ان ’قاتل‘ ٹی وی  ٹاک شوز پر پابندی عاید کی جائے۔۔۔

سہیل انجم

ٹی وی ٹاک شوز سماج کو تو بانٹ ہی رہے ہیں اب جان بھی لینے لگے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ  ایسے قاتل  ٹاک شوز پر مکمل طور پرپابندی عاید کی جائے۔


این ڈی ٹی وی انڈیا کے اینکر اور سینئر صحافی رویش کمار نے بہت پہلے اپنے ایک پروگرام میں ناظرین سے اپیل کی تھی کہ وہ ٹی وی دیکھنا بند کر دیں ورنہ وہ ان کو اور ان کے بچوں کو قاتل بنا دے گا۔ انھوں نے یہ اپیل نیوز چینلوں پر ہونے والی ہندو۔مسلم ڈبیٹ کے تناظر میں کہی تھی جس کے توسط سے پورے ملک میں مذہبی انتہا پسندی پیدا کی جا رہی ہے اور عدم برداشت کو ہوا دی جا رہی ہے۔ ان کی یہ بات بالکل درست ثابت ہوئی۔ اس ٹی وی ڈبیٹ نے کانگریس پارٹی کے ایک ہونہار اور سنجیدہ ترجمان راجیو تیاگی کی جان لے لی۔ اگلی باری کس کی ہے بس اس کا انتظار کیجیے۔

راجیو تیاگی کی موت کن حالات میں ہوئی اور اس کے لیے براہ راست یا بالواسطہ کون لوگ ذمہ دار ہیں اس پر قومی آواز میں تفصیل سے شائع ہوچکا ہے۔ میں اس پر اظہار خیال کرنے کے بجائے ٹی وی ڈبیٹس کی شکل و صورت اور اس کے خطرناک عواقب و نتائج پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔ جب ہندوستان میں پرائیویٹ نیوز چینلوں کا دور نہیں آیا تھا اور صرف سرکاری دور درشن ہی واحد چینل تھا تو اس وقت عوام میں اتنی نفرت نہیں تھی اور نہ ہی لوگوں میں عدم برداشت یا عدم رواداری کا کوئی برا جذبہ پیدا ہوا تھا۔

اس کے بعد جب پرائیویٹ نیوز چینلوں کا دور شروع ہوا تو کئی برسوں تک ان چینلوں نے انتہائی مثبت رول ادا کیا۔ پورے ملک میں ہر چینل کے رپورٹر ہوتے تھے جو حالات و واقعات کی رپورٹنگ کیا کرتے تھے۔ وہ ملک کی زمینی سچائیوں سے اپنے ناظرین کو باخبر کرتے اور اس کے ساتھ ہی ملک کی سیاسی فضا اور سیاسی واقعات کے بارے میں انتہائی معروضی انداز میں پروگرام پیش کرتے تھے۔ کم از کم 2014 تک تو کم و بیش یہی صورت حال رہی۔ لیکن 2014 میں جب مرکزی اقتدار کی تبدیلی ہوئی تو صرف حکومت ہی نہیں بدلی بلکہ بہت کچھ بدل گیا۔

آر ایس ایس کے نظریات کو فروغ دینے اور حکومت کی خوشامد کا ایک نیا کلچر شروع ہو گیا جس کے تحت نیوز چینلوں کی رپورٹنگ کا انداز بدل گیا۔ بیشتر چینلوں نے فیلڈ سے اپنے بیشتر رپورٹر ہٹا لیے۔ صرف ضروری واقعات کی رپورٹنگ کے لیے رپورٹروں کی خدمات حاصل کی جانے لگیں۔ اس کے ساتھ ہی اسٹوڈیو میں مباحثے یا ڈبیٹ کی ایک نئی روایت شروع ہو گئی۔ مباحثے پہلے بھی ہوتے تھے لیکن انتہائی معیاری اور سنجیدہ ہوتے تھے۔ بد کلامی، گالی گلوج اور بد تہذیبی کا مظاہرہ نہیں ہوتا تھا۔ لیکن ایک تو حکومت کی ہر چیز پر اپنا کنٹرول رکھنے کی پالیسی اور دوسرے میڈیا اداروں کی بوجوہ چڑھتے سورج کی پوجا کرنے کی روش نے سب کچھ تلپٹ کر دیا۔

رفتہ رفتہ ان مباحثوں کو ایک خاص رنگ دیا جانے لگا۔ ایسا رنگ جو برسراقتدار طبقے کو سوٹ اور اپوزیشن کو بدنام کرے۔ اس کے لیے حکومت کی جانب سے چینلوں کے مالکوں کو ہدایات دی جانے لگیں اور ایک خاص رنگ کی ڈبیٹ کو پروان چڑھانے کا حکم دیا جانے لگا۔ بتایا جاتا ہے کہ صبح کے وقت ہی یہ طے ہو جاتا ہے کہ شام کے پرائم ٹائم میں کس موضوع پر بحث کرانی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ یہ بھی طے ہو جاتا ہے کہ کس کس کو اس بحث میں بلانا ہے اور ان سے کیا کیا بلوانا ہے۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ یہ سب کچھ حکومت کے کارندوں کی جانب سے کیا جاتا ہے۔

اس قبیح روایت کے شروع ہوتے ہی نیوز چینلوں میں مقابلہ آرائی بھی شروع ہو گئی اور اینکروں میں اس کا مقابلہ ہونے لگا کہ کون کتنی بد تمیزی کر سکتا ہے اور کون کس کی دستار اتار سکتا ہے اور پگڑی اچھال سکتا ہے۔ اس کے لیے ایک خاص طریقہ کار اختیار کیا گیا۔ کل چار پانچ افراد کو بحث میں بلایا جاتا ہے۔ جن میں ایک برسراقتدار جماعت کا ترجمان یا نمائندہ ہوتا ہے۔ ایک آر ایس ایس کا نمائندہ یا اس کا وچارک یا نظریہ ساز ہوتا ہے۔ ایک اپوزیشن کا کوئی آدمی ہوتا ہے اور ایک نام نہاد غیر جانبدار تجزیہ کار ہوتا ہے۔

بحث شروع ہوتے ہی چیخم دھاڑ کا بھی آغاز ہو جاتا ہے۔ حکومت اور آر ایس ایس کے نمائندے اپوزیشن کے نمائندے پر چڑھ بیٹھتے ہیں۔ وہ سارے لوگ اسی سے سوال کرتے ہیں مگر اسے جواب نہیں دینے دیتے۔ جب وہ اپنے جواب سے مخالفین کو قائل کرنے لگتا ہے تو اینکر بیچ میں کود پڑتا ہے اور حکومت کی نمائندگی کا فریضہ ادا کرنے لگتا ہے۔ اگر اس پر بھی اپوزیشن کی آواز بند نہیں ہوتی تو اس کے مائک کا وولیوم کم کر دیا جاتا ہے اور اس پر بھی بس نہیں کیا جاتا بلکہ اچانک اینکر کو یاد آتا ہے کہ اسے تو بریک لینا ہے۔ اور پھر وہ بریک لے لیتا ہے اور اس طرح اپوزیشن کی آواز کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔

دراصل اینکر کے کان میں ایک لیڈ لگی ہوتی ہے جس کے ذریعے اسے ہدایات ملتی رہتی ہیں۔ یہاں تک کہ جب اپوزیشن کا نمائندہ حاوی ہونے لگتا ہے تو اینکر کے کان میں کہا جاتا ہے کہ اسے ٹھونک دو ورنہ تمھیں ٹھونک دیا جائے گا۔ پھر کیا؟ اینکر اپنی نوکری بچانے کے لیے تہذیب و شائستگی کی تمام حدود پھلانگ جاتا ہے اور اس طرح حکومت کا موقف حاوی ہو جاتا ہے یا حکومت کی پالیسیوں کو بحث میں برتری حاصل ہو جاتی ہے۔ اینکر چیختا چلاتا ہے اور اپنے حریف سے جواب مانگتا ہے مگر اسے جواب نہیں دینے دیتا۔ وہ اپنی بات کو ملک کی بات کہنے لگتا ہے اور کہتا ہے کہ ملک جاننا چاہتا ہے، نیشن جاننا چاہتا ہے۔ گویا اینکر کا سوال نیشن یا پورے ملک کا سوال بن جاتا ہے۔ اس طرح اس بحث کو جو کہ سنجیدگی کے ساتھ ہو سکتی تھی اکھاڑے کی کشتی میں بدل دیا جاتا ہے۔

ان چینلوں پر زیادہ تر جذباتی ایشوز پر بحث کرائی جاتی ہے اور ان میں اقلیتوں کے خلاف یا مسلمانوں کے خلاف ایک ایسا ماحول بنایا جاتا ہے جس کا اثر عوام پر پڑنا لازمی ہوتا ہے۔ ان پروگراموں میں جھوٹ کی رسی بٹی جاتی ہے اور بے بنیاد الزامات کے طومار باندھے جاتے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ پاکستان یا چین کے موضوع پر بحث کے دوران تو اینکر فوجی بن جاتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ بس اب جنگ ہونے والی ہے۔ ان لوگوں کا بس چلے تو ابھی جنگ کروا دیں۔

ان ٹی وی ڈبیٹس کے نتیجے میں سماج میں فرقہ واریت کا زہر پھیل گیا ہے اور آدمی آدمی سے نفرت کرنے لگا ہے۔ موب لنچنگ ہو یا فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات، یہ ڈبیٹس ایسی خطرناک اور تباہ کن چیزوں کی حوصلہ افزائی اور یہاں تک کہ ان کی عزت افزائی بھی کرتی ہیں۔ ان مباحثوں نے سماج کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ان کا اثر بھولے بھالے عوام پر بھی پڑتا ہے اور ان کے دل و دماغ میں زہر پیوست کرتا جا رہا ہے۔ نیوز چینلوں پر دکھائی جانے والی رپورٹوں کا کتنا اثر ہوتا ہے اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ عوام کے ایک بڑے طبقے نے یہ بات قبول کر لی تھی کہ تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کی وجہ سے ہندوستان میں کرونا وائرس پھیلا ہے۔ حالانکہ اب مندروں اور دوسری جگہوں پر بھی بڑی تعداد میں لوگ کرونا کے مریض ہو رہے ہیں لیکن ان کے خلاف پروپیگنڈہ نہیں کیا جاتا۔ اگر رام مندر ٹرسٹ کے صدر نرتیہ گوپال داس کے بجائے کسی مسجد کے ٹرسٹ کے صدر کو کرونا ہوا ہوتا تو اب تک آسمان سر پر اٹھا لیا گیا ہوتا اور اس کی تقریب میں شرکت کرنے والوں کے خلاف منظم پروپیگنڈہ کیا جاتا۔ لیکن مجال ہے کہ کوئی رام مندر کی تقریب سنگ بنیاد میں شرکت کرنے والوں کے سلسلے میں کوئی جملہ ادا کرے۔

ڈبیٹ کے عنوان سے ہی ظاہر ہو جاتا ہے کہ بحث کو کس رخ پر لے جانا ہے۔ مثال کے طور پر جس ڈبیٹ کے دوران راجیو تیاگی پر دل کا دورہ پڑا اس کا نام ہی ”دنگل“ ہے۔ دنگل اکھاڑے میں ہوتا ہے لیکن ان نیوز چینلوں نے اپنے اسٹوڈیو کو ہی اکھاڑہ بنا دیا ہے۔ ہاں جو نام نہاد غیر جانبدار تجزیہ کار ہوتا ہے اسے بھی اسی رنگ میں رنگ دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بحث میں جانے سے قبل اس کو ہدایت دی جاتی ہے کہ اسے کیا بولنا ہے اور کیسے بولنا ہے اور کس کی حمایت یا کس کی مخالفت کرنی ہے۔ گویا کہنے کو تو وہ غیر جانبدار ہوتا ہے لیکن حقیقتاً اسے بھی حکومت یا چینل کا نمائندہ بنا دیا جاتا ہے۔

بحث کے دوران بدکلامی تو دور رہی گالی گلوج تک کی جاتی ہے اور مار پیٹ بھی ہو جاتی ہے۔ ایک سابق فوجی افسر ہیں جو کہ ڈبیٹ میں بڑے جوش خروش سے شرکت کرتے ہیں اور خود کو ایسا پکا دیش بھکت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جیسے ان سے بڑا دیش بھکت کوئی نہیں ہے۔ انھوں نے ایک ڈبیٹ کے دوران ایک پینلسٹ کو ماں کی گالی تک دے دی لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اینکر پینلسٹ کو ایک دوسرے پر حملہ کرنے تک کے لیے اکساتے ہیں اور اسٹوڈیو میں مار پیٹ تک کے واقعات بھی پیش آچکے ہیں۔

بہر حال یہ ٹی وی ڈبیٹس سماج کو تو بانٹ ہی رہی ہیں اب جان بھی لینے لگی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی قاتل ڈبیٹس پر مکمل طور پر پابندی عاید کی جائے۔ اظہار خیال اور میڈیا کی آزادی کے نام پر اس خطرناک کھیل کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ اگر ان پر پابندی لگانا ممکن نہ ہو تو جیسا کہ کانگریس کے ایک لیڈر شیر گل نے مطالبہ کیا ہے، ان کے لیے وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے رہنما ہدایات جاری کی جائیں۔ جو نیوز چینل ان ہدایات کی خلاف ورزی کریں ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا ان ڈبیٹس کے نتیجے میں ملک میں آگ لگی رہے گی اور لوگوں کا چین و سکون غارت ہوتا رہے گا۔

بشکریہ: قومی آواز نیو دہلی

Comments are closed.