بیرسٹرحمید باشانی
انقلاب پھولوں کی سیج نہیں ہے۔ انقلاب ماضی اورمستقبل کےدرمیان تادم مرگ جنگ کانام ہے۔یہ قول شہرہ آفاق سیاست دان اوردانشورفیڈل کاسترو کا ہے۔ آج کل جب اس نابغہ روزگار شخص کی تیسری برسی منائی جا رہی ہے، تو دنیا میں لاکھوں لوگ اس عظیم دانشوراورمدبرشخص کو یاد کر رہے ہیں۔ اس کی شخصیت کے مختلف پہلووں پر گفتگوہ کر رہے ہیں۔ اور اس کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔
کاسترو کے یوم پیدائش یا موت پرمیں گاہے کالم لکھتا رہا ہوں۔ ان کالموں میں میں ان کی شخصیت اورجہدو جہد کے باب میں میں اپنے تاثرات پیش کر چکا ہوں؛ چنانچہ میں اس کالم میں کاسترو کے نظریات اور سیاسی جہدوجہد کے علاوہ کچھ دیگر دلچسب وعجیب چیزوں کا ذکربھی کروں گا، جو شایدبہت سارےلوگوں کو معلوم نہیں ہیں۔
کاسترو نے اپنی طویل زندگی میں بہت سارے ریکارڈ بنائےاورتوڑے ہیں۔ یہ بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ کاسترو بہت اچھے مقرر تھے۔ اس نے اقوام متحدہ میں مسلسل دوسوانہترمنٹ بول کر ایک سربراہ مملکت کی حیثیت سےاس فورم پر طویل ترین تقریرکا ریکارڈ قائم کیا تھا، جو آج تک قائم ہے۔ ملک کے اندران کی طویل ترین تقریرکا ریکارڈ 1986 میں بنا جب انہوں نے پارٹی کی کانگرس سے سات گھنٹے اوردس منٹ کا طویل خطاب کیا۔
فن خطابت کے ساتھ ساتھ کاسترواعلی پائے کے لکھاری بھی تھے۔ وہ ایک باقاعدہ کالم نویس تھے۔ وہ کیوبا کے اخبارات میں باقاعدگی سے کالم لکھتے تھے۔
جن لوگوں کو یقین ہے کہ امریکی سی آئی اے اوردوسری خفیہ ایجنسیاں اس دنیا میں جو چاہیں کر سکتی ہیں ان کے لیے کاسترو کی زندگی میں ایک بڑا سبق ہے۔ واشنگٹن سی آئی اے اور پنٹاگون کی مدد سے دنیا کے کونے کونے میں رجیم چینج، انقلاب اور رد انقلاب کے کھیل کھیلتا رہا ہے۔ ہزاروں میل دور جہاں اور جب چاہاحکومت بدل دی ۔ مگر میامی سے چالیس منٹ کے ہوائی سفر کے فیصلے پربیٹھا ہوا فیڈل کاسترو پچاس سال تک ان لوگوں کے لیے درد سر اور ڈروانے خواب کی طرح بیٹھا رہا ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کاسترو کی زندگی پر چھ سوچونتیس حملے ہوئے۔ ان میں سے اکثر حملے امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کی نگرانی میں ہوئے۔
ان قاتلانہ حملوں میں زہر میں بجھے سگار، زہریلی گولیاں، کیمیکلز سمیت کئی روایتی اور غیر روایتی ہتھیار استعمال ہوئے۔ کاسترو کے سر کی قیمت بھی لگی اورچند سو میل کے فاصلے پر موجود سپر پاور کے کئی اہل کاروں نے سرعام اس کی موت کی تمنا بھی کی۔ کاسترو کا تختہ الٹنا کئی ایک کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش رہی۔ اس کے باوجود کاسترو نے بادشاہوں کو چھوڑ کر دنیا کے طویل ترین حکمران ہونے کا ریکارڈ بھی قائم کیا۔ بیسویں صدی میں کاستروسے زیادہ عرصہ جو لوگ بر سر اقتدار رہے ان میں ایک انگلستان کی ملکہ الیزبتھ تھی اور دوسراتھائی لینڈ کا بادشاہ تھا، جن کو ان معنوں میں سیاسی حکمران نہیں کہا جا سکتا۔
امریکہ نے کاسترو کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے اپنی خفیہ ایجنسیوں اور سیاسی اثر و رسوخ کے علاوہ اپنی قریبی ہمسائیگی اور معاشی طاقت کا بھی استعمال کیا۔ لاکھوں کاسترو دشمن لوگوں کو امریکہ میں پناہ دی گئی۔ ان جلاوطن کیوبن کے ذریعے کیوبا کے اندر رد انقلاب کی مسلسل کوششیں ہوتی رہی۔ اس کے ساتھ ساتھ کیوبا کی بری طرح سے ناکہ بندی کی گئی۔ امریکی شہریوں کو کیوبا کا سفر کرنے سے روکنے سے لیکر ہر قسم کی سخت معاشی و تجارتی پابندیاں لگائی جاتی رہی۔
ہرنئے امریکی صدر نے برسر اقتدار آکر پہلے سے زیادہ بڑھ چڑھ کرکیوبا پر لگائی گئی پابندیوں کوسخت کیا۔ ان پابندیوں کا واحد مقصد کاسترو کو اقتدار سے ہٹانا تھا ، مگر ہوا س کے برعکس، کاسترو نے صدر آئزن ہاور سے لیکر بل کلنٹن تک نو امریکی صدور کو بھگتایا، اوروہ پانچ عشروں تک اقتدار پر بیٹھ کرامریکی صدور کی بے بسی پرمسکراتا رہا۔
سیاست کے ساتھ ساتھ کاسترو کو ادب سے گہری دلچسبی تھی۔ وہ انگریزی اور ہسپانوی ادب کے قاری اور نقاد تھے۔ امریکی ناول نگارہمنگوے ان کا پسندیدہ ادیب اور قریبی دوست تھا۔ ہمنگوے کی کیوبا میں ایک مستقل رہائش تھی، جہاں رہ کر اس نے سپین کی خانۃ جنگی پرمشہورناول تخلیق کیا۔ ہمنگوے کے علاوہ کئی دوسری ادبی شخصیات کے ساتھ کاسترو کی گہری دوستی رہی ہے۔ ان میں چلی کے مشہورہسپانوی شاعر پابلونروداہ بھی شامل ہیں۔ نرودہ کاسترو اور کیوبا کے انقلاب کا بڑا احترام کرتے تھے۔
مگر1966 میں جب اس نے امریکہ کا دورہ کیا تو صوت حال بدل گئی۔ اس کےخلاف کیوبا کے دانشوروں نے ہسپانوی زبان کے اخبارات میں بڑے پیمانے پر خطوط لکھے، جن کے بارے میں عام رائے یہ تھی کہ یہ خطوط کاستروکے ایما پر لکھے جاتے تھے۔ کاسترو کی کولمبیا کے ادیب گبریئل گارسیا کے ساتھ بھی بڑی گہری دوستی تھی۔ گاریسا کا مشہورناول” ایک سو سال کی تنہائی” کاسترو کو بہت پسند تھا۔ گارسیا کا مانناتھا کہ کاسترو ایک بہترین نقاد ہیں۔ اور کئی سال تک وہ گارسیا کی درخواست پر ان کے مسودوں کا تنقیدی جائزہ لیتے رہے۔
کاسترو اپنی کرشماتی شخصیت، نظریات اور کیوبا میں ایک کامیاب معاشی نظام کی وجہ سے دنیا بھر کے انقلابیوں میں اتنے مقبول تھے کہ وہ لینن ازم، ماوازم یا جوچے نظریات کی طرح کاستروازم متعارف کرا سکتے تھے، ان کے بہت سارے پیروکاروں نے کاستروازم کو بطور نظریہ اور طرز زندگی متعارف کروانے کی کوشش بھی کی جس کی کاسترو نے حوصلہ شکنی کی۔ حالاں کہ کیوبا کےانقلاب کے ابتدائی ایام میں ہی کاستروازم کی اصطلاح گھڑی جا چکی تھی۔ یہ اصطلاح مشہورامریکی تاریخ دان تھیوڈو دریپر نے گھڑی تھی۔
تھیوڈور کا خیال تھا کہ کاسترو نے روایتی سوشلزم کی جگہ ایک نیا نظریہ تخلیق کیا ہے، جو یورپین سوشلزم اورلاطینی امریکہ کی انقلابی روایات کا امتزاج ہے۔ اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو یہ بات درست بھی تھی۔ کاسترو نے روسی سوشلزم یا چینی ماوازم کی اندھی تقلید یا نقل کے بجائےایک تخلیقی انداز اپنایا، اورجدت پسندی سے کیوبا کے اپنے مقامی مخصوص حالات کے مطابق بالکل مختلف انداز میں اس کا اطلاق کیا۔
اس کا نتیجہ بھی مختلف تھا، جو ہر سال اقوام متحدہ کی سالانہ رپورٹوں میں نظر آتا رہا۔ کاسترو کے دور میں کیوبا میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو روٹی، کپڑے، مکان، روزگار، صحت اور تعلیم کی ضمانت دی جاتی تھی۔ خواندگی کی شرح، تعلیم، صحت، روزگار کے باب میں کیوبا لاطینی امریکہ کے دیگر ممالک کے لیے ایک روشن مثال بن گیا تھا۔ صفائی اورصحت کے مثالی نظام کی وجہ سے کیوبا میں اوسط عمر امریکہ سے زیادہ ہوگئی تھی۔
کاسترو زندگی بھر ملٹری سٹائل کمبیٹ وردی نما کپڑے پہنتے رہے، مگر آخری عمر میں وہ زیادہ تر ایڈی داس کے کپڑوں میں نظر آتے تھے، جو کہ جرمنی میں قائم ایک ملٹی نیشنل کمپنی ہے۔ یاروں کو کاسترو کی فوجی وردی پر بھی اعتراض رہا کہ وہ ان کو ہم عصرفوجی آمریتوں کی یاد دلاتی تھی۔ اورایڈی داس کے آرام دہ لباس پر بھی وہ خوش نہیں تھے کہ یہ انہیں برانڈ نیم، ملٹی نیشنلز کے استحصال کی یاد دلاتا تھا۔ مگر یہ دونوں باتیں کاسترو کے کھلے ذہن پردلالت کرتی ہیں۔
کاستروایک غیرمعمولی ذہانت کے مالک دانشور تھے۔ وہ مسلسل اپنے نظریات کا از سر نو تنقیدی جائزہ لیکر ان کو بدلتے حالات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ وہ خود تنقیدی کے بڑے قائل تھے۔ آخری عمر میں انہوں نے اپنی بہت سی پالیسیوں کے غلط ہونے کا اعتراف کیا۔ ہم جنس پرستوں اور سیاسی مخالفین کے خلاف سخت پالیسی اس کی ایک مثال تھی، جس پرانہوں نے افسوس کا اظہار کیا۔
یہ درست ہے کہ کاسترو نے عوام کے بیشتر جمہوری و انسانی حقوق اور شہری آزادیوں پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی تھِیں۔ مگر ان کے طویل المدتی اقتدار کی وجہ یہ پابندیاں نہیں، بلکہ عوام کے اندران کی بے پناہ مقبولیت تھی۔ اس مقبولیت کا مشاہدہ میں نے ذاتی طور کاسترو کے دورمیں باربار ہوانا کی سڑکوں پرعام آدمی سے بات چیت کے دوران کیا۔
کیوبا کے عام آدمی کے دل میں چے گویرا اورکاسترو کا بے پناہ احترام اور محبت تھی اور اب بھی ہے۔ کاسترو اور کیوبا کے عوام کے درمیان محبت اور جبر کا ایک عیب رشتہ تھا، جو نصف صدی سے بھی زائد عرصے تک قائم رہا۔
♠