مولانا مجاہد الحسینی
سید سبط حسن بھی شادمان لاہور کی سنٹرل جیل میں سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار دیوانی احاطے میں آگئے تھے۔
وہاں استادی، شاگردی کے ادب و آداب کے تحت اربابِ جیل نے خصوصاً ہمارے لئے چار پائیوں کا انتظام کر دیا تھا، چونکہ رات کے مرحلے میں کسی نئے قیدی کے لئے چار پائی کا فوراً انتظام مشکل تھا، سید سبط حسن ہم زندانیوں میں سے کسی سے بھی متعارف نہیں تھے، مَیں نے ان کی کتاب ”موسیٰ سے مارکس تک“ کا مطالعہ کیا تھا، نیز روزنامہ امروز میں ان کے مضامین شریک اشاعت ہوتے رہتے تھے، اس لئے مَیں نے خندہ پیشانی کے ساتھہ ان کا خیر مقدم کیا، اپنا تعارف کرایا تو انہوں نے میری بابت احمد ندیم قاسمی اور حمید ہاشمی (نواسہ مولانا احمد سعید دہلوی) مدیرانِ امروز سے جو چند اچھے کلمات سنے ہوں گے، ان کے حوالے سے کہا کہ آپ سے غائبانہ تو متعارف تھا، آج ملاقات سے مسرت ہوئی اور وہ بھی جیل خانے میں۔
اس پر مَیں نے کہا:”دُنیا میں جیل ٹھکانہ ہے آزاد منش انسانوں کا“…. مصرعہ سنتے ہی متانت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا: خوب، اچھا ذوق ہے، پھر مَیں نے حضرت امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ اور دوسرے بزرگوں سے ان کا تعارف کرایا، تو انہوں نے بھی دعائیہ کلمات کے ساتھ سبط حسن صاحب کا خیر مقدم کیا، اس وقت جیل کے اس مسافر خانے میں جو کچھ میسر تھا، پیش کیا، چائے نوشی کے دوران مَیں نے فتح دین نامی مشقتی سے سرگوشی کی صورت میں کہا کہ میری چارپائی پر سبط حسن صاحب کا بستر بچھا دو اور میرا بستر گارڈینا کی اوٹ میں زمین پر بچھا دیا جائے، جس کی تعمیل کی گئی۔
بعد ازاں ہم اپنے معمولات و عبادات سے فارغ ہو کر اپنے بستروں کی جانب راغب ہوئے اور سبط حسن صاحب کو ان کی آرام گاہ کی نشان دہی کی گئی تو انہوں نے دیگر حضرات کے ساتھ میری چار پائی مفقود دیکھ کر مشقتی سے دریافت کیا وہ کہاں ہے؟….اس نے گارڈینے کی اوٹ میں، اشارے کے ساتھہ نشان دہی کی تو سبط حسن صاحب نے میرے پاس آتے ہی مستعّجب ہو کر کہا:۔
یہ کیا؟
مَیں نے کہا، میری کمر میں کھچاؤ محسوس ہوتا ہے، زمین پر لیٹنے سے راحت ملے گی۔ بایں ہمہ، سبط حسن صاحب نے مجھے اپنی چار پائی پر آرام کرنے پر اصرار کیا، مگر میرا عذر غالب آگیا اور مَیں نے انہیں بازو سے پکڑ کر چار پائی پر بٹھا دیا، چنانچہ حُسنِ خُلق کا یہی مظاہرہ میرے اور سید سبط حسن کے درمیان گہرے تعلق خاطر کا موجب بن گیا تھا۔ پھر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل امتیاز نقوی کے ساتھ وہ بھی حصول تعلیم قرآن کی سعادت پر آمادہ ہوگئے تھے، چنانچہ انہیں ابتدائی تعلیم عربی کی چھوٹی کتب سے متعارف کرایا گیا، حتیٰ کہ آیات قرآن کے ترجمے اور بعد ازاں عربی گفتگو میں دسترس اور مہارت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اسی دوران مَیں نے ان سے انگریزی زبان کی تعلیم پانے کا آغاز کیا، جس پر ہم دونوں میں استاد، شاگرد کا تعلق استوار ہوگیا تھا، چنانچہ ایک سال ہم نے کیسے گزارے۔ اس سلسلے کی معلومات مَیں نے اپنی کتاب ”آخری جیل کے آخری قیدی“ میں فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔
سنہ1953ءکی تحریک ختم نبوت کے دوران صرف علماءاور مشائخ ہی نہیں، بلکہ زندگی کے ہر شعبے سے متعلق حضرات عقیدۂ ختم نبوت اور ناموس رسالت کے تحفظ کی خاطر مختلف جیل خانوں میں قید تھے۔ خود مسلم لیگ کے اراکین اسمبلی بھی تحریک کے موئدین میں شامل اور پابند جیل کر دئیے گئے تھے۔ سال کے بعد ہماری تو رہائی عمل میں آگئی تھی، لیکن سید سبط حسن چونکہ سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار تھے، وہ ہمارے اسی دیوانی احاطے میں خان عبدالغفار اور فیض احمد فیض کے ساتھ قیدی رہ چکے تھے اور تحریک کے قیدیوں کی آمد پر انہیں منٹگمری جیل میں چند ماہ کے لئے رکھا گیا تھا۔
بعد ازاں جب وہاں بھی تحریک کے قیدیوں کی کثرت ہوگئی تو انہیں پھر لاہور جیل میں منتقل کر دیا گیا۔ اپنی رہائی کے چند روز بعد ہی مَیں نے سبط حسن صاحب کے ساتھہ خط و کتابت کے ذریعے خیر خیریت دریافت کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ نیز کام و دہن کے لئے مَیں نے گھر میں ہی انڈوں اور بیسن وغیرہ سے تیار کردہ بسکٹ نما میٹھی روٹیاں اور چند کتب جیل میں بھجوا دی تھیں، جنہیں وصول کر کے سبط حسن صاحب نے میرے نام جو خطوط لکھے تھے ، اُن کے اقتباسات ملاحظہ فرمائیے۔
لاہور سنٹرل جیل
استاد محترم! سلام شوق، خوشی اور حیرت سے ملے ہوئے جذبات کے ساتھ آپ کا خط پڑھا، یقین جانیں، آپ پہلے دوست ہیں جس نے جیل سے رہا ہونے کے بعد اتنی جلد ہم ”اسیرانِ قفس“ کو یاد کیا ہو اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ جیل میں خط پا کر کتنی خوشی ہوتی ہے۔ بھائی! آپ کے جانے کے بعد ”دیوانی گھر“ کی فضا بالکل سنسان ہوگئی ہے، آپ کے دلچسپ فقرے، آپ کی باتیں، آپ کی ہنسیاں غرض آپ کی ساری ادائیں رہ رہ کر اور بار بار یاد آتی ہیں۔ آپ کے جانے کے بعد تین چار دن تک تو مَیں نے عربی کی کتابیں اٹھا کر بھی نہیں دیکھیں، اب طبیعت پر زور دے کر اور جبر کر کے پڑھائی پھرشروع کی ہے۔ استاد مولانا محمد علی صاحب ہیں جو ان دنوں روزے رکھ رہے ہیں، یہاں کے لیل و نہار بدستور وہی ہیں، البتہ ”تسلیات عامہ“ کا بڑا زور ہے۔ دوستوں کی رہائی کی افواہیں گرم ہیں، سب کی نگاہیں روزنِ در پر لگی رہتی ہیں، اللہ اپنا فضل کرے، (خط کا اقتباس)۔
سبط حسن 24-11-1953۔
اسی طرح ایک دوسرے خط میں لاہور سنٹرل جیل ہی سے لکھا :۔
رفیقی و حبیبی سلامِ شوق، المنجد اور میٹھی روٹیاں ملیں۔ ایک نے دیدۂ عقل کو روشن کیا تو دوسری نے کام و دہن کو لذت بخشی۔ بھائی! آپ کا اور آپ کی پُر خلوص محبتوں کا شکریہ ادا کرنے کے لئے الفاظ کہاں سے لاؤں۔ صبح چار بجے اٹھتا ہوں، چائے کے ساتھ میٹھی روٹیاں خوب مزہ دیتی ہیں، کھاتاہوں اور بھابھی کو دعائیں دیتا ہوں ، پھر عربی پڑھتا ہوں اور المنجد کی ورق گردانی کرتا ہوں۔ میٹھی روٹیوں کے بارے میں شاہ صاحب کا فرمانا ہے کہ ان کے مقابلے میں ”محکم دین لاہور“ کے بسکٹ گوبر کے اُپلے معلوم ہوتے ہیں۔ بہرحال ہم قیدی، مہاجر اور یتیم و اسیر اور سید۔ آپ لوگوں کے جان و مال کو دعا دیتے ہیں، امید ہے آپ یونہی دولت کی زکوٰة نکالتے رہیں گے….(خط کا اقتباس)۔
…. غرض یہ کہ سید سبط حسن کے جو خطوط میرے نام ہیں۔ ان میں لاہور سنٹرل جیل کے علاوہ کیمبل پور جیل اور لاہور شہر سے بھی ہیں۔
مندرجہ بالا خط میں ”تسلّیات عامہ“ کا ذکر ہے، اس جملے کا پس منظر یہ ہے کہ اس تحریک میں دیگر قیدیوں کے ساتھ کئی پہلی مرتبہ آئے تھے، ان میں سے ایک صاحب ایسے تھے جو اپنی بارک سے مجھے ملنے آئے تو بار بار جیل سے رہائی کی بابت حکومتی فیصلے کا تذکرہ کرتے رہے، ہاں ہاں کہہ کر مَیں بھی ان کی تائید کرتا رہا، ان کی واپسی کے بعد سبط صاحب نے دریافت کیا۔ یہ کون صاحب تھے۔
مَیں نے کہا یہ محکمہ تسّلیات عامہ کے ڈائریکٹر ہیں، نیز حکومت نے بھی سی آئی ڈی کے افراد، قیدی کی صورت میں لوگوں کو دلبرداشتہ کرنے کے لئے بھیج رکھے تھے۔ میری بات سن کر سبط حسن صاحب کھل کھلاکر خندہ ز ن ہوگئے، نئی اصطلاح کی خوب داد دی تھی، بہر نوع سبط حسن صاحب نے میرے نام خطوط کے علاوہ امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ کے نام لکھے گئے، خط کا بھی تذکرہ کرتے ہوئے خاص طور سے ان کی صحت و عافیت معلوم کی ہے۔
لاہور جیل سے رہائی کے بعد سید سبط حسن مطبوعات پاکستان ٹائمز و امروز کے نئے ہفت روزہ لیل و نہار کے ایڈیٹر مقرر ہوگئے تھے ..جب حکومت نے ادارے کی تمام مطبوعات جبراً بند کر دیں تو سبط حسن صاحب ایک انشورنس کمپنی کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرنے لگے، ایک نامور ادیب صحافی اور دانشور کے لئے انشورنس کا شعبہ کرب ناک تھا، معاشی تنگ دامانی نے قلب و دماغ پر گہرا اثر چھوڑا کہ صاحبِ قلم، صاحب فراش ہوگیا۔
ان کی ناسازیءطبع کی خبر سن کر مَیں نے حضرت امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ کی خدمت میں اس کا ذکر کیا تو سنتے ہی فرمایا:”جیل کے ساتھی سبط حسن“ کی تیمار داری کے لئے ابھی جانا چاہئے…. شاہ صاحب ان دنوں لاہور کے علاقے بادامی باغ میں حاجی دین محمد کے ہاں مقیم تھے، حاجی صاحب کے فرزند حاجی احمد کی گاڑی میں ہماری روانگی ہوئی۔ شاہ صاحب کے فرزند علامہ سید ابوذر بخاری بھی ہمراہ تھے۔ راستے میں شاہ صاحب نے سبط حسن کی رہائش گاہ کی بابت معلوم کیا تو مَیں نے اُس کے محل و وقوع کی بابت معلومات دیتے ہوئے عرض کیا…. میکلوڈ روڈ پر واقع علامہ اقبال کی سابقہ رہائش گاہ کی گلی میں دفتر روزنامہ ”کوہستان“ کے اوپر واقع کمیونسٹ پارٹی کے دفتر میں سبط حسن رہائش پذیر ہیں۔
یہ سن کر شاہ صاحب نے خاموشی اختیار کی، اتنے میں ہم دفتر کوہستان کے دروازے پر پہنچ گئے تو دفتر کے عملے نے شاہ صاحب کو دیکھتے ہی والہانہ جذبے اور عقیدت و احترام کے ساتھہ شاہ صاحب کا استقبال کیا۔ اپنے دفتر کے کمرے سے نسیم حجازی صاحب ایڈیٹر کوہستان بھی آگئے۔ انہوں نے سمجھا کہ شاہ صاحب دفتر کوہستان دیکھنے آئے ہیں۔ اس لئے ساتھ ہو کر پورے دفتر کا مشاہدہ کرایا۔ آخر میں شاہ صاحب نے میری جانب متوجہ ہو کر اشارتاً سبط حسن کی بابت دریافت کیا۔ مَیں نے اوپری منزل کی جانب اشارہ کیا تو نسیم حجازی صاحب فوراً بول پڑے۔ اوپر تو کمیونسٹ پارٹی کا دفتر ہے….شاہ صاحب! ہاں مجھے معلوم ہے ، مجھے مکان سے نہیں، مکین سے غرض ہے۔ مکین اگر جہنم کے کنارے پر بھی ہوگا، تو مَیں اسے بچانے کی کوشش کروں گا“۔ پھر شاہ صاحب کو سہارا دیتے ہوئے ہم اوپر کی منزل پر لے گئے۔
سید سبط حسن بیماری اور ضعف کے باعث مضمحل سامنے چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ شاہ صاحب کو اچانک اپنے دفتر میں دیکھ کر والہانہ انداز میں اٹھہ کر شاہ صاحب کا مودبانہ خیر مقدم کرتے ہوئے کہا: شاہ صاحب! آپ نے اس بڑھاپے اور ضعف کی حالت میں کیوں زحمت اٹھائی اور میری جانب متوجہ ہو کر کہا، آپ مجھے حکم دیتے ہم شاہ صاحب کی خدمت میں حاضری کی سعادت پاتے۔ آپ حضرات کی تشریف آوری میرے لئے ناقابل فراموش سعادت ہے۔
سبط حسن کی آواز گلوگیر تھی، آنکھیں اشک آلود اور ہونٹوں میں کپکپاہٹ تھی، بعد ازیں چند ماہ بعد اچانک یہ اندوہناک خبر سنی کی سید سبط حسن بھی داغ مفارقت دے کر اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں.خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنےوالے میں۔
بشکریہ: اسلم ملک