دہشت گردوں کو پناہ دینے کی قیمت چکانا ہوگی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ پاکستان کو اپنے ہاں دہشت گردوں کو پناہ دینے کی قیمت چکانا ہو گی۔ ٹرمپ کے بقول اب یہ بات بالکل برداشت نہیں کی جائے گی کہ پاکستان میں انتہا پسندوں نے اپنے محفوظ ٹھکانے قائم کر رکھے ہیں۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوبی ایشیا سے متعلق امریکا کی نئی سکیورٹی پالیسی کے بنیادی خد و خال کی وضاحت کرتے ہوئے 21 اگست کی شام اسلام آباد حکومت کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن حکومت اب اس امر کو قطعاﹰ برداشت نہیں کرے گی کہ پاکستان میں دہشت گردوں نے اپنی محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کھلے الفاظ میں اعلان کرتے ہوئے کہا، ’’اب ہم اس بارے میں خاموش نہیں رہیں گے کہ پاکستان میں دہشت گرد تنظیمیں اپنے محفوظ ٹھکانے قائم کیے ہوئے ہیں‘‘۔

امریکی صدر نے کہا، ’’افغانستان میں قیام امن سے متعلق ہماری (امریکی) کوششوں میں پارٹنر بن کر پاکستان بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے۔ اور مجرموں اور دہشت گردوں کو آئندہ بھی پناہ دیتے رہنے سے پاکستان بہت کچھ کھو دے گا‘‘۔

صدر ٹرمپ نے جنوبی ایشیا بالخصوص پاکستان کے بارے میں اپنی نئی پالیسی کی مزید وضاحت کرتے ہوئے یہ اشارہ بھی دیا کہ ایٹمی طاقت کا حامل اسلام آباد واشنگٹن کا اتحادی تو ہے لیکن اگر اس نے انتہا پسندی کے خلاف فیصلہ کن اقدامات نہ کیے تو پاکستان کے لیے امریکا کی فوجی اور دیگر شعبوں میں امداد بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔

اے ایف پی کے مطابق امریکی صدر نے زور دے کر کہا، ’’ہم پاکستان کو اربوں ڈالر دیتے رہے ہیں اور پاکستان  انہی دہشت گردوں کو پناہ دیتا رہا ہے، جن کے خلاف ہم لڑ رہے ہیں۔‘‘ ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق، ’’اس صورت حال کو لازمی بدلنا ہو گا، اور وہ بھی فوری طور پر‘‘۔

اے ایف پی نے اس موضوع پر اپنی رپورٹوں میں اسلام آباد کے بارے میں امریکی صدر کے ان بیانات پر پاکستانی حکومت کے کسی ردعمل کا تو کوئی ذکر نہیں کیا، لیکن انہی رپورٹوں کے آخر میں زور دے کر ڈونلڈ ٹرمپ کے ان الفاظ کا حوالہ ضرور دیا گیا ہے، ’’پاکستان کے لیے اب وقت آ گیا ہے کہ وہ خود کو تہذیب، نظم اور امن کے لیے وقف کر دے‘‘۔

انڈیا اور افغانستان نے امریکہ کی نئی پالیسی کا خیر مقدم کیا ہے ۔ بھارت نے کہا ہے کہ وہ افغان عوام کے ساتھ اپنی دوستی نبھاتے ہوئے تعمیرو ترقی میں معاونت جاری رکھے گا۔بھارت نے کہ “ہم پرامن، خوشحال اور مستحکم افغانستان کے لیے پرعزم ہیں۔

بھارتی وزارت خارجہ نے مزید کہا کہ انڈیا افغانستان اور سرحد کے اُس پار دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کرنے اور مختلف چیلنجز کا مقابلے کرنے کے لیے امریکہ کے اقدامات کا خیر مقدم کرتا ہے۔بیان کے مطابق دہشت گردی کے معاملے میں انڈیا کے خدشات اور مقاصد مشترکہ ہیں۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے امریکی افواج کی ملک میں موجودگی کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیا اورامریکی عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اسے دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جدوجہد قرار دیا۔افغانستان کے صدارتی دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے افغانستان اور امریکہ شراکت داری اہم ترین موڑ پر ہے۔

پاکستان کی سیکیورٹی ایسٹیبلشمنٹ کے حمایت یافتہ میڈیا نے ٹرمپ کے اس تقریر پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا امریکہ ہمیشہ پاکستان کی قربانیوں کو نظراندازکرتا ہے اور ڈو مور کا مطالبہ کرتا ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بہت قربانیاں دی ہیں۔

سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ امریکا چین اور پاکستان کو ناراض کر رہا ہے۔ ان کے خیال میں افغانستان کا مسئلہ عسکری نہیں بلکہ سیاسی ہے۔ ق لیگ کے رہنما کا دعویٰ تھا کہ پاکستان کے بغیر افغانستان میں امن ممکن نہیں ہے۔ مشاہد حسین نے کہا کہ ٹرمپ نے امریکی ایسٹیبلشمنٹ کی ڈو مور کی روایتی پالیسی اپنا لی ہے۔

پاک فوج کے تجزیہ نگار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان نے اس پالیسی پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے ڈی ڈبلیوکو بتایا، ’’یہ کوئی غیر متوقع پالیسی نہیں ہے۔ ہمیں معلوم تھا کہ ڈو مور کہا جا ئے گا۔لیکن پاکستان نے اپنے طور پر بہت کچھ کیا ہے۔ ہم نے اپنی طرف سے دہشت گردی ختم کردی ہے اور جہاں ہمیں ٹھوس معلومات ملی ، ہم نے بلا تفریق کام کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکی پالیسی بنانے والے خود ابہام کا شکار ہیں اور وہ الزام در الزام لگا کر پاکستان کو نچوڑنا چاہتے ہیں‘‘ ۔

معروف تجزیہ نگار اور کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ء بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ طلعت اے وزارت نے ٹرمپ پالیسی پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’امریکا نے اپنی پالیسی بنائی ہے اور ہمیں اپنی پالیسی بنانی چاہیے‘‘۔

عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما لطیف آفریدی کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی برادری اور امریکا کا یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ ہم عسکریت پسندوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ’’ہم نے یہ ضرب عضب جو شروع کیا تھا۔ مجھے کسی ایک نامی گرامی پاکستانی طالبان رہنما کا نام بتاؤ جس کو فوج نے مارا ہو۔ مجھے کسی ایک افغان طالبان رہنما کا نام بتاؤ، جو اس آپریشن میں فوج کا شکار ہوا ہو۔ آج بھی باجوڑ، کرم ایجنسی ، خیبر ایجنسی اور چمن کے ذریعے لوگ افغانستان جا کر وہاں تخریب کاری کر رہے ہیں۔ ہمیں اس پالیسی کو ترک کرنا چاہیے‘‘۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی ایسٹیبلشمنٹ اپنی دوغلی پالیسی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ۔ دہشت گرد پاکستان میں کھلے عام اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور پاکستانی ریاست میں نہ مانوں کی رٹ لگائے ہوئے ہے۔ اس پالیسی کا فائدہ پاکستان کی ایسٹیبلشمنٹ کو تو ہورہا ہو گا لیکن پاکستان اس خطے میں تنہائی کا شکار ہو چکا ہے ۔ اس پالیسی کا خمیازہ پاکستانی عوام دہشت گردی، مذہبی انتہا پسندی، بیروزگاری کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔

BBC/DW/News Desk

2 Comments