سعودی عرب میں دہشت گرانہ حملوں پر پاکستان میں غم وغصے دیکھا گیا ہے۔۔ وزیرِ اعظم نواز شریف سمیت تمام سیاسی رہنماؤں نے ان حملوں کی بھر پور مذمت کی ہے۔ یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ کیا ریاض اپنی پالیسی تبدیل کرے گا؟
آرمی چیف راحیل شریف نے سعودی وزیرِ دفاع محمد بن سلیمان کو فون کر کے ان حملوں کی مذمت کی اور انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا۔ آرمی چیف نے سعودی شہزادے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف اِس جنگ میں اسلام آباد سعودی عرب کے شانہ بہ شانہ ہے۔
پاکستان کے زیادہ تر ٹی وی چینلز نے حملوں کی خبر کو ’بریکنگ نیوز‘ کے طور پر پیش کیا۔ کئی مذہبی شخصیات نے مسجدِ نبوی کے قریب حملوں کو انتہائی افسوس ناک قرار دیا۔ پاکستانی اخبارات نے بھی آج حملوں کی اس خبر کو شہ سرخیوں میں لگایا۔ تاہم ذرائع ابلاغ کے کچھ حصوں نے حملوں کی خبر کو غلط قرار دینے کی کوشش کی اور اس بات کو بھی نشر کرنے میں وقت لگایا کہ ایک حملہ آور پاکستانی تھا۔
سوشل میڈیا پر بھی اس خبر کا ہر جگہ چرچا ہے۔فیس بک پر ایک پاکستانی نے لکھا کہ سعودی حکومت کے ذرائع اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ مدینے میں حملہ ہوا ہے لیکن پاکستانی میڈیا اب بھی یہ تاثر دے رہا ہے کہ کچھ نہیں ہوا۔ ’اسے کہتے ہیں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار۔‘
ٹوئیٹر پر ایک خاتون نے لکھا جو کوئی بھی داعش کو اسلامی تنظیم کہتا ہے وہ یہ سمجھ لے کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ایک اور صارف نے لکھا کہ عرب پاکستان میں دہشت گردانہ حملے ’آرگنائز‘ کرتے رہے ہیں تو اس بات پر یقین کرنے میں دشواری کیوں ہو رہی ہے کہ سعودی عرب میں ہونے والے حملوں میں ایک خودکش حملہ آور پاکستانی تھا؟
کیا ’پراکسی‘ جنگیں جاری رہیں گی؟
ایک خاتون نے ٹوئیٹر پر لکھا کہ ’’میں سوچ رہی ہوں کہ اب سعودی عرب اپنے بھی گریبان میں جھانک کر دیکھے گا اور ان جہادی پالیسیوں پر سوال کرے گا جو اس نے خوداپنائی ہیں۔‘‘
کئی تجزیہ نگار ان آراء سے اتفاق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وفاقی اردو یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد نے ان حملوں پر اپنا ردِ عمل دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پوری دنیا میں سعودی عرب عسکریت پسندوں تنظیموں، قدامت پسند مذہبی گروپوں اور مدرسوں کی مالی معاونت کرتا رہا ہے۔ وہ پاکستان سمیت کئی ممالک میں ایران کے ساتھ ’پراکسی‘ جنگیں لڑتا رہا۔ تو اب وہی پالیسیاں سعودی عرب کے لیے عذاب بننے جارہی ہیں۔ اگر ریاض نے اپنی پالیسیاں تبدیل نہیں کیں تو اس سے مسلم دنیا اور سعودی عرب کو بہت نقصان ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سعودی عرب عسکریت پسند تنظیموں کی مالی معاونت بند کرے، قدامت پسند جماعتوں کی حمایت ترک کرے اور ملک میں جمہوری اداروں کے لیے راستہ ہم وار کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو ملک عدم استحکام سے دوچار ہوسکتا ہے۔‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’میرے خیال میں سعودی عرب کو پالیسیاں تبدیل کرنا پڑیں گی۔ اسے پاکستان کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف مشترکہ پالیسیاں بنانی چاہیئیں تاکہ ہم اس ناسور سے چھٹکارا پا سکیں‘‘۔
۔’اچھے، برے طالبان اور اچھے، برے داعش جنگ جو‘۔
لیکن علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکٹرمان میمن کے خیال میں ریاض کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ’’جس طرح پاکستان نے اچھے اور برے طالبان کی پالیسی اپنائی ہے، بالکل اسی طرح سعودی عرب اچھے اور برے داعش جنگ جوؤں کی تعریف لے کر چل رہا ہے۔ جو داعش جنگ جو سعودی پالیساں سے اختلاف کرتے ہیں وہ برے ہیں اور جو شام، ایران اور یمن میں سعودی مفادات کے لیے لڑتے ہیں وہ اچھے جنگ جو ہیں۔ لیکن ریاض کو یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ یہ کسی کے بھی نہیں ہوتے۔ پہلے آپ ان کی حمایت کرتے ہیں تو وہ خوش ہوتے ہیں لیکن جب آپ ان کے خلاف قدم اٹھاتے ہیں تو وہ اسے غداری سے تعبیر کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے پہلے طالبان بنائے لیکن جب ہم نے ان کے خلاف ایکشن لیا تو انہوں نے اسے غداری سے تعبیر کیا اور پاکستانی ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’میرے خیال میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات پر اس بات سے فرق نہیں پڑے گا کہ ایک حملہ آور پاکستانی تھا ۔کیوں کہ دونوں ممالک جہادی ’مائنڈ سیٹ‘ کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔ جہادی جغرافیائی حدود پر یقین نہیں رکھتے۔ ان کے ہاں امت کا تصور ہے، جس کو سعودی عرب سے بہتر کون سمجھتا ہے، کیوں کہ وہ اس تصور کو پروان چڑھانے والوں میں سے ہے۔ ہاں یہ ضرور ہوگا کہ بے چارے پاکستانی مزدوروں کے لیے سعود ی عرب میں مزید سختیاں کر دی جائیں گی۔ ان کے کاغذات کی چانچ پڑتال مزید سخت کر دی جائے گی، لیکن اس سے عسکریت پسندی کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ انتہا پسندی کے اسباب پر غور کرنا ہوگا اور پالیسیوں میں تبدیلی لانے پڑے گی‘‘۔
DW