پشاور کے بچوں کے ساتھ واشنٹگٹن میں ایک شام

attack-fbe1fe-840x550

تم نے دریا کو دیکھا ہے کروٹ بدلتے ہوے
اسکی لہروں میں سورج پگھلتے ہوے
سنا ہے یہ تم نے آذان سحر میں خدا بولتا ہے
جوممتا کا امرت پیاسے لبوں میں شہد گھولتا ہے
یہ قوت نمو کی نسل در نسل یوں چلی آ رہی ہے
یہی ہے تعلق خدا کا بھی ہم سےیہ محور زمیں کا
ازل سے ابد کو ملاتا یہی ہے
مگر یہ تمھاری سمجھ سے ہے باہر
تمہیں کیا خبر ہے کہ مصوم بچے
اذان سحر ہیں کہ انکی زباں سے خدا بولتا ہے
تمھاری رگوں میں ازل سے ہے دہشت
لہو کا ہے پردہ تمہارے ذہن پر
سنا ہے یہ تم نے کہ کل اس جگہ پر
فرشتوں کے ہمراہ اقرا کی آیت
پڑھی جا رہی تھی جہاں تم نے آ کر
خدا کی زباں کو لہو میں ڈبویا
یہ آیت تو اب بھی پڑھی جا رہی ہے
پڑھو آ کہ تم بھی یہی اسم اعظم
پڑھو کہ خدا نے بنایا ہے سبکو
بنایا ہے انسان اس نے علق سے
وہ رب کرم جس نے پڑھنا سکھایا ہے
سب کو قلم سے
اسی نے بنایا یہ لفظوں کا رشتہ
جو انسان ناطق ہوا تو خدا سے جڑا ہے
ورنہ مٹی کے پتلے سے کیا معاملہ ہے
مگر تم جو کہتے ہو مارو انہیں
مارو انہیں جنکو عقل و فہم ہے
یہ حکم خدا ہےیہ لکھا ہوا ہے
یہ جو اہل قلم ہیںجو اہل نظر ہیں
یہ معصوم بچے کہ جنکو طلب ہے
علم کے نور کیمار ڈالو انھیں
تمہیں کیا پتا ہے کیا لکھا ہوا ہے
کیا تم نے پڑھا ہے جو لکھا ہوا ہے؟
یہ اقرا کی آیتتفسیر جس کی
معصوم بچے سکھاتے رہے
تم کو اپنے لہو سے
یہ آیت تمہاری سمجھ سے ہے باہر
جو بچوں کا تم سے لہو مانگتا ہے
بنایا ہے تم نے وہ اپنے ذہن سے
وہ تمہارا خود ہے
ہمارا خدا رب جود و کرم ہے
وہ رب قلم ہےوہ علم بانٹتا ہے

Comments are closed.