاہیے‘‘۔
پاکستان اور اسرائیل کے درمیان انٹیلی جنس تعاون 1981 میں شروع ہو گیا تھا۔جنرل ضیاء کی اجازت سے آئی ایس آئی اوراسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کے درمیان خفیہ معاہدہ طے پایا اور دونوں نے اپنے دفاترواشنگٹن ڈی سی میں رکھے۔ اس معاہدے کے تحت موساد نے افغان مجاہدین کو تربیت دی اور پاکستان آرمی کو ہتھیار سپلائی کیے۔ اسرائیل نے پاکستان کے ساتھ مل کر کئی مشن مکمل کیے ۔ اس جنگ میں پاکستان اور اسرائیل دونوں امریکہ کے اتحادی تھی۔
افغان جنگ میں امریکی سی آئی اے کی طرف سے افغان مجاہدین کو تربیت دینا اور انہیں ہتھیار فراہم کرنے کو آپریشن سائیکلون کا نام دیا گیا ۔ امریکی سی آئی اے ، اسرائیلی موساد اور پاکستانی آئی ایس آئی نے سوویت یونین کے خلاف شانہ بشانہ لڑائی لڑی۔ سوویتیونین ، فلسطینی دہشت گرد تنظیموں کو سب سے زیادہ فوجی امداد دیتا تھا۔ موساد نے پی ایل او سے بھاری تعداد میں اسلحہ چھینا تھا۔ ضیاء نے اسرائیل سے معاہدہ کیا اور پکڑا جانے والا روسی اسلحہ آئی ایس آئی کے ذریعے افغان مجاہدین کو دے دیا جاتا۔اور بالاخر دنیا کی تین بڑی انٹیلی جنس ایجنسیوں سی آئی اے، موساد اور آئی ایس آئی کے مشترکہ تعاون سے روس کو شکست دے دی۔
افغانستان پر روسی حملے کے بعد جنرل ضیائجب امریکی دورے پرگئے توامریکی کانگریس کے رکن چارلی ولسن جو پاکستان کے حامی تھے نے جنرل ضیاء سے کہا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کریں۔یہ تجویز ایک بڑے پرائیویٹ ڈنر میں دی گئی جو جنرل ضیاء کے اعزاز میں ہوسٹن کی 48 سالہ خاتون جون ہیرنگ نے دی تھی۔ جنرل ضیاء اس خاتون میں ذاتی دلچسپی لیتے تھے ۔ہیرنگ کو’’ پاکستان کا اعزازی قونصل جنرل ‘‘کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔
سنہ 1988 میں جنرل ضیاء کی موت کے بعد اسرائیل نے پاکستان کی لیڈر شپ کی جانب ایک بار پھر دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے دونوں ادوار میں اور پھر 2008 کی انتخابی مہم میں ان کا خیال تھا کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کیے جائیں اور ان کا خیال تھا کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے موساد کی خدمات حاصل کریں۔عبرانی زبان میں نکلنے والے روزنامہ ’’ماریو‘‘ نے مزید انکشاف کیا کہ بے نظیر بھٹو نے موساد سے سی آئی اے اور برطانوی سکاٹ لینڈ یارڈ سے کہا تھا کہ وہ جنوری 2008 میں الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں اور ان کی زندگی خطرے میں ہے لہذا وہ ان کی حفاظت کرے۔ بے نظیر بھٹو نے شکایت کی کہ جنرل مشرف اسے مطلوبہ سیکیورٹی فراہم نہیں کر رہا اور اسے ایک آسان ہدف سمجھ کر نشانہ بنانا چاہ رہا ہے۔
1990 کی دہائی میں دونوں ملکوں کے رہنماؤں میں ایک بار پھر بہتر تعلقات کے لیے کوششیں ہوئیں۔ اسرائیل کو ایشیا میں ایک دوست ملک چاہیے تھا جبکہ پاکستان کے معاشی حالات خراب تھے ، امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کوئی گرم جوشی نہ تھی، جس کی وجہ ایٹمی پروگرام تھا۔نوازشریف کے دونوں ادوار (1990-93 اور 1997-99) میں بھی تعلقات کی بحالی کا عمل شروع ہوا۔ پاکستان کے صدر رفیق تارڑاور امریکہ میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے نمائندے جمشید مارکر کی اسرائیلی صدر آئزر وائز مین اور وزیراعظم یازک رابن کے درمیان ملاقاتیں ہوئیں۔
سات مئی 2006کو بے نظیر بھٹو نے نیویارک کے مہنگے ترین ہوٹل میں اسرائیلی کی اہم شخصیت کے اعزاز میں برتھ ڈے پارٹی کا اہتمام کیا۔ جس کا بل بے نظیر بھٹو نے ذاتی طور پر اداکیا۔ واشنگٹن ڈی سی اور ٹیلی ایونیو کے اہم سیاستدانوں نے اس پارٹی میں خاص طور پر شرکت کی۔ پیپلز پارٹی کے کئی رہنماؤں نے اسرائیلی بانڈز میں سرمایہ کاری کی کیونکہ امریکہ میں ان بانڈز پر سرمایہ کاری ٹیکس فری ہے۔2007 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی اہم شخصیت نیویارک اور واشنگٹن گئی وہاں سے ٹیلی ایونیو اسرائیل کا دورہ کیا۔
جنرل مشرف کے دور میں بھی دونوں ملکوں کے درمیان کئی ماہ تک سفارتی اور غیر سفارتی سطح پر گفت و شنید جاری رہی۔ 2005 میں وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری اور اسرائیلی ہم منصب سلون شلوم کے درمیان اسرائیل کی خواہش پر ملاقات ہوئی۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل پاکستان سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔جنرل مشرف پہلے مسلمان پاکستانی رہنما تھے جن کا اسرائیلی اخبار نے لندن میں انٹرویو کیا تھا۔ اور وہ پہلے مسلمان لیڈر تھے جنہوں نے امریکہ میں ورلڈ جیوش کانگریس میں تقریر کی جہاں مشرف نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔
سنہ 1996 میں آٹھ پاکستانی صحافی اسرائیل گئے یہ پاکستانی صحافیوں کا پہلا باقاعدہ دورہ اسرائیل تھا تاہم اس دورے کو خفیہ رکھاگیا اس دورے کے پس پردہ ایک اہم سیاسی شخصیت تھی۔1997 میں ایک اسرائیلی بزنس مین یاکو نمرودی نے پاکستان کا دورہ کیا اور وزیر خارجہ گوہر ایوب خان نے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت، صحت، زراعت ، ٹیکنالوجی، طیاروں کے فاضل پرزہ جات اور مذہبی مقامات کی زیارتوں سے متعلق گفتگو کی۔1998میں وزیر اعظم نواز شریف نے اسرائیلی ہم منصب بنجمن نیتن یاہو کو خصوصی ایلچی کے ذریعے پیغام بھجوایا کہ وہ ایران کو ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم نہیں کر ے گا۔
سنہ 2001 میں پاکستانی حکومت نے آئی ایس آئی کے ذریعے اسرائیل کو اطلاع دی کہ خلیجی ممالک ،ایران اور لبیاایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے کوششیں کر رہے ہیں جن کی پاکستانی سائنس دانوں نے مد د کی تھی۔2003 میں جنرل مشرف نے کابینہ کی میٹنگ میں اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کا مسئلہ اٹھایا تھا۔2005 کو دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ ہوئی اور جنرل مشرف نے کہا کہ جب تک آزاد فلسطینی ریاست قائم نہیں ہوگی پاکستان اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم نہیں کر سکتا۔
آئی ایس آئی کے اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کے ساتھ پیشہ وارنہ تعلقات ہیں اور دونوں باقاعدگی سے معلومات شئیر کرتی ہیں ہیں۔ آئی ایس آئی نے ایک اہم اطلاع موسادکو دی کہ ستمبر اور نومبر2008 کے درمیان بھارت میں اسرائیلی شہریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ وکی لیکس کے مطابق لیفٹینٹ جنرل شجاع پاشا کا موسادکے ساتھ براہ راست تعلق تھا۔ 2010 کی غیر مصدقہ وکی لیکس کے مطابق امریکی سفارت کار نے واشنگٹن کیبل بھیجی کہ شجاع پاشا کا اسرائیل سے براہ راست تعلق ہے اور وہ اسرائیل کو آگاہ کررہا ہے کہ اس کے شہریوں کو انڈیا میں کہاں کہاں خطرات ہو سکتے ہیں ۔ اس کیبل کے جانے سے چند ہفتے قبل اسرائیل کے کاونٹر ٹیرر بیورو نے بھارت جانے والے اپنے شہریوں کو ٹریول ایڈوائزری جاری کی تھی۔
2013 میں برطانیہ کے شعبہ بزنس اور سکلز نے انکشاف کیا کہ 2011 میں اسرائیل پاکستان کو برطانیہ کے راستے فوجی ساز وسامان مہیا کر تارہا ہے جس میں الیکٹرانک وار فئیر سسٹم اور جہازوں کے پرزہ جات شامل ہیں۔ تاہم پاکستان اور اسرائیل ، دونوں نے اس کی تردیدکی۔پاکستان کے اسرائیل سے تعلقات صرف فوجی تعاون تک ہی محدود نہیں بلکہ کھیلوں میں بھی تعاون ہوا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے ٹرینر اور فزیو تھراپسٹ ڈائن کیسل ایک اسرائیلی یہودی تھے جس نے اسرائیلی فوج میں تین سالہ ملازمت پوری کی تھی۔ اس سے پہلے وہ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کے فزیو تھراپسٹ رہ چکے تھے۔2015 میں اسرائیلی سائنسدان نے پاکستان اکیڈمی آف سائنس لاہور کی طرف سے منعقد کی گئی کانفرنس میں شرکت کی تھی۔
مختصراً یہ کہ ہر دور میں پاکستان کی سیاسی و فوجی لیڈرشپ اسرائیلی حکام سے رابطے میں رہی ہے۔ پہلے وزیر خارجہ سرظفر اللہ سے لے کر فوجی ڈکیٹیٹرز ایوب خان، جنرل یحییٰ ، ضیاء الحق اور جنرل مشرف یا سویلین قیادت بے نظیر بھٹو اور نواز شریف سب کا کسی نہ کسی طرح اسرائیل سے رابطہ رہا ہے۔یہ رابطے ززیادہ تر واشنگٹن ، لندن اور اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر نیویارک، تہران، مشرقی وسطیٰ، کاراکاکس، اوٹاوہ، برسلز، روم میں ہوئے اس کے علاوہ براہ راست ٹیلی ایونیو میں بھی پاکستان کے سفارت کار اسرائیلی حکام سے ملتے رہے۔
پاکستان کی طر ف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے میں تین بڑی رکاوٹیں ہیں پہلی یہ کہ مسلمان ممالک خاص کر عرب ممالک کے ساتھ یک جہتی کیونکہ مذہبی آئیڈیالوجی کا پرچار کرنے والا ملک مجبور ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کو اس کے مطابق رکھے دوسرے یہ کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے سے عرب ممالک اس کے خلاف ہو جائیں گے اور تیسرے یہ کہ پاکستان میں انتہا پسند مذہبی قوتیں بہت طاقتور ہیں جو اسرائیل سے کسی بھی تعلق پر ایک بڑے ردعمل کا موجب بن سکتی ہیں۔لیکن پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ پس پردہ تعلقات بدستور موجود ہیں۔ ہاں اگر امریکہ پر جیو ش آرگنائزیشن اور مغربی ممالک زور ڈالیں تو وقت کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
پاکستان اور اسرائیل انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے آپس میں تعاون کر سکتے ہیں جو دونوں ملکوں کے لیے خطرہ ہے۔ اسرائیل نے زرعی شعبے خاص کر صحرائی علاقوں میں زراعت پر ترقی یافتہ ٹیکنالوجی ہے اور پاکستان اسے فائدہ اٹھا کر اپنی زراعت کو بہت بہتر بنا سکتا ہے۔پاکستان اسرائیل کو فروٹ، کاٹن اور قیمتی پتھر ایکسپورٹ کر سکتا ہے اور بدلے میں ہائی ٹیک ملٹری امداد لے سکتا ہے۔
پاکستان کی ریاست بھی ایک حقیقت ہے اور اسرائیل کی ریاست بھی۔اسرائیلی کبھی بھی پاکستان کا دشمن نہیں رہا۔اس نے ہمیشہ پاکستان کے متعلق نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ پاکستان ایک حقیقت ہے۔فلسطین ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اسے سیاسی طریقے سے ہی حل کرنا چاہیے۔پاکستان اور اسرائیل دونوں مل کر ثالث کا رول بھی ادا کر سکتے ہیں۔ پاکستان فلسطینی مسئلے پر اور اسرائیل پاک انڈیا تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے ثالث کا رول بھی ادا کر سکتا ہے۔
دونوں ملکوں کے قریب آنے سے پاکستان کی بین الاقوامی سطح پر بطور دہشت گرد دھندلائی ساکھ بہتر ہو سکتی ہے ۔دونوں ملکوں کودہشت گردی کا سامنا ہے اور دونوں ملک اس سے بہتر طریقے سے نبٹ کر ترقی کی منازل طے کر سکتے ہیں ۔
http://www.academia.edu/15087648/Pakistan_Israel_and_Relations_Behind_the_Veil
3 Comments