اسلام بمقابلہ لبرل ازم

محمد شعیب عادل

0,111

تصویر میں برطانیہ میں مسلم بنیاد پرست گروپ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ایک پلے کارڈ لیے کھڑی ہے جس پر لکھا ہے کہ اسلام تمام نوع انسانی کے لیے مکمل نظام ہے۔

جب کہ’’روشن خیال ‘‘ مسلمان فرقوں یا گروہوں کا بھی یہی خیال ہے۔

خورشید احمد ندیم اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھتے ہیں کہ اسلام اور لبرلزم ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ ان کے مطابق اسلام سے زیادہ لبرل کوئی مذہب نہیں ہے اورنہ ہو سکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’ میرا احساس ہے کہ اہل مذہب اور لبرل مل کر ایک سماج تشکیل دے سکتے ہیں۔۔۔ مسئلہ صرف ایک نظام ریاست کی تشکیل کا ہے کہ وہ کس اتھارٹی کے تابع ہو گا؟ اس حوالے سے جمہوریت کا بنیاد بنایا جا سکتا ہے جس پر دونوں کا اتفاق ہے۔ اگر جمہور اپنی اجتماعیت کو مذہب کے تابع رکھنا چاہیں تو لبر ل ازم کے علم بردار کیا اسے قبول کر لیں گے؟‘‘۔

چونکہ آج کے جدید ترقی یافتہ دور میں لبرل ازم کے سکے کا چلن ہے اس لییخورشید احمد ندیم بھی اسلام کو ایک لبرل یا روشن خیال مذہب قرار دے رہے ہیں۔ یہ سوچ صرف ندیم صاحب کی ہی نہیں بلکہ ہر اس مسلمان کی ہے جو بدلتے زمانے کے ساتھ اسلام کو ساتھ لے کر چلنا چاہتا ہے ۔اسلام کی بدلتے حالات یا عقل کی بنیاد پر تشریح ہر دور میں ہوئی ہے۔ ماضی قریب میں سرسید احمدخان، مولوی چراغ علی ، خواجہ احمد الدین، عبداللہ چکڑالوی اور بعد میں علامہ رحمت اللہ طارق ،غلام احمد پرویز ، وغیرہ نے کی۔ایک گروہ کے نزدیک آج کل اس کے علمبردار جاوید احمد غامدی اور ان کے شاگرد ہیں جو اسلا م کی جدید تشریح کرتے ہیں۔ جاوید احمد غامدی اور ان کے شاگرد ہیں تو بنیاد پرست ہی مگر وہ اسلام کا غلبہ تلوار کی بجائے دعوت و تبلیغ کے ذریعے چاہتے ہیں۔اسی طرح غلام احمد پرویز اور ان کے پیروکار پوری دنیا پر قرآن کی حکومت کا خواب دیکھتے ہیں اورکچھ’’ عقل مند‘‘ اسلام کی روحانی فتح چاہتے ہیں۔

سرسید احمد خان نے بدلتے زمانے اور سائنس کی ترقی کے بعد اسلام پر ہونے والے اعتراضات کے جوابات عقل کی بنیاد پر دینے کی کوشش کی ۔ مثلاً واقعہ معراج ، جنات ،فرشتوں کے بارے میں توجہیات وغیرہ جنہیں سائنسی طور پر ثابت نہیں کیا جا سکتا تھا ۔انہوں نے اس کی تشریح اپنے زمانے کے حالات کے مطابق کی۔ غلام احمد پرویز نے اسی سوچ کو آگے بڑھایا۔ وہ اسلام کو مذہب کی بجائے دین کہتے تھے ۔ ان کے نزدیک مذہب اور دین میں فرق یہ ہے مذہب چند رسومات کا مجموعہ ہے اور دین ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ یعنی اسلام نہ صرف سیاسی بلکہ ایک کامل معاشی و سماجی نظام ہے۔ مگر اسلام کو اپنے زمانے کے مطابق روشن خیال مذہب سمجھنے والوں کی تعداد ہمیشہ قلیل ہی رہی ہے جبکہ عقل کے مقابلے میں نقل کرنے والوں کی اکثریت رہی ہے اور ان ہی کا نقطہ نظر غالب آتا ہے۔

جوں جوں زمانہ آگے بڑھتا ہے تو مذہب کی جامد تعلیمات پر تنقید ہوتی ہے۔سائنس کی ترقی نے کائنات سے متعلقہ بہت سے مذہبی نظریات کو باطل کردیا ۔ لہذا کچھ لوگ اسلام کی جدید تشریح نئے حالات کے مطابق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مسلم شمیم لکھتے ہیں کہ آج سے سو ڈیڑھ سو برس پہلے تک کے اسلامی لٹریچر میں اسلام بطور ایک سیاسی، معاشی اور سماجی نظام یا ضابطہ حیات جیسے الفاظ نہیں ملتے۔یہ اصطلاحات انڈسٹریلائزیشن کی دین ہے۔ انڈسٹریلائزیشن کے بعد مغربی معاشرے ایک ضابطہ حیات کے پابندہونا شروع ہوئے تو مسلمانوں کے ایک گروہ نے بھی اسلام کو ایک ضابطہ حیات قرار دینا شروع کر دیا۔

موجوددہ دور میں اگر چودہ سو سال پہلے کے رسوم ورواج جیسے کہ( اسلامی )سزائیں ہاتھ کاٹنا، سرقلم کرنا یا سنگسار کرنا اورکرنسی کی بجائے سونے چاندی کے سکے جاری کرنا وغیرہ نافذ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ترقی یافتہ دنیا مذاق اڑاتی ہے ۔ لہذ ایک گروہ کی طرف سے اسلام کو جدید ددور کے مطابق ڈھالنے کی کوششیں ہوتی ہیں جبکہ دوسرا گروہ انہی فرسودہ رسومات کو مقدس قراردینے پر اصرار کرتا ہے جیساکہ طالبان یا داعش وغیر ہ ہیں۔یاد رہے کہ مولانا مودودی کے بھی یہی نظریات ہیں۔

خورشید احمد ندیم کا کہنا ہے کہ ’’ لبرل ازم ایک جامد تصور نہیں ۔ اس کی ایک وجہ لبرل ازم کی اساس انسانی عقل پر ہے۔ عقل کا وظیفہ غور وفکر ہے جو ایک جاری عمل ہے‘‘۔مگر ساتھ ہی دوسری سانس میں فرماتے ہیں کہ ’’ مذہبی معاشرہ ( ظاہر ہے اسلامی معاشرہ) دراصل ایک لبرل معاشرہ ہوتا ہے‘‘ ۔مزید لکھتے ہیں کہ ’ ’’جن سماجی اقدار کو لبرل ازم سے منسوب کیا جاتا ہے وہ سب اسلام کے نظام اقدار میں موجود ہیں ۔ اگر یہ مقدمہ درست ہے تو پھر مذہب اور لبرل ازم میں کیا فرق ہے؟‘‘۔

اب وہ کونسی سماجی اقدار ہیں جو سب کی سب اسلام میں ہیں؟ خورشید صاحب نے اس کی وضاحت نہیں کی۔مثال کے طور پر اگر عورت کے متعلق ہی اسلامی اقدار کا جائزہ لیا جائے تو وہ انتہا ئی پسماندہ ہیں۔ عورت کو حقوق انڈسٹریلائزیشن کے بعد ملنا شروع ہوئے۔ آج جن انسانی حقوق کی بات کی جاتی ہے ا نڈسٹریلائزیشن سے پہلے ان کا کوئی وجود نہیں تھا۔ عورت کو ہمیشہ مرد سے کم تر اور رذلیل سمجھا گیا ہے۔جس کی واضح مثال جنت میں حوروں کا تصور ہے۔ آج کے جدید دور میں بھی اسلامی معاشرے میں عورت کا مقام دوسرے درجے کا ہے ۔ پچھلے پندرہ سو سالوں میں کسی بھی اسلامی حکومت نے عورتوں سے متعلقہ کوئی قوانین وضع نہیں کیے تھے یہ تو مغربی معاشرے ہیں جنہوں نے عورت کو برابری کے حقوق دیئے۔ حقوق دینے کا مطلب زبانی باتیں کرنا نہیں بلکہ قوانین وضع کرنا ہوتا ہے ۔

پاکستان میں عائلی قوانین جنرل ایوب نے نافذ کیے تھے جس کی مولانا مودودی سمیت تمام جید علماء کرام نے مخالفت کی تھی اور آج بھی ان قوانین پر عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔لہذا یہ کہنا کہ اسلام نے پندرہ سو سال پہلے ہی حقوق عطا کر دیئے تھے مبالغہ آمیزی کے سوا کچھ نہیں۔مسلمانوں کی تنگ نظری کا یہ عالم ہے کہ وہ دنیا کی ہر اچھی سیاسی، سماجی یا معاشی اقدار کا کریڈٹ کسی دوسرے مذہب یا سماج کو دینے کو تیار نہیں۔ اور ان کا اصرار ہوتا ہے کہ اسلام تو اس کی تعلیم بہت پہلے ہی دے چکا ہے۔کسی بھی نئی سائنسی دریافت یا ایجاد کومسلمان اپنے نام لگا لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن نے تو چودہ سو سال پہلے ہی یہ کہہ دیاتھا مگر یہ نہیں سوچتے کہ چودہ سو سال پہلے بھی لوگ قرآن پڑھتے تھے اس وقت کیوں نہ پتہ چلا؟

خورشید ندیم کا کہنا ہے کہ اگر جمہور اپنی اجتماعیت کو مذہب کے تابع رکھنا چاہیں تو لبرل ازم کے علم بردار کیا اسے قبول کرلیں گے؟ان کا مطلب یہ ہوا کہ اکاون فیصد جمہور جن کا مذہب اسلام ہے وہ باقی انچاس فیصد کے مذہبی وسیاسی جذبات کی پروا نہ کرتے ہوئے قرآن و سنت کے مطابق اسلامی نظام نافذ کر یں گے۔ اگر یہ شرح نوے فیصد بھی ہو توسوال یہ ہے کہ کیا یہ لبرل ازم کی روح کے خلاف نہیں کہ اپنے مذہب کو دوسروں پر ٹھونسا جائے ؟اسلام اور دوسرے مذاہب میں یہی بنیادی فرق ہے۔ کہ اسلام ایک سیاسی مذہب ہے اور دنیا پر اپنا غلبہ چاہتا ہے۔ اسی لیے اس کے پیروکار کسی اور نظام سے سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ۔

بنیاد پرست یہ غلبہ تلوار کے ذریعے حاصل کرنا چاہتے ہیں اور روشن خیال دعوت و تبلیغ و محبت کے ساتھ۔ ہر دو صورت میں مقصد ایک ہی ہے۔ جبکہ باقی مذاہب (مسیحیت، یہودیت ،ہندواور بدھ ازم) کے نزدیک لبرل یا بنیاد پرست کی بحث نہیں ہے۔ انہوں نے مذہب کو اپنی ذات تک محدود کر لیا ہے اور جمہوریت کو سیاسی نظام تسلیم کر لیا ہے جہاں تمام انسانوں کو چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب ، رنگ و نسل سے ہے ، قانونی طور پر برابر قرار دیے گئے ہیں۔

ایک بھارتی دانشور وکرم سود اپنے مضمون میں بھارت میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے متعلق لکھتے ہیں کہ’’ ہم ایک ہندو اکثریتی قوم ہیں لیکن ہم کبھی بھی اپنے ملک کو ہندو ریبپلک نہیں بنائیں گے، ہم برداشت کی بجائے عدم برداشت کا پرچار کر رہے ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم مذہبی ڈوگما سے باہر نکلیں کیونکہ ایک انتہا پسندی اور عدم برداشت دوسری انتہا پسندی کے قریب لے جاتا ہے‘‘۔جمہوریت اپنی روح میں ایک سیکولر نظام ہے یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ ساٹھ ستر فیصد مسلمان جمہوریت کے ذریعے برسراقتدارآ کر باقی تیس چالیس فیصد پر اسلامی نظام ٹھونسیں گے اور وہ بھی وہ نظام جس پر ان ساٹھ فیصد کا کبھی اتفاق نہیں ہو ا۔

جمہوریت آج کی دنیا کا بہترین سیاسی نظام ہے ۔لیکن کوئی بھی مسلمان گروہ اسے اپنانے پر تیار نہیں اور خلافت قائم کرنے کے خواب دیکھتا ہے بلکہ کئی گروہوں نے تو اپنی اپنی خلافت بھی قائم کر رکھی ہے۔ مسلمانو ں کو جمہوریت صرف اس وقت ہی اچھی لگتی ہے جب وہ اس کے ذریعے اقتدار میں آجائیں۔اقتدار میں آنے کے بعد وہ اسلام نظام کے نام پر خلافت قائم کرنے لگتے ہیں۔ مصر میں اخوان المسلمون یہی کرنے جارہی تھی کہ اس کی حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ ترکی میں طیب اردگان یہی کچھ کرنا چاہتے ہیں ۔ ان کا جمہوریت کے بارے میں کہنا ہے کہ یہ ایسی ٹرین ہے جب آپ کا مطلوبہ اسٹیشن آجائے تو آپ اترجائیں۔

خورشید صاحب جسمانی طور پر تو اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں اور ذہنی طور پر چودہویں صدی سے باہر نکلنے کو تیار نہیں۔ وہ بیک وقت لبرل ازم اور مُلا عمر دونوں کی مدح سرائی کرتے ہیں۔ بنیاد ی طور وہ کنفیوژن کا شکار ہیں اور لبرل ازم اور مذہب کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو لبرل بھی کہلوانا چاہتے ہیں اور مذہب کا سیاسی استعمال بھی کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ آج کی ترقی یافتہ قوموں نے تاریخ سے سبق حاصل کرکے یہ طے کر لیا ہے کہ مذہب ہر فرد کا ذاتی مسئلہ ہو گا اور جمہوریت ، سیکولر ازم جس کا لازمی حصہ ہے، ان کا سیاسی نظام قرار پایا ہے۔

3 Comments