گزشتہ ہفتے امریکی اور طالبان مذاکرات کاروں نے دوحہ میں ڈی ڈبلیو کو بتایا تھا کہ فریقین امن معاہدے کے مسودے پر متفق ہونے کے بالکل قریب پہنچ چکے ہیں۔ پھر صدر ٹرمپ نے اچانک امن مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیوں کیا؟
امریکی صدر نے طالبان کے ایک تازہ حملے کے بعد امن مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کیا، جس میں ایک امریکی فوجی بھی ہلاک ہو گیا تھا۔ یاد رہے کہ طالبان نے افغانستان میں قیام امن کے لیے مذاکرات بھی جاری رکھے لیکن ساتھ افغانستان میں اپنی دہشت گردانہ کارروائیاں بھی بڑھا دی تھیں۔
سیکیورٹی امور کے کچھ افغان ماہرین کی رائے میں طالبان نے امن مذاکرات پر اثر انداز ہونے کے لیے اپنی کارروائیاں بڑھا رکھی ہیں۔افغانستان میں قیام امن کے لیے ایک سرگرم کارکن میلاد سکندری نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”امن مذاکرات کے دوران سیاسی اور عسکری دباؤ بڑھانا ایک عمومی عمل ہے۔ قندوز پر حملے کر کے طالبان اپنی عسکری طاقت کا مظاہرہ کر رہے تھے تاکہ امن مذاکرات کے دوران وہ اس سے فائدہ حاصل کر پائیں‘‘۔
افغان طالبان تاہم اس تاثر کی نفی کرتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ جب تک تمام فریق سیز فائر پر رضا مند نہیں ہو جاتے تب تک طالبان پر بھی حملے روکنے کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ طالبان کے مطابق افغان سکیورٹی فورسز بھی ان کے جنگجوؤں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔
کیا صدر ٹرمپ کا مذاکرات ختم کرنا، امریکا میں طالبان اور افغان نمائندوں سے خفیہ ملاقات منسوخ کرنا کابل حکومت اور طالبان کے لیے پیغام ہے کہ معاہدہ طے کرنے کے لیے واشنگٹن حکومت ان سے لچک کا مظاہرہ چاہتی ہے؟ کیا ٹرمپ بھی طاقت کا اظہار کر رہے ہیں؟
اس بارے میں افغانستان کے سابق نائب وزیر دفاع تمیم آصی کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”میرا خیال ہے کہ طالبان رہنماؤں کو تشدد میں کمی لانے اور سیز فائر پر رضامند کرنے کے لیے یہ ٹرمپ کا نپا تلا قدم ہے‘‘۔
تاہم سکیورٹی امور کے پاکستانی ماہر علی کے چشتی کی رائے میں صدر ٹرمپ کا اعلان صرف ‘ایک عارضی قدم‘ ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے چشتی نے کہا، ”جیسا کہ ہم امریکی صدر کو جانتے ہیں، گمان غالب یہی ہے کہ وہ طالبان کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ امن مذاکرات اور پرتشدد کارروائیاں ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ میری رائے میں اس تنازعے کے تمام فریق، امریکا، طالبان، کابل اور اسلام آباد، امن معاہدہ چاہتے ہیں۔‘‘
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ تمام فریق اپنی اپنی شرائط پرامن معاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔ صدر اشرف غنی کی حکومت کے واشنگٹن سے اپنے مطالبات ہیں۔ اشرف غنی افغانستان میں اٹھائیس ستمبر کو صدارتی انتخابات اور مستقبل میں ایک ایسا سیاسی نظام چاہتے ہیں جس میں طالبان کو برتری حاصل نہ ہو۔ ماہرین کی رائے میں تمام فریق اپنی اپنی پوزیشن مضبوط بناتے ہوئے حصہ لینا چاہتے ہیں۔
طالبان کے دوحہ میں ترجمان سہیل شاہین نے گزشتہ ہفتے ڈی ڈبلیو کو بتایا تھا کہ امریکا کے ساتھ مذاکرات میں افغانستان میں سیز فائر بھی ایجنڈے میں شامل ہے۔ شاہین کا کہنا تھا، ”کچھ معاملات نازک ہیں اور انہیں حل کرنے میں وقت لگے گا۔ لیکن مذاکرات (کے نویں دور میں) کافی پیش رفت ہوئی ہے اور ہمیں امید ہے کہ یہ آخری دور ہو گا‘‘۔
لیکن یہ دور بھی آخری ثابت نہیں ہوا۔ لندن میں مقیم افغان صحافی سمیع یوسفزئی موجودہ صورت حال کی ذمہ داری طالبان پرعائد کرتے ہیں۔ یوسفزئی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”اس تمام معاملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان موقعے کا فائدہ اٹھانے کے لیے سیاسی طور پر ابھی بھی پختہ نہیں ہوئے۔ امریکا کے ساتھ مذاکرات کے دوران طالبان کے زیادہ تر مطالبات مان لیے گئے تھے اس کے باوجود جب خلیل زاد کابل گئے تو طالبان نے ایک خونریز حملہ کر دیا۔ امن معاہدہ اب بھی بچایا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے طالبان کو لچک کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔‘‘
یوسفزئی کی رائے میں اگر طالبان ملک گیر سیز فائر پر رضامند ہوتے ہیں تو امریکا مذاکرات کی میز پر واپس آ سکتا ہے۔ تاہم کچھ تجزیہ نگار ایسے بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ امن معاہدے کے امکانات ختم ہو چکے ہیں۔ لاہور میں مقیم ایک تجزیہ نگار طاہر مہدی کا کہنا تھا، ”طالبان نے بہت کم اور بہت دیر سے لچک دکھائی ہے‘‘۔
DW
One Comment