پاکستان میں جمہوریت کی آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا

انور عباس انور

یہ اکیلے میرا سوال نہیں،مجھ جیسے بہت سارے نوجوان اوربوڑھے یہ سوال ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں، لیکن دونوں( سوال پوچھنے والا اور جس سے استفسار کیا جاتا ہے) ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ جاتے ہیں اور پھر اپنی اپنی راہ پکڑتے اپنی اگلی منزل کی جانب چل نکلتے ہیں۔

یہ سوال کچھ عجیب بھی نہیں، کیونکہ یہ مملکت خداداد پاکستان ایک سیاسی تحریک اور جدوجہد کے ذریعے دنیا کے نقشے پر ابھرا، اس تحریک اور جدوجہد کی قیادت سیاسی اور جمہوریت پر پختہ یقین رکھنے والے لوگوں نے کی، محمد علی جناح سے لیکر شیر بنگال مولوی فضل حق تک کوئی ایک بھی ایسا راہنما دکھائی نہیں دیتا جو آمریت پسند ہو۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی تسلیم نہ کرے تو یہ الگ بات ہے کہ پاکستان اور جمہوریت دونوں لازم و ملزوم ہیں،دونوں ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے، جیسے ’’جل بن مچھلی‘‘ زیادہ دیر اپنی بقا ء کو قا ئم نہیں رکھ سکتی ایسے ہی پاکستان اور جمہوریت ایک دوسرے کے بغیر نہیں چل سکتے۔

آج گیارہ ستمبر ہے اور پاکستانی قوم کے بابائے قوم بانی پاکستان قائد اعطم محمد علی جناح علیہ رحمۃ کی برسی بنا رہی ہے، قائد کی موت جس کسمپرسی کی حالت میں ہوئی وہ آج تک راز ہے۔کہتے ہیں کہ قائد اعظم طبعی موت نہیں مرے، بلکہ انہیں مارا گیا، اس الزام میں مجھے صداقت اس لیے دکھائی دیتی ہے کہ قائد کی وہ ایمبولینس جس کے ذریعہ انہیں علاج کے لیے زیارت پریذیڈنسی سے کراچی منتقل کیا جا رہا تھا وہ راستے میں خراب ہوگئی، اور کئی گھنٹے تک ایمبولینس وہیں کھڑی رہی کیونکہ اسے دھکا لگانے والا دور دورتک دستیاب نہیں تھا۔

کیسی منطق قوم کو بتائی گئی،اس معاشرے میں جہاں ہم رہتے ہیں،کا کلچر تویہ ہے کہ اگر کسی پٹواری، پولیس کے حوالدار کی گاڑی (چاہے موٹر سائیکل ہو) خراب ہو جائے تو دھکا لگانے والوں کی بھیڑ لگ جاتی ہے، لیکن کس قدر بے حس ہیں وہ لوگ جنہوں نے یہ منطق پیش کی کہ بانی پاکستان کی گاڑی کو دھکا لگانے کے لیے افراد موجود نہیں تھے، اس لیے ۔۔۔یہ سب سوچی سمجھی سازش کہانی ہے،جس پر سے کبھی نہ کبھی تو پردہ اٹھے گا،سازشی بے نقاب ہوں گے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ قائد اعظم کو اس سلوک کا کیونکر مستحق جانا گیا؟ کون لوگ تھے جنہوں نے یہ سازشی کھیل کھیلا؟ یقیناًجوبھی تھے اسی ملک کے رہنے والے تھے، اقتدار کے ایوان تک نہیں رسائی حاصل تھی، اور انہیں بااصول حکمران سے نجات حاسل کرنا تھی، اس سازش کے پس پردہ عوامل اور مقاصد پاکستان کو جمہوریت کی منزل پر پہنچنے روکنا تھا، غیر جانبدا پاکستان کی بجائے اسے عالمی قوتوں کا حاشیہ بردار بنانا مقصود تھا، سو انہوں نے اپنے ان مقاسد کے حصول کے لیے قائد اعظم کے بعد قائد ملت خان لیاقت علی خان کو بھی ’’ چٹے دن‘‘ موت کے گھاٹ اتار دیا اور پھر اسی سازش کے اغراض و مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اقتدار کا میوزیکل کھیل کھیلا گیا، جمہوری حکومتوں کو لانے اور ہٹانے کی مشق کرکے عوام پاکستان کو جمہوریت سے متنفر کرنے کا تین ایکٹ کا ڈرامہ کیا گیا۔

خواجہ ناظم الدین کو گورنر جنرل کے منصب سے ہٹوا کر ایک بیوروکریٹ غلام محمد کو گورنر جنرل جیسے اہم منصب پر بٹھا دینا یہ سازش نہیں تو اور کیا ہے ، بعد میں اسی غلام محمد نے سویلین اور جمہوری حکومتوں کو تگنی کا ناچ نچوایا،اسی اپاہج غلام محمد نے پہلا گیر آئینی اقدام کرکے اسمبلی کو توڑا، پھر اسی نے عدالت عظمی کو نطریہ پاکستان متعارف کروانے کی ہلہ شیری دی، اسی کی ریشہ دوانیوں کے باعث سکندر مرزا آیا اور اسے نے ایوب خان کو وردی سمیت ملک کا وزیر دفاع مقرر کرنے کی روایت ڈالی، جس کے بعد ایوب خان نے دس سال تک قائد اعظم کی سوچ اور ویژن کی دھجیاں اڑائیں،۔

قائد اعظم سے فاطمہ جناح اور فاطمہ جناح سے بے نظیر بھٹو تک کیے جانے والے قتل ہمارے ماتھے پر بدنما داغ ہیں،ان کے بعد آنے والی حکومتوں نے جن کے دعوے رہے کہ وہ قائد اعظم کے وارث ہیں، نے قائد اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ ناروا سلوک کے باعث لگنے والے داغ دھونے کی قطعا کوشش نہیں کی گئی، اس لیے امید واثق ہے کہ ایک نہ ایک دن اس پاک دھرتی پر خمینی بت شکنی آئے گا جو سب ظلم و زیادتیوں کے حساب چکاکر روح قائد و قائد ملت اور قائد اعظم کی ہمشیرہ سمیت سب قائد اعظم کے پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی جدوجہد میں مار دیئے گئے ،ارواح کو راحت فراہم کریگا۔ انشا اللہ تعالی یہ دن آئے گا، خلق خدا ، عوام پاکستان ، اس مملکت پاکستان پر راج کریگی اور پاکستان کو قائد کے ویژن کو عملی جامہ پہنائے گی۔

سب سے بڑے دکھ کی بات یہ ہے کہ جنرلوں نے قائد اعظم کے پاکستان کو اپنے اور غیر ملکی طاقتوں کے مفادات کی آماجگاہ بنا کے رکھدیا، قائد کے ویژن کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر اپنے ویژن متعارف کروانے کے تجربات کرنے کی جگہ بنایا، بات صرف فوجی جنرلوں تک محدود نہیں قائد کی جماعت اور پاکستان کی بانی جماعت ہونے کی دعویدار مسلم لیگ نے ہر آنے والے آمر کو سہارا دیکر اسے مضبوط کیا، بلکہ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مسلم لیگ نے فوجی ٓامروں کی پرورش کی، مسلم لیگ کے منہ پر یہ کالک تاقیامت لگی رہے گی۔

Comments are closed.