نور اکبر گوہر
گلگت بلتستان کی قدرتی خوبصورتی اور منفرد جغرافیہ کی وجہ سے دنیا میں اپنی ایک پہچان ہے تاہم اس جنتِ نظیر خطے کی یہاں جاری استحصال اور عوام پر مسلط ریاستی جبرکی شکل میں ایک نئی پہچان بھی بن رہی ہے۔
یہاں دہشت گردی اور غداری سے مطلق قوانین کا دہشت گردوں سے زیادہ قوم پرستوں اور سماجی وسیاسی کارکنوں پر اطلاق ہورہا ہے۔ نوآبادیاتی نقشہ پیش کرنے والے ہمالہ، ہندوکش اور قراقرم کے پہاڑی سلسلوں میں واقع ان علاقوں میں سماجی انصاف اور بنیادی حقوق کے لئے اُٹھنے والی ہر آواز کو ریاست مخالف قرار دے کر کچلا جارہا ہے۔
آج کل پاک چین اقتصادی راہداری کے خلاف سازش کے نام پر تسلسل سے رچایا جانے والا شوشہ بھی اسی سازشی تھیوری کو مضبوط اور صحیح ثابت کرنے کی ایک نئی کوشش ہے۔گلگت بلتستان کے وزیر تعمیرات ڈاکٹر اقبال احمد کا دیا ہوا حالیہ بیان جس میں انہوں نے کہا تھا کہ شاہراہ قراقرم پر احتجاج کرنے والوں پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ دائر کیا جائے گا دراصل آنے والے وقتوں میں حقوق کی بدترین پامالی اور بڑھتے ہوئے ریاستی جبر کی طرف ایک اشارہ ہے۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ مختلف مقدمات کے تحت گرفتار کئے جانے والے قومی،عوامی اور ترقی پسند تحریکوں سےوابستہ کارکنان کے ساتھ بہیمانہ سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح تحریکی کارکنان کو اپنے جائز سیاسی و معاشی حقوق کےلئے آواز بلند کرنے کی پاداش میں لمبے عرصے کےلئےسلاخوں کے پیچھے دھکیلنے کا عمل بھی جاری ہے۔
یہاں کے باسیوں کا قصور یہ ہے کہ وہ پاک چین اقتصادی راہداری میں نظرانداز کرنے، زمینوں پر حکومتی قبضے، جغرافیائی سرحدوں میں تبدیلی اور سیاسی و معاشی محرومی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ان کا گناہ یہ ہے کہ وہ بد ترین لوڈ شیڈنگ، علاقے میں جاری کرپشن، غیرمعیاری ترقیاتی کام کے خلاف اور قدرتی آفات کے نتیجے میں متاثر ہونے والی آبادیوں کی امداد و بحالی کے حق میں صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں۔
گلگت بلتستان مسئلہ کشمیر کا حصہ ہونے کی بناء پر ایک متنازعہ علاقہ ہونے کے ساتھ خطے میں بڑی طاقتوں کے مفاداتی ٹکراؤ کی وجہ سے دنیا کے حساس ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ ایک ایسے خطےمیں حکومت کا مقامی لوگوں کے ساتھ سلوک ذمہ دارانہ اور محتاط ہونا چاہیے۔عوامی حقوق کی لڑائی لڑنے والوں کو جبر سے خاموش کرانے کی بجائے ان کی محرومیوں کا ازالہ کرنا چاہیے۔ لیکن ریاست اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے عہدہ برآء ہونے کی بجائے ظلم و جبر اور روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہی ہے جس کی وجہ سے ریاست کے خلاف لوگوں میں مزاحمت کے جذبات فروغ پا رہے ہیں۔
انقلابی نوجوان رہنما بابا جان، طاہر علی طاہر، کامریڈ افتخار سمیت درجنوں دیگر سیاسی ، قومی اور ترقی پسند کارکنان کو سلاخوں کے پیچھے دھکیلنا جہاں ریاستی جبر کی عکاس ہے وہاں یہ علاقے میں جبر و استبداد کے خلاف پائی جانے والی مزاحمت کی علامت بھی ہے۔
عوامی جدوجہد بزورِطاقت کچلنے سے نہ صرف لوگوں میں بغاوت کے جذبات ابھررہے ہیں بلکہ ہمسایہ ملکوں کو بھی حقوق کی پامالی کے نام پر ہرزہ سرائی اور شورش زدہ علاقوں میں مداخلت کرنےکا موقع مل رہا ہے۔ بھارت کے وزیر اعظم ، بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ اور اب امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے بلوچستان اور گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے دئے گئے بیانات اس کی واضح مثالیں ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ گلگت بلتستان میں ریاست عوام کو صحت، تعلیم ، روزگار ، تفریح اور دیگر سہولیات کی فراہمی میں ناکام ہوچکی ہے۔ بے پناہ قدرتی وسائل کی موجودگی کے باوجود اکثریتی آبادی غربت اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے جبکہ بیوروکریسی، سیاست دان اور ان کے حواری علماء، ٹھیکیدار سمیت سرکاری وظیفہ خور اور مراعات یافتہ طبقات عوام کے وسائل پر شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں۔
ایسی صورِت حال میں عوامی سطح پر نظام کے خلاف مزاحمت تو ہوگی ۔ استحصال کا شکار اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقات آخر کب تک خاموش رہیں گے؟ یہی وجہ ہے کہ جب لوگوں کی محرومی کے خلاف آواز بلند ہوتی ہے تو ا ُسے عوامی حمایت بھی حاصل ہوجاتی ہے۔
حکومتی سطح پر ہونا تو یہ چاہیے کہ عوام کی پسماندہی کو دور کرنے اور ان کی مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دی جائے۔ لیکن جو کچھ ہوتا ہے وہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ مسائل کو حل کرنے کی بجائے حق کے لئے بلند کی جانے والی ہرآواز کو دبایا جاتا ہے۔
قومی و ترقی پسند تحریکوں اور ان کے کارکنان کو بزورِ طاقت خاموش کرانے کی بجائے ریاست عوامی مسائل کے حل پر توجہ دیتی تو صورت حال قدرے بہتر ہوتی۔ اس سے لوگوں میں نہ ریاست مخالف جذبات فروغ پاتے اور نہ ہی دیگر ممالک کو دخل اندازی کا موقع ملتا۔ لیکن ریاست اور حکمرانوں نے شاید تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔
میں اپنے خیالات کو حبیب جالب کے ان اشعار کے ساتھ سمیٹنا چاہونگا جو انہوں نے 1971ء میں اس وقت کے مشرقی پاکستان میں ریاستی جبرکے نتیجے میں ابھرنے والے عوامی وبال کو کچلنے کے لئے کئے گئے فوجی آپریشن کے موقع پر کہے تھے۔
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ لہو سے دھو رہے ہو
گمان تم کورستہ کٹ رہا ہے
یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو