آصف جیلانی
۲۲ مارچ کو لندن میں پارلیمنٹ پر چاقووں سے لیس ۵۲ سالہ نو مسلم خالد مسعود کا حملہ ، پارلیمنٹ پر پہلا حملہ نہیں تھا۔ مجھے بخوبی یاد ہے کہ ۱۷ جون ۱۹۷۴ کو آیرش ریپبلیکن آرمی نے پارلیمنٹ پر بم کا زبردست حملہ کیا تھا جس کے بعد ویسٹ منسٹر ہال میں خوفناک آگ بھڑک اٹھی۔ جانی نقصان زیادہ نہیں ہوا ۔ گیارہ افراد سخت زخمی ہوئے تھے۔لیکن ویسٹ منسٹر ہال کی تاریخی اہمیت اس لحاظ سے بہت زیادہ ہے کہ یہ نو سو بیس سال قدیم، یورپ کا سب سے بڑا ہال ہے جہاں برطانیہ کے فرمانروانو ں کی تاج پوشی ہوتی ہے ۔
سن ستر کے عشرہ میں لندن آئی آر اے کی دھشت گردی کی جس ہولناک لہر میں گھرا ہوا تھا اس کے مقابلہ میں لندن میں موجودہ جہادی حملے ،زیادہ مہلک قرار نہیں دئے جاسکتے ہیں۔ میں گذشتہ بدھ کو پارلیمنٹ کے حملہ کو حق بجانب قرار نہیں دے رہا ہوں لیکن آج برطانیہ میں مسلم دھشت گردی کا جو واویلا مچا ہوا ہے اس میں بلا شبہ مبالغہ آمیزی کا عنصر نمایاں ہے۔ 9/11کے بعد پچھلے سولہ برسوں میں برطانیہ میں صرف ۳ جہادی حملے ہوئے ہیں، جن میں ۵۷ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں 1974سے 1999تک جب کہ آئی آر اے کے ساتھ حکومت میں شراکت کا سمجھوتہ طے پایا ، صرف لندن میں آئی آر اے نے ایک سو اٹھائیس حملے کیے تھے۔جن میں پارلیمنٹ پر بم کے حملہ کے علاوہ ایک میزائل کا حملہ تھاجس کا نشانہ دس ڈاوننگ اسٹریٹ تھا لیکن نشانہ خطا ہوا اور میزائل وزیر اعظم کی سرکاری قیام گاہ کے عقب میں لان پر گراتھا۔
لندن اورانگلستان میں آئی آر اے کے حملوں میں 125افراد ہلاک ہوئے ۔شمالی آیرلینڈ میں آئی آر کے حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۳ ہزار سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔1974میں برمنگھم کے ایک شراب خانہ پر بم کے حملہ میں اکیئس افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ برائیٹن ،میں 1984میں آئی آر اے نے ٹوری پارٹی کی کانفرنس کے دوران وزیر اعظم ماگریٹ تھیچر کو ہلاک کرنے کے لئے بم کا دھماکہ کیا تھا ، جس میں پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
آئی آر اے کے ان حملوں کے دوران کسی نے انہیں رومن کیتھولک یا عیسائی دھشت گردی کا نام نہیں دیا تھا۔ آخر کار ان حملوں اور اس بڑی تعداد میں ہلاکتوں کے سامنے برطانوی حکومت نے گھٹنے ٹیک دئے اور شمالی آیر لینڈ میں سیاسی محرومی کے شکار رومن کیتھولک فرقہ کے عوام کو اقتدار میں شراکت کا سمجھوتہ طے کرنا پڑا جس کے بعد آئی آر اے کی دھشت گردی پر قابو پایا جا سکا۔
اس کے برعکس لندن میں جولائی 2005میں زیر زمین ریلوے کے نظام پر جو حملہ ہوا تھا جس کا الزام لیڈز کے تین مسلم نوجوانوں پر الزام لگایا گیا تھا ، جس میں یہ تینوں ہلاک ہوگئے تھے، برطانوی حکومت نے بالکل مختلف حکمت عملی اختیار کی۔اس مسئلہ سے نبٹنے کے لئے ایک کے بعد ایک اور ، سخت سے سخت تر چار قوانین منظور کئے گئے ۔ برطانوی حکومت نے مسلم نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کے اسباب دریافت کرنے کی قطعی کوشش نہیں کی ۔ انسداد دھشت گردی کے قوانین کے ساتھ2003 میں پریونٹ کے نام سے ایک عجیب و غریب حکمت عملی اختیار کی گئی ۔
بنیادی مقصد اس حکمت عملی کا یہ تھا کہ اسکولوں اور کالجوں میں طلباء پر جاسوسی کی جائے اور ان پر کڑی نگاہ رکھی جائے کہ ان میں شدت پسندی کے رجحانات تو نہیں پائے جاتے ۔ اس مقصد کے لئے اسکولوں اور کالجوں کے منٹظمین کو ہدایت کی گئی کہ انہیں جیسے ہی کسی بچے میں شدت پسندی کا شبہ ہو وہ اس کی اصلاح کے لئے پولیس یا مقامی حکام کو اطلاع دیں۔ بچوں پر جاسوسی کا عالم یہ رہا کہ 2015میں پری ونٹ کے تحت 3955بچوں کو شدت پسندی کی اصلاح کے لئے حکام کے حوالہ کیا گیا ، جن میں زیادہ تر ۹ سال یا اس سے کم عمر کے بچے تھے۔ اس سے ایک سال پہلے پریونٹ کے تحت 1681بچوں کو حکام کے حوالہ کیا گیا تھا۔ ویسٹ مڈ لینڈز میں گذشتہ سال 788 طلباء کو شدت پسندی کے شبہ میں حکام کے حوالے کیا گیا تھا جن میں سے 68 بچے ۹ سال یا اسے کم عمر کے تھے ۔ 183بچے دس سے چودہ سال کے عمر کے تھے اور 233طالب علم پندرہ سے انیس سال کی عمر کے تھے ۔
گذشتہ سال مارچ میں روزنامہ گارڈین نے انکشاف کیا تھا کہ کس طرح لندن کے مضافاتی شہر لوٹن میں نرسری اسکول کی ایک ٹیچر نے ایک چار سالہ بچے کی’’شدت پسندی‘‘ کی پولیس کو اطلاع دی کہ اس نے ایک ایسی تصویر بنائی ہے جس کے بارے میں ٹیچر کا خیال تھا کہ اس میں بچہ نے اپنے والد کو کار بم تیار کرتے دکھایا ہے۔ درحقیقت ، اس تصویر میں بچہ نے اپنے والد کو چاقو سے کھیرا کاٹتے دکھایا تھا۔ ٹیچر یہ سمجھی کہ اس بچے کا والد بارودی مواد تیار کر رہا ہے۔
ایک امریکی این جی او’’ اوپن سوسائیٹی جسٹس انیشیٹو ‘‘نے پریونٹ کے بارے میں اپنے تازہ جائزہ میں کہا ہے کہ یہ حکمت عملی یکسر ناکام ہو چکی ہے جس کی وجہ سے مسلم نوجوانوں کے حقوق کی پامالی ہورہی ہے ۔ اس این جی او نے اس پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے کہ پرایمری اسکولوں کے بچوں سے ان کے والدین کی مرضی کے بغیر معلومات جمع کی جاتی ہیں۔ ایک ۱۷ سالہ طالب علم کو محض اس بناء پر پولس کے حوالہ کیا گیا کہ اس کے کالج کے حکام کا کہناتھا کہ یہ مذہب کی طرف راغب ہوگیا ہے ۔ امریکی این جی او نے پریونٹ کی حکمت عملی کا جایزہ لینے کے لئے کمیشن کے قیام پر زور دیا ہے۔
برطانیہ کے مسلم رہنماوں اور دانشوروں کو سب سے بڑی شکایت یہ ہے ، جس کا وہ مصلحتا کھلم کھلا اظہار نہیں کرتے کہ برطانیہ میں مسلم نوجوانوں میں شدت پسندی کے بنیادی اسباب پر غور نہیں کیا جاتا بلکہ انہیں کبھی طالبان، کبھی القاعدہ اور عام طور پر داعش کی دھشت گردی کے خلاف جذبات کی چادر میں چھپا دیا جاتا ہے۔ بارہ سال قبل لندن میں ٹرانسپورٹ کے نظام پر مسلم نوجوانوں کے حملے کے بعد ایک لمحہ کے لئے بھی غور نہیں کیا گیا کہ اس حملے کے عوامل کیا ہیں ۔ ان حملہ آوروں میں سے ایک تنویر شہزاد نے حملہ سے پہلے ایک ویڈیو میں کہا تھا کہ برطانیہ کے غیر مسلم ، ایسے حملوں کے مستحق ہیں کیونکہ انہوں نے ایسی حکومت منتخب کی ہے جو فلسطین ، افغانستان، عراق اور چچینیا میں ہماری ماووں بہنوں م، بھائیوں اور بچوں پر ظلم کر رہی ہے۔ تنویر نے کہا تھا کہ’’ یہ حملے اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک افغانستان اور عراق سے برطانیہ کی فوجیں نہیں نکل جاتیں‘‘۔
بارہ سال قبل کسی نے تنویر شہزاد کے اس بیانیہ پر سنجیدگی سے غور کیا۔ نتیجہ یہ کہ برطانیہ کے مسلم نوجوانوں میں یہ ناراضگی جڑ پکڑتی گئی۔ ایک بنیادی وجہ مسلم نوجوانوں میں اس ناراضگی کی برطانیہ کی خارجہ پالیسی ہے ، جسے نہ صرف مسلم نوجوانوں میں بلکہ ان کے بڑھوں میں بھی ، مسلم ممالک کے خلاف تصور کیا جاتا ہے۔ گذشتہ سولہ سال کے اندر اندر چار مسلم ممالک ، افغانستان، عراق ، لیبیا اور شام کے خلاف جنگ اور وہاں حکومتوں کی تبدیلی کے لئے دوسری مغربی قوتوں کے ساتھ مل کر برطانیہ کی فوجی مداخلت نے مسلم نوجوانوں میں برطانیہ کی خارجہ پالیسی پر شکوک و شبہات کو تقویت دی ہے۔
اسرائیل کے بارے میں برطانیہ کی وارفتگی اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے ظلم و ستم پر خاموشی کو یہ مجرمانہ عمل قرار دیتے ہیں ۔وہ اس بات کو نہیں بھولے کہ غزہ کے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی جنگ کے دوران برطانیہ کے مسلمانوں کے احتجاج کے باوجود برطانیہ متواتر اسرایل کو اسلحہ فراہم کرتا رہا ۔ برطانیہ کی خارجہ پالیسی پر مسلم نوجوانوں کی ناراضگی اس بناء پر اور شدید ہے کہ یہ اس پالیسی کو جمہوری طور پر تبدیل کرنے کے سلسلہ میں اپنے آپ کو بے بس اور بے کس سمجھتے ہیں ۔
مسلم نوجوانوں میں شدت پسندی کی ایک اور بڑی وجہ، معاشی میدان میں ان کا بڑھتا ہوا احساس محرومی ہے۔ان کو اس بات کا شدید احساس ہے کہ ان کے روزگار کے مواقعے بڑی تیزی سے کم ہوتے جارہے ہیں۔ مسلمانوں میں اس وقت بے روزگاری کا سنگین بحران ہے۔ اس وقت مسلمانوں میں بے روزگاری ساڑھے بارہ فی صد ہے جب کہ برطانیہ کی آبادی میں بے روزگاری کی شرح ، ساڑھے پانچ فی صد ہے۔ پچھلے دنوں دارالعوام کی کمیٹی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دوسرے اہل مذاہب کے مقابلہ میں مسلمانوں میں بے روزگاری تشویش ناک حد تک بہت زیادہ ہے۔ مسلم خواتین کی صورت حال بہت ابتر ہے۔ مسلم بے روزگاروں میں خواتین کی تعداد 65 فی صد ہے۔
بے روزگاری کے مسئلہ کے علاوہ مسلم نوجوانوں میں شدت پسندی میں اضافہ کی ایک وجہ ، بیگانگی کا احساس ہے، اس صورت حال میں مسلمانوں کے خلاف میڈیا اور عام طور پر عوام کے اظہار نفرت کی وجہ سے یہ احساس خوف میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔ یہ عجیب و غریب حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی نئی نسل جو برطانیہ میں پیدا ہوئی ہے اور یہاں پروان چڑھی ہے وہ اپنے والدین کے مقابلہ میں جو سن ساٹھ، سن ستر اور سن اسی کے عشرہ میں برطانیہ آئے تھے کہیں زیاد ہ اجبنی اور بے گانہ محسوس کرتی ہے ۔ وہ اس بات کے شاکی ہیں کہ اس ملک میں پیدا ہونے کے باوجود ان سے ان کے انگریز پوچھتے ہیں کہ وہ کہاں سے آئے ہیں۔
بیشتر مسلم نوجوانوں کا اس بات پر خون جلتا ہے کہ جب وہ شام میں مصائب میں مبتلا مسلمانوں کی امداد اور خدمت کے لئے وہاں جانا چاہتے ہیں تو ان پر شک کیا جاتا ہے کہ وہ داعش میں شرکت کے لئے جارہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ صحیح ہے کہ برطانیہ سے چھ سو نوجوان داعش میں شامل ہونے کے لئے شام گئے ہیں لیکن سب مسلمانوں پر شک و شبہ ان کے سمجھ میں نہیں آتا اور اسے وہ برطانوی مسلمانوں پر بے حد نا پسندیدہ عدم اعتماد تصور کرتے ہیں۔
♦
2 Comments