میرا دیس

ملک سانول رضا

اونچی دیواروں کے نچلے در سے فرمان جاری ہوا تو باہر کھڑے ہوؤں کے ڈبے اور منہ کُھل گئے بلکہ کِھل بھی گئے۔۔۔

کچھ دنوں کے بعد منہ تو کُھلے ہوئے تھے البتہ ان میں مٹھائی کی بجائے جھاگ تھی

طلحہ صاحب! آپ کی اکیڈمی کے نتائج شاندار ہیں۔ انٹری ٹیسٹ میں آپ کے بچوں نے بہترین کارکردگی دکھائی ہے۔

بس جی مولا پاک کا کرم ہے۔ جب سے حکومت نے انٹری ٹیسٹ شروع کیا ہے

ہم پر تو رب کا خصوصی فضل ہو گیا ہے اب پورے ڈویژن میں ہماری برانچیں ہیں عمارتیں بھی اپنی بنا لی ہیں۔۔

ہم ہر سال ٹاپر لڑکے کو عمرے پر بھی بھیجتے ہیں۔

یہ تو بہت نیکی کا کام ہے اب ایسے لوگوں پر رب اپنی نعمتوں کی بارش کیوں نہ کرے۔

آپ کی تیاری کا کیا طریقہ کار ہے؟

ہم لڑکوں کو اکیڈمی کی باؤنڈری وال سے باہر نہیں جانے دیتے۔

مہینے کے آخری تین دن گھر جانے کی اجازت دیتے ہیں تاکہ فیس بھی لیتے آئیں۔۔اور اسی بہانے گھر والوں سے بھی ملتے آئیں

لیکن اس سال سے ہم داخلے کے وقت ہی پورے سال کی فیس لینے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ پڑھائی کے اوقات کیا ہیں؟

چھے سونے کے اور دو کھانے وغیرہ کے، بقیہ سولہ گھنٹے پڑھائی ہی پڑھائی بلکہ رٹائی ہی رٹائی۔۔۔۔

ایک ایک حرف یاد کرا دیتے ہیں حافظ بنا دیتے ہیں۔

یہ بوڑھا کیوں بیٹھا ہے یہاں؟

بھکاریوں کا آپ کے دفتر میں کیا کام۔۔ کچھ دے کر رخصت کریں ہمارے بچوں پر برا اثر پڑے گا۔

نہیں نہیں یہ بھکاری نہیں ہیں،

یہ تو ڈاکٹر اسامہ کے والد ہیں ڈاکٹر اسامہ؟

ڈاکٹر صاحب ہمارے ملک کے مشہور سرجن ہیں، آپ نہیں جانتے؟

او ہو۔۔۔۔ وہ تو میرے کلاس فیلو ہیں۔

بزرگو

میں نے تو آپ کو پہچانا نہیں۔ م

عاف کیجئے گا مدت ہوئی ان کی شادی پہ آئے تھے اب تو آپ بہت بوڑھے ہو گئے ہیں۔

کیا ہوا آپ اداس لگ رہے ہیں؟

ارے ارے روئیں نا۔۔۔ بابا تیرا کلاس فیلو ہمیں تنہا چھوڑ گیا ہے۔

اس کو پڑھانے کی خاطر بیوی کا زیور بیچا بھائی کی زمین فروخت کی۔۔۔ اب بڑے شہر میں جا بسا ہے۔

افسوس ہوا یہ سن کر لیکن چاچا جی معاف کرنا آپ کی خواہش تھی کہ میرا بیٹا بڑا آدمی بنے بڑا گھر بڑی گاڑی بڑے گھر میں شادی بڑے شہر میں بسیرا بالکل۔۔

سب والدین کی یہی خواہش ہوتی ہے اب یہ سب کچھ تو ہے تیرے بیٹے کے پاس جو سوچا جو خواہش کی پوری ہوئی۔۔۔

اب رونا کیسا آنسو کس لئے وہ ہمارا خیال نہیں رکھتا بزرگوار! آپ نے پیسے کمانے کی مشین پیدا کرنے کے لئے سب بیچا، سارے سامان کئے اب وہ مشین بن گئی ہے۔

مشینوں کے جذبات تو نہیں ہوتے پرزوں کے رشتہ دار تو نہیں دیکھے شادیانے پھر کیوں بجائے تھے دعوتیں کیوں دی تھیں اُس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی

اور تیری آنکھوں سے آنسو اس نے بھی نتیجہ آنے پر مٹھائیاں بانٹی تھیں

اور تُو نے بھی بیٹے کے نتیجے پر احباب بلائے، مہمان آئے شادیانے بجائے ۔

لوہے کی مشین زمین سے نچوڑے تیل سے چلتی ہے اور گوشت سے بنی مشین اپنی ہی نسل کے خون سے چلتی ہے

اور پسینہ گریس کا کام کرتا ہے۔۔

وہ تو ٹھیک ہے بیٹا۔۔۔

لیکن خدا رسول کا فرمان بھی تو ہے کہ والدین کی خدمت کرو مشینوں کے کوئی عقائد، کوئی دین نہیں ہوتے

تیرے ملک میں اب مشینیں ہیں انسان نہیں کانِ نمک میں جانے کے بعد سب نمک بن جاتے ہیں۔

اچھا ایک اور بات بھی سن لیں

چاچا جی! تیرا بیٹا کیوں نہ کمائے کیوں دوسروں کو دے کیا دیتا ہے تیرا ملک اسے۔۔۔۔۔

یاد رکھ تیرا ملک صرف اور صرف چار چیزیں دیتا ہے اپنی جنتا کو اپنی رعایا کو

اپنی عوام کو ٹوٹی سڑکیں قدم قدم پر لٹنے 

اور مرنے کا خوف چنگھاڑتے سپیکر اور بدنام زمانہ پاسپورٹ ائرپورٹ پر آدھ گھنٹے ننگا کھڑا کرنے کے بعد دو گھنٹے گالیاں سناتے ہیں

اور تب وہ اپنے ملک میں آنے دیتے ہیں پاکستانی کو

میں سیکنڈے نیوین شہری ہوں اپنی آمدنی کا چالیس فیصد سے زائد ٹیکس دیتا ہوں بدلے میں ریاست مجھے عزت تحفظ صحت تعلیم روزگار اور وقار دیتی ہے بزرگو! یاد رکھ ہر وہ ملک جہاں ریاست اپنے فرائض پورے نہیں کرتی وہاں کا ہر شہری حریص، خود غرض اور لالچی ہوتا ہے۔۔۔

سب کچھ خریدنا جو ہے یہاں کمانے والا مر جائے تو لواحقین روتے روتے بے ہوش ہو جاتے ہیں اس لئے کہ اب کمائے گا کون۔۔ کھلائے گا کون ۔۔۔

ہر بلاول ہے میرے دیس کا مقروض پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے

جیسی شاعری ہر اس ملک میں ہو گی جہاں سب کچھ فرد کو خود کرنا ہے۔

تیرے دیس میں اپنے جنازے ہر کسی نے خود اٹھانے ہیں۔

آئیے آئیے

مولانا صاحب کیا حال ہے

اللہ کا کرم ہے

آپ کے تعاون سے ہمارا مدرسہ تقریباً مکمل ہو گیا۔۔

یہ میرے دوست خباب رشید صاحب ہیں

مولانا آپ اپنے مدرسے میں کیا پڑھاتے ہیں؟

ہم قرآن پاک حفظ کراتے ہیں پھر طلحہ اور آپ کا ایک کام کریں ہی ہوا آپ عربی حفظ کراتے ہیں یہ کیمسٹری اور فزکس رٹواتے ہیں

بالکل بالکل ہم پیشہ ساتھی ہیں اس لئے تو ایک دوسرے سے تعاون کرتے رہتے ہیں۔ 

Comments are closed.