بیرسٹر حمید باشانی
روس اور یوکرین کا مسئلہ ہمارے عہد کا تازہ ترین المیہ ہے۔ اس موسم بہار میں اور شاید اس کے بعد بھی آنے والے کئی موسموں میں اس المیے پر بات ہوتی رہے گی۔اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ جنگ طویل ہو کر ماضی کی جنگوں کی طرح خوفناک انسانی تباہی و بربادی کا باعث بنے گی اور نئے المیے جنم دے گی؟ یا ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں فریقین اس تنازعے کا جلد از جلد پر امن حل نکال کر کہ مزید المیوں سے بچنے کی کوئی سبیل کریں گے ؟ اس بات کا دار مدار فریقین کے عقل و دانش، ان کی افتاد طبع، اور عالمی طاقتوں کے مفادات پر ہے۔ اور سب سے زیادہ انحصار ولادمیر پوٹن پر ہے۔
پوٹن اس المناک ڈرامے میں مرکزی کردار ہے۔ اس لیے اس کی ذات، افتاد طبع اور نفسیات میں دنیا کی دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس وقت عالمی پریس میں پوٹن کو لے کر طرح طرح کے دعوے ہو رہے ہیں۔ ہرشخص اپنی پسند اور ناپسند کے مطابق پوٹن کا پورٹریٹ بنا کر پیش کررہا ہے۔ پاکستان میں بائیں بازوں کے کچھ دانش وروں کو پوٹن کی شکل میں ایک دیو مالائی انقلابی نظر آ رہا ہے، جس نے بالآخر سامراج کو للکار کر دنیا میں طاقت کے توازن کو ازسر نو ترتیب دینے کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔جبکہ کچھ لوگوں کو اس کی ذات میں ایک فاشسٹ ڈکٹیٹر کی شبیہ نظر آتی ہے، جو اپنی طاقت ور فوج کے بل بوتے پر ایک کمزور پڑوسی پر حملہ آور ہے۔
دائیں بازوں کے کچھ دانشور پوٹن کی اس ادا پر مر مرٹے ہیں، اور قرآن وحدیث سے اپنی پسند کے حوالے نکال اسے “راہ حق ” کا مجاہد قرار دینے کے لیے انوکھے دلائل لا رہے ہیں۔ کچھ لوگ جو مغرب سے خار رکھتے ہیں، وہ مغرب دشمنی میں اسے مشرق کا نجات دہندہ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ غرضیکہ کہ ہر ایک کے ذہن میں پوٹن کا اپنا الگ تصور ہے، جس کا شاید حقیقی پوٹن اور اس کی شخصیت اور ذات سے کوئی خاص تعلق نہ ہو۔
پوٹن کو سب سے زیادہ قریب سے جاننے والے سنجیدہ لوگوں کا کہنا ہے کہ پوٹن ایک پر اسرار کردار ہے، جس نے اپنی شخصیت کو ہزار پردوں میں چھپا رکھا ہے، اور کوئی بھی اسے جاننے کا دعوی نہیں کر سکتا۔ پوٹن اس وقت روس کی حکمران اشرافیہ کا سب سے طاقت ور ترین شخص ہے، اور تاریخی طور پر تو سابقہ سویت یونین کے ساتھ اس کا تعلق بھی بہت گہرا ہے۔خاندانی طور پر اس کا تعلق سوویت یونین کے عظیم انقلابیوں سے بھی جڑتا ہے۔ اس کا دادا ولادمیرلینن کا باورچی تھا۔ غالباً سوویت سوشلسٹ ریاست میں یہ اس کی مستقل نوکری تھی۔ چنانچہ لینن کے بعد اس نے سٹالن کے باورچی کے طور پر بھی کام کیا۔ اس کا بیٹا یعنی پوٹین کا باپ اس وقت کی سوویت خفیہ ایجنسی میں بھرتی ہو گیا۔ اس طرح پوٹن کا خاندانی تعلق اقتدار اور خفیہ ایجنسیوں سے جڑ گیا۔
پوٹن تعلیم و تربیت کے لیے لاء سکول میں گیا تھا۔ مگر قانون کی تعلیم اس نے وکیل بننے کے لیے حاصل نہیں کی، بلکہ کے جی بی میں ملازمت حاصل کرنے کے لیے کی۔ اس بات سے جڑا قصہ یہ ہے کہ پوٹن نے ایک ناول پڑھا جو جرمنی میں ایک جاسوس کے کارناموں کے بارے میں تھا۔ یہ ناول پڑھنے کے بعد پوٹن نے طے کر لیا کہ اس نے جاسوس بن کر ملک کی خدمت کرنی ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ ایک دن ٹہلتا ہوا لینن گراڈ پہنچ گیا، جہاں کے جی بی کے اہل کاروں نے اسے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کا مشورہ دیا، جس کے لیے وہ لا سکول میں داخل ہوگیا۔ الغرض ایک لمبی جدو جہد کے بعد پوٹین اس جاسوس ادارے میں بھرتی ہونے میں کامیاب ہو گیا۔
اس کی پوسٹنگ سرد جنگ کے عروج کے زمانے میں مشرقی جرمنی میں ہوگئی۔ یہاں اس کی ایک ذمہ داری یہ بھی تھی کہ وہ مشرقی جرمنی کی مختلف یونیورسٹیوں میں لاطینی امریکہ سے آئے ہوئے طلبہ میں گھل مل جائے، اور ان میں سے کام کے طلبہ کو کے جی بی کے لیے بھرتی کرے۔ یہ کام طلبہ کے ساتھ وقت گزارنے اور ان کے ساتھ امریکہ اور لاطینی امریکہ کی سیاست پر بحث مباحثے کا متقا ضی تھا۔ اس کام کی وجہ سے خود پوٹن کو دنیا کی سیاست کو بہت گہرائی سے سمجھنے کا موقع ملا۔
کے جی بی کے جاسوس کے طور پر اس کو نیٹو کے ممبران کے بارے میں بھی خفیہ معلومات حاصل کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس کام سے جو علم اور تجربہ اسے حاصل ہوا، وہ آج پوٹن کے لیے بہت بڑا اثاثہ ہے۔ پوٹن بر لن میں ہی تھا جب سوویت یونین ٹوٹا، اور اس ٹوٹ پھوٹ کے دوران جن لوگوں کو سخت ذلت، بے عزتی، اور صدمے سے گزرنا پڑا، ان میں پوٹن بھی شامل تھا۔ شاید یہی وہ وقت تھا جب اسے نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا۔
پوٹن جب سیاست میں آیا تو اس کا آبائی شہر لینن گراڈ اب پیٹرزبرگ بن چکا تھا۔ اس نے شہر کے میئر کے انتخابات میں قانون کے ایک سابق پروفیسر سوبچاک کی انتخابی مہم چلائی۔ جس کے بعد وہ خود دپٹی مئیر بن گیا۔ اگرچہ اس کے دور میں یہ شہر روس کے جرائم کے دارالحکومت کے نام سے مشہور ہوا ، مگر سیاست میں پوٹن کا داخلہ ہوچکا تھا، جو مختلف مراحل سے گزرتا ہوا صدارت تک پہنچا۔ اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس کے اقتدار کو دور دراز تک کوئی خطرہ نظر نہیں آتا۔
پوٹن کا خاندانی تعلق حکمران طبقات سے ہونے کے باوجود بقول اس کے اس کا بچپن بڑی غربت اور کسمپرسی کی حالت میں گزرا۔ بچپن میں اس کی ایک بڑی مصروفیت یہ تھی کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ اپنے اپارٹمنٹ میں دوڑتے ہوئے چوہے شکار کرنے میں لگا رہتا تھا۔ اس نے اپنی جوانی میں سوویت یونین میں سوشلزم کا عروج بھی دیکھا، جب انتہائی مختصر عرصے میں لاکھوں لوگوں کو غربت اور تنگ دستی سے نکال کر ایک خوشحال اور پر مسرت زندگی کے مواقع مہیا کیے گئے۔ اس نے گورباچوف کا گلاسنوسٹ، اور پرسٹرائیکا بھی دیکھا۔ اس نے اس کے بعد کے واقعات کو بھی بہت قریب سے دیکھا جب سوویت یونین ٹوٹ پھوٹ کر شکار ہوا، اور بورس یلسن نے پولینڈ کے نواح میں واقع ایک شکارگاہ میں بیٹھ کراس عظیم سلطنت کے خاتمے اور یوکرین جیسی ریاستوں کی آزادی کا اعلان کر دیا۔
پوٹن نے ان واقعات کو گہری تشویش سے دیکھا ضرور، مگر اس نے نہ سوشلزم کے نظریات سے اثر قبول کیا اور نہ ہی وہ گلاسنوسٹ اور پرسٹرائکا کے تحت سوشلسٹ جمہوریت کا حامی بن سکا۔ فیصلہ ساز کی حیثیت سے اس نے بہت عرصے تک یلسن کی پالیسیوں کو جاری رکھا، اور امریکہ اور یورپ کے ساتھ ہر معاملے میں بھر پور تعاون کیا۔ خاندانی سپاہی ہونے کے باوجود پوٹن یہ راز جاننے میں ناکام رہا کہ مغرب گوربا چوف سے کیے گئے وعدوں پر قائم رہنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا، اور نیٹو کو پھیلانے کا عمل جاری رہے گا، یہاں تک کہ نیٹو روس کے بیک یارڈ میں پہنچ گیا۔
اب جو اقدام پوٹن نے کیا ہے وہ اس کی ناراضی اور غصے کا اظہار ہے۔ پوٹن کوئی انقلابی یا سامراج دشمن مزاحمت کار نہیں، صرف ایک روسی قوم پرست ہے۔ جو اقتدار کے لیے جمہوریت کا گلا گھونٹ سکتا ہے۔ اس پر سیاسی مخالفین کو زہر دیکر مارنے سے لیکر سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے کے سنگین الزامات ہیں۔ پوٹن کو مشرق کا ہیرو بنانے سے پہلے ان حقائق کو مد نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔