بیرسٹرحمید باشانی
ٹرمپ کے دورے کے دوران بھارت کے جوش و خروش کو دیکھ کربھارت اور امریکہ کے تعلقات کی تاریخ یاد آتی ہے۔ یہ تعلقات ہمیشہ کوئی بہت خوشگوار نہیں رہے۔ یہ تعلقات بڑے نشیب و فراز سے گزرے۔ نشیب زیادہ رہا، اور فراز کم۔ مگربدلتے وقت کے ساتھ دونوں ملکوں نے اپنی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں لائی۔ ان تبدیلیوں سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی پیدا ہوئی، جواس دورے میں عام دکھائی دیتی ہے۔
تاریخ میں جھانکا جائے توپچاس، ساٹھ اورسترکی دہائیوں میں بھارت کی خارجہ پالیسی کوامریکی ناپسندیدگی یا پھر تشویش سے دیکھتے رہے ۔ پچاس کی دہائی میں اس ناپسندیدگی کی وجہ پنڈت نہرو کی پالیسیاں تھِیں۔ نہروایک آزاد خیال سوشلسٹ تھے، جو آزاد خارجہ پالیسی پر یقین رکھتے تھے، مگرعملی طورپرعالمی سیاست میں ان کا جھکاو واضح طور پرسوویت یونین کی طرف تھا۔
اس وقت نوآبادیاتی نظام کی پسپائی کی وجہ سے ہندوستان کے ساتھ کئی دوسرے ممالک آزاد ہوئے تھے۔ تیسرے دنیا کے کچھ نوآزاد ممالک میں دونوں بڑی طاقتوں کے اثر سے اپنے آپ کو آزاد یا الگ رکھنے کی خواہش تھی۔ اس خواہش کی قیادت پنڈت جواہر لال نہرو کے ہاتھ میں تھی۔ اس کی ترجمانی اس نے عالمی سطح پر پہلی بار1955 میں سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں اپنی تقریر میں کی۔ کولمبو میں پنڈت جواہر لال نہرو اور چواین لائی نے پرامن بقائے باہمی کے پانچ اصولوں پراتفاق کیا۔ یہ اصول عالمی طاقتوں کی تیسری دنیا کے ممالک میں مداخلت کے خلاف ایک اعلامیہ تھا۔ یہ اصول آگے چل کرغیرجانب دارتحریک کی بنیاد بنے۔
غیرجانب دارتحریک میں پنڈت نہرو اس وقت کےعالمی طور پر شہرت یافتہ اوراپنے عوام میں بے حد مقبول رہنماوں کو شامل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان میں مصر کے جمال عبدل ناصر، یوگوسلواکیہ کے جوزف ٹیٹو، ویتنام کے ہوچی من، چین کے چواین لائی، کیوبا کے فیڈل کاسترواورانڈونیشیا کے سوکارنو سمیت کئی بڑے لیڈر شامل تھے۔ امریکہ کے لیے یہ تحریک ایک مئسلہ تھی۔ اس تحریک کے رہنماوں کا دعوی تھا کہ سرد جنگ کی وجہ سے دوبلاکوں میں تقسیم اس دنیا میں وہ غیرجانب دارممالک ہیں۔ مگرامریکہ اس دعوے کو ماننے کے لیے تیار نہ تھا۔ امریکہ کا موقف تھا کہ یہ تحریک سوویت یونین کا ایک نیا عالمی فرنٹ ہے، جس کا مقصد ایسے ممالک کی حمایت لینا ہے، جو سرد جنگ کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
امریکہ بھارت تعلقات میں سرد مہری کی دوسری وجہ امریکہ پاکستان تعلقات تھے۔ آزادی کے فورا بعد لیاقت علی خان نے سوویت یونین کی دعوت ٹھکرا کر امریکہ کا دورہ کیا۔ انہوں نے امریکہ اورمغرب کو پیغام دیا کہ پاکستان سرد جنگ میں مغربی بلاک کے ساتھ چلنے کو تیار ہے۔ لیاقت علی خان نے جو پالیسی اپنائی تھی اس کے زیراثر پاکستان مغربی کا ایک اہم ترین اتحادی ملک بن گیا۔ آگے چل کریہ تعلق اتنا آگے بڑھا کہ پاکستان کو سیٹواورسنیٹو جیسے مغربی فوجی معائدوں کا حصہ بنا لیا گیا ۔
دوسری طرف بھارت سوویت یونین کے قریب ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کے 1971میں بھارت نے سوویت یونین سے باضابطہ دفاعی تعاون کا معاہدہ کر لیا۔ چنانچہ ساٹھ اورسترکی دہائیوں میں بھارت اورامریکہ کے تعلقات میں ایک خاص قسم کی سرد مہری رہی۔ یہ سرد مہری سرد جنگ کے اختتام اورانڈیا کی لبرل ازم کی پالیسیاں اپنانے پرختم ہونا شروع ہوئی۔ نئے تعلقات کا دورشروع ہوا۔ یہاں تک کہ سال 2005 میں امریکہ نے بھارت کو باضابطہ طور پرنیوکلئیرطاقت تسلیم کر لیا۔ اوراس کے ساتھ ساتھ نئےگلوبل آرڈراورسیکورٹی میں بھی بھارت کی شرکت کی ضرورت کا اظہارکیا گیا۔
تب سےامریکہ بھارت سے بڑی امیدیں رکھتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دورمیں امریکہ کے بہت سارے ممالک کے ساتھ تعلقات میں تناو پیدا ہوا۔ جب ٹرمپ نےباآواز بلند سب ملکوں سے یہ پوچھنا شروع کیا کہ امریکہ نے اپ کے لیے بہت کچھ کیا جواب میں آپ نے ہمارے لیے کیا کیا ہے تو بھارت کوئی استشنا نہیں تھا۔ اس نے بھارت سے بھی یہی سوال کیا۔
بھارت سال2005 سے سفارتی محاز اورٹیکنالوجی کے میدان میں امریکہ کی فراخدلانہ مدد سے مستفید ہو رہا تھا۔ ٹرمپ نے ٹریڈ اور ٹیرف کے حوالے سے مشکل سوالات اٹھائے توجوابا کسی خفگی کے اظہار کے بجائے نریندرمودی نے پہلے سے زیادہ گرمجوشی دیکھائی اور ٹرمپ سے ذاتی تعلق قائم کرنے کی کوشش جاری رکھی۔ ان کوششوں کا نتیجہ ٹرمپ کی مودی کی ریلی میں شرکت اور اب اس کی آبائی ریاست گجرات کا دورہ ہے۔
ماضی میں بھارت امریکہ تعلقات کے نشیب و فراز میں ایک اہم عنصرچین رہا ہے۔ ٹرمپ کے دورمیں واشنگٹن کی چین پالیسی بنیادی تبدیلی آئی۔ اس پالیسی میں دو بڑی نمایاں تبدیلیاں ہوئیں۔ پہلی یہ کہ ٹرمپ نے واضح طور پر چین کوایک کاروباری یا سٹرٹیجک شراکت دار کی بجائے حریف اور مد مقابل قرار دیا۔ دوسری بڑی تبدیلی یہ تھی کہ ٹرمپ دورمیں امریکہ کی اینڈو پیسیفک پالسی کا ازسر نو جائزہ لیا گیا۔ اورروایتی پالیسی کے برعکس ایک “کھلےاورآزاد اینڈو پیسیفک” کی پالیسی اپنائی۔
اگرچہ بھارت اورامریکہ کے درمیان انڈوپیسیفک کو لیکر کئی اختلافات موجود ہیں۔ لیکن اس سمندرمیں چینی بالادستی کو روکنے کے لیےیہ دونوں ملک متفق ہیں۔ چنانچہ آزاد اور کھلے سمندر کی پالیسی کا مطلب یہ ہے کہ اس سمندر کے پانیوں پرچین کا کنٹرول اوربالادستی ختم کی جائے ۔ اور یہ وہ مشترکہ نقطہ ہے جو دونوں کو مشترکہ مفادات کی لڑی میں پرو کر قریب لاتا ہے۔
دفاعی تجارت ان قریبی تعلقات کی ایک اور وجہ ہے۔ ماضی میں بھارت دفاعی خریدداری کے باب میں روس پرانحصار کرتا تھا۔ مگر حالیہ برسوں میں بھارت نے امریکی تاجروں سے ہائی ٹیک ڈیفنس سسٹم خریدا ہے۔ یہ صورت حال اس حد تک پہنچی کہ روس نےباضابطہ دھمکی دی کے وہ چین کو بھارت سے بہتر ہتھیار فراہم کرے گا۔ اس کےباوجود اس باب میں بھارت نے پیش قدمی جاری رکھی اور وہ امریکی ڈیفنس ٹیکنالوجی کی اہم ترین منڈی بن گیا۔
اس وقت بھارت امریکہ سے سب میرین، ٹنیک شکن ہیلی کاپٹرز، میزائل، نیول گنز، بغیرڈراہیور کے ہوائی گاڑیاں اورمیری ٹائم پٹرول طیارے خرید رہا ہے۔ امریکہ نے بھارت کو ڈرون اورمیزائل کا ائیرڈیفنس سسٹم دیا، جوعام حالات میں چین اور پاکستان کے ردعمل کے پیش نظر ممکن نہ تھا۔ ہائی اینڈ ڈیفنس ٹیکنالوجی کی فروخت کے لائسنسز کے حوالے سے بھارت کو وہی مراعات دے دی گئیں، جو نیٹو کے دیگر ممالک کو حاصل ہیں۔
حال ہی میں بھارت اور امریکہ کی مشترکہ فوجی مشقوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سرگرمی کا نقطہ ماسکہ بحراوقیانوس میں چین کو موجودگی اوراس کی سرگرمیاں ہیں۔ بھارت اب چین کے حوالے سے انٹلیجنس اورچینی فوجی آپریشن کے بارے میں امریکہ سے معلومات بھی شیر کر ہا ہے۔ ایسا کر کے مودی سرکار نے ٹرمپ کا یہ شکوہ دور کر دیا ہے کہ بھارت امریکی نوازشات کے بدلے میں کچھ نہیں کر رہا ہے۔
امریکی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات اب اس نہج پرچل رہے ہیں کہ امریکہ یہ توقع رکھتا ہے کہ مستقبل میں اس خطے میں کسی بحران یا جنگ کی صورت میں بھارت امریکی فوج کا ہاتھ بٹا سکتا ہے۔ مگر ان ساز گار حالات اور نئے مواقعوں کے باوجود بھارت وہ فائدہ نہیں اٹھا سکا جو اٹھا سکتا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے بھارت کی معیشت میں سست رفتاری آ گئی ہے۔ معیشت میں اس سست رفتاری کی وجہ سے بھارت چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلحہ کی خرید داری اور فوج پرمطلوبہ اخراجات نہیں کرسکتا۔ اس وجہ سے اس کا امریکہ کے ساتھ پاٹنرشپ کا عمل بھی سست ہو رہا ہے۔
بھارت کا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ بھارتی فوج کا ایک مائند سیٹ ہے۔ یہ ایک قدامت پسند فوج ہے۔ اس کی ساری ٹیکنالوجی اورڈاکٹرائین چین اورپاکستان کے ساتھ بارڈرکے ڈیفنس کے گرد گھومتی ہے۔ چنانچہ یہ فی الحال برصغیر سے باہردیکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ بھارت اس وقت اندرونی طور پرانتشار اور بے چینی کا شکار ہے، جس کی وجہ سے اس کی معیشت کی سست رفتاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مگر اس کے باوجود کھربوں ڈالر کے اسلحہ کی فروخت اور دونوں ملکوں کی منڈیوں میں اتنے بڑے پیمانے پر رسائی سے اس امر میں شک و شہبے کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ دونوں ممالک کے بے پناہ معاشی اور سیاسی مفادات ایک دوسرے سے جڑچکے ہیں۔
صدر ٹرمپ خطے میں بھارت کے غالب کردارکو کھلے عام تسلیم کرنے کا اعلان کرچکا ہے۔ ان حالات میں خطے کی سیاست میں بنیادی تبدیلی کے امکانات واضح ہیں۔ علاقائی طاقتوں کو ان حالات کو سامنے رکھ کر اپنی پالیسیوں کو ازسرنو ترتیب دینا پڑے گا۔
♦