انوکھے لاڈلے ۔ عجیب وغریب منطق

حبیب وردگ

ٹوٹی ہوئی کمر کے بیانات کے جمع خرچ کے بعد دہشت گردی کی اک نئی لہر نے 2017 کے شروع کےدو ماہ میں100سے زائد معصوموں کے بے ہیمانہ قتل کو شہادت کا درجہ مل چکا ہے، جس سے بقول طارق جمیل کے گھبرانا نہیں چاہیے کیونکہ اس سے پاکستان اور مضبوط ہوگا۔

شہید سے یاد آیا کہ قلندر توسب کا قلندر تھا اور قلندر کے مزار پہ وہ بھی آتے ہیں جوکبھی شہادت کے درجہ پر نہیں پہنچ سکتے۔ مرنے والوں میں مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے علاوہ کچھ غیر مسلم بھی مارے گئے ہیں کہ نہ جانے وہ کس درجے میں آتے ہونگے۔ علماء اگر رہنمائی کریں کیونکہ یہاں تو پیمانے بہت عجیب و غریب ہیں۔ یہاں تو مسلمانوں کے درمیان ہی ایک دوسرے پہ آئے روز فتوے لگتے رہتے ہیں۔

یہاں پہ خودساختہ جہاد اور جہادی تنظیموں کو اپنا اثاثہ سمجھاجاتا ہے اور اسکو اعلی سطح کے اجلاس میں ریاستی پالیسی قرار دیا جاتا۔ یہاں ایک سیاسی پارٹی کو اپنا جلسہ کرنے کے لیے لمبے چوڑے پروسسز سے گزرنا پڑتا ہیں اورایک کالعدم تنظیم اپنا جلسہ نہ صرف منعقد کرتی ہے بلکہ وزیر داخلہ اس کے لیڈران سے پنجاب ہاوس میں ملاقات بھی کرتے ہیں لیکن جب وزیر موصوف سے پوچھا جاتا ہے تو یک سر منکر ہو کر کہتا ہے کہ جلسے کی اجازت دینا تو اس کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ اور تو اور کہ اس تنظیم نے کوئی اجازت بھی نہیں لی تھی۔

اب ہم اس کو مصلحت سمجھ لیں یا پھر ریاستی پالیسی؟ یہاں ایک پھانسی پانے والے مجرم کی آخری رسومات اوراحتجاج سے دارلحکومت میں ریاستی رٹ نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی اورجب طاقت دکھانی ہوتو اسی دارلحکومت میں پٹھانوں کو گھسنے بھی نہیں دیا جاتا اور ایک صوبے کے منتخب وزیراعلی کے کانوائے پہ آنسو گیس کی شیلنگ اور ڈنڈے برسائے جاتے ہیں۔ اپنے ملک میں دنیا جہاں کے خطرناک دہشت گردموجود ہونے کے باوجود ہمسایوں پہ الزامات لگا کر لسٹ فراہم کیا جاتا ہے جیسے خود دنیا کے مطلوب لوگوں کو حوالے کر چکے ہیں یا پھر ان کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں لائی گئی ہو۔

لاہور دھماکہ میں کسی ایک بھی ذمہ دار نے نہیں کہا کہ اس میں را ملوث ہے سب نے جماعت الاحرار کا نام لیا اور افغان سفارتخانے کے اہلکارکو بلا کر اس سے احتجاج کیا گیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کا ازلی دشمن (جماعت اسلامی، پاکستان دفاعی کونسل اور وغیرہ وغیرہ کے مطابق) تو ہندوستان ہے۔ اور پنجاب خاص کر لاہور کے ساتھ سرحد بھی ہندوستان کا لگتا ہے۔ اور بقول ہندوستان کے ان کے سارے مطلوب لوگ بھی پنجاب میں ہیں لیکن لاہور میں واقعہ کے بعد افغانستان کے سفارتخانے سے احتجاج کیا جاتا ہے۔

کوئٹہ یا پشاور میں دھماکہ ہوتا ہے تو آرمی چیف سے لیکر صوبے کے وزیراعلیٰ تک سب کے سب بس ایک ہی راگ الاپ رہے ہوتے ہیں کہ اس میں را ملوث ہے تو پھر لاہور میں را کیوں نہیں؟ یہ عجیب منطق ہے کہ را پر پنجاب میں حملے میں ملوث ہونے کا الزام نہیں لگایا جاتا یا پھر دانستہ طور پر باقی صوبوں میں ہندوستان کا نام لے کر کچھ اور ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ پنجاب کی حیثیت اور اہمیت تو سب پر واضح ہے اسی لیے توپنجاب کا باقی صوبوں سے ہر چیز پر عجیب وغریب منطق رہا ہے۔

بھٹو کی پھانسی سے لےکرسی پیک تک ہر معاملے میں پنجاب انوکھا لاڈلا ہی رہا۔ پشتونوں کوچاہیے کہ ہندوستان کو گریبان سے پکڑ کر یا پھر ہاتھ جوڑ کر دشمنی کی وجہ دریافت کرنی چاہیےکہ کیوں ہندوستان ہزاروں کیلومیٹر دور پشتونوں کا خون بہانے آجاتا ہے آخر پشتونوں نے انکا بگاڑا کیا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے پنجاب کے وزیراعلیٰ نے طالبان سے پنجاب میں حملے نہ کرنے کی درخواست کی تھی۔

اینٹی ٹیرریزم ایکٹ کی دفعہ (۱۱بی) کے مطابق وفاقی حکومت کو دہشت گرد تنظیم کے خلاف پابندی عائد کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ صوبوں کو وفاقی حکومت پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ آٹھ اگست، 2016 کے دہشت گرد حملے کےبعدحکومت بلوچستان نے وفاقی حکومت کے وزارت داخلہ کو خط لکھا جس میں دعویٰ کیا گیا جماعت الاحرار آٹھ اگست، کے حملے کے علاوہ اور بھی کئی واقعات اور حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے لہٰذا جماعت الاحرار پر پابندی عائد کرنے کی سفارش کی گئی۔

ایک اور خط بھی 16 اگست، 2016 کووفاقی حکومت کے وزارت داخلہ کو لکھا جس میں لشکر جھنگوی العالمی کے خلاف مختلف حملوں کا حوالہ دے کرلشکر جھنگوی العالمی کے خلاف بھی پابندی عائد کرنے کی سفارش کی گئی۔ وزارت داخلہ نے بلوچستان کی حکومت کے دونوں خط کا نہ تو جواب دیا اور نہ ہی ان تنظیموں پر پابندی عائد کی(کوئٹہ انکوائری کمیشن رپورٹ) ۔

جبکہ برطانیہ نے اس دہشت گرد تنظیم پہ 2015 میں پاکستان میں حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے پر پابندی لگائی تھی لیکن پاکستان میں صوبائی حکومت کی سفارش کے باوجود نہ تو پابندی عائد کی گئی اور نہ ہی کوئی تسلی بخش جواب دیا گیا اورعین انکوائری کے دن وقفہ کے دوران سیکریٹری داخلہ کو یہ پتہ چلتا ہے کہ معاملہ پر وزیر داخلہ چوہدری نثار کے احکامات کا انتظار ہیں۔ جس پر عدالت نے یہ دریافت کیا کہ کیا ہی کہنا درست ہو گا کہ وزیر موصوف نہیں چاہتے کہ ان تنظیموں پہ پابندی عائد کی جائے؟ 

ہمارا ملک دنیا کا ایک انوکھا ملک ہے جہاں پہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور فوجی چھاؤنیاں اپنی حفاظت کے پیش نظر بڑی بڑی دیواریں اور رکاوٹیں کھڑی کر کے عوام کا جینا دوبھر کرتی ہیں۔ اپنے رہنے کے لیے کمپاؤنڈز اور باہر نکل کر بیسیوں گاڑیوں کی کانوائے لیکر پھرتے ہیں اور عوام کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پہ چھوڑا گیا ہیں۔ میجر صاحب اور کرنل صاحب کا خاندان جس گاڑی میں شاپنگ کے لیے نکلے اس کے اوپر تو ایل ایم جی گن لگا ہوتا ہیں اور عوامی مراکز پہ حادثات ہونے پر ایمبولنس وقت پر نہ پہنچنے کو بہانہ بناکر پر سارا ملبہ صوبائی حکومت پہ ڈال دیا جاتا ہے جیسے کسی کو پتہ نہ ہو کہ صوبائی حکومت یا سویلین حکومت کی اوقات کیا ہیں۔

کیا کبھی کسی نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ اربوں روپے سکیورٹی کی مد میں لینے والے ادارے کیا کرتے ہیں۔ یہاں تو ایک ادارے کے سربراہ (سرکاری ملازم) کا شمار دنیا کے طاقتور ترین لوگوں میں ہوتا ہو اور ریٹائرمنٹ پہ تمغوں کے ساتھ اربوں کی جائیدادیں ملتی ہیں اور اسی ملک میں پولیس کے شہید جوانوں کی لاشیں پہنچانے لے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کیا جاتا ہیں۔ یہاں ایک خاص خبر کے لیک ہوجانے پر نہ تو عوام اور نہ ہی ذمہ داران اس خبر کی اہمیت کو سمجھنے اور جانچنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اس بات پہ لگ جاتے ہیں کہ خبر کس نے لیک کی۔ اور بس نہ چلے تو کسی شریف انسان کی بلی چڑھا دیتے ہیں۔

اوراس میں میڈیا کا کردارسونے پہ سہاگہ یہ کہ لوگوں کو گمراہ کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ میڈیا لوگوں میں آگاہی اور حساسیت پیدا کرکے تجزیا کرنے کی صلاحیت بڑانے میں کردار ادا کرتا ہیں لیکن یہاں تو کچھ عجیب ہی ماجرا ہے۔ سب ریٹنگ کے چکر میں اصل صحافت کو بھول گئے اب میں زرد صحافت اور دوسری خرابیوں کا ذکرکروں گا تو یار لوگوں کو بھرا لگ جائے گا کیونکہ میرے دوست پرفیکشنسٹ اور آئیڈیلیسٹک اپروچ کے ساتھ سر ریت میں دبائے بیٹھے ہیں۔ 

کوئٹہ انکوئری کمیشن رپورٹ میں بہت سے ایسے سوالات اٹھائیں ہیں جن کو ہم نظر انداز کرتے ارہے ہیں جو کہ دوسروں پہ انگلی اٹھانے کی بجائے ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کے لیے کافی ہیں۔ اور اگر اس کے بعد بھی ہم ان خطوط پر کام کرنے کی بجائے لکیر پیٹتے رہیں تو پھر تو ہمارا اللہ ہی حافظ ہے۔ اگر ملک کے وزارت داخلہ کو اپنے اختیارات کا پتہ نہیں یا پھر یوں کہہ لیں کہ اختیارات استعمال کرنا نہیں آتا یا پھر اپنی ذمہ داریوں سے روگردانی کی گئی ہیں تو پھر ہمیں دوسروں پر الزامات لگانے کا کوئی جواز نہیں ڈھونڈنا چاہیے۔

پشتو میں مثل ہے کہ ’’خپل کور خوندی کا ہمسایہ غل مہ گنڑا‘‘ یعنی اپنے گھر کو محفوظ کر لو بجائے دوسروں پہ الزامات لگانے کے۔ اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ صرف اندرونی حفاظت اہم ہیں بلکہ اندرونی اور بیرونی خطرات اور خطے میں رہنے والے ملکوں کے ساتھ تعلقات بھی اتنے ہی اہمیت کے عامل ہیں۔

وفاقی وزارت داخلہ اگر کوئٹہ انکوائری رپورٹ پر تنقید اور اپنے تحفظات بیان کرنے کے سیاسی بیانات سے بڑھ کر اس پہ عمل کرتی تو شاید گزشتہ ڈیڑھ ماہ میں ہونے والے حادثات روکنے یا اسکی شدت کم کرنے میں مددگارثابت ہوتا۔ ایک فون کال کے باہر سے ٹریس ہونے کے علاوہ سب کچھ پاکستان میں ہوتا رہا ہے جو کہ ہماری وزارت داخلہ اور ایجنسیوں کے منہ پہ طمانچے سے کم نہیں۔ اوپر سے سوال کرنے والوں کے لیے شیخ رشیداور اوریا مقبول کے جیسے سیاستدان اور جرنلسٹ پال رکھیں ہیں جو منٹ میں فتویٰ جاری کر دیتے ہیں۔ ہم اس ساری صورتحال سے نکلنا ہی نہیں چاہتے ورنہ کوئی تو ذمہ داری نبھاتا یا پھر کم از کم اپنی غلطی ہی تسلیم کرتا۔

2 Comments