حافظ سعید کی خانگی زندگی

راؤ شاویز نواز

Picture 410

پروفیسر حافظ محمد سعید کا شمار پاکستان کی ’جہادی تحریک‘کے اہم ترین رہنماؤں میں ہوتا ہے ۔ان کے’ جہاد ‘کا فوکس چونکہ بھارت ہے اس لئے پاکستان کی حکمران اشرافیہ کے نزدیک ان کا شمار ’اچھے جہادیوں‘ میں ہوتا ہے ۔

ایک وقت تھا جب پرو فیسر صاحب’ لشکر طیبہ ‘کے روح رواں ہوا کرتے تھے لیکن جب’ یہود ہنود کی سازشوں‘ کی بدولت لشکر پر پابندی عائد ہوگئی اور اسے بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا گیا تو حافظ سعید نے بھی اس فیصلے کا’ احترام ‘کرتے ہوئے اس سے علیحدگی کا اعلان کر دیا تھا۔

ان دنوں پروفیسر صاحب ایک اور جہادی تنظیم ’جماعت الدعوۃ‘کے سربراہ اور متعدد دینی جماعتوں کے اتحاد’ دفاع پاکستان کونسل‘ کے صف اول کے رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں ۔ ’جماعت الدعوۃ‘کا دعوی ٰہے کہ وہ نظری طور پر ’جہاد‘ اور عملی ’جہادی ‘سرگرمیوں کو درست تسلیم کر تی ہے لیکن موجودہ صورت حال میں حکمت عملی کے طور پر وہ ’جہادی‘ سے زیادہ خیراتی کاموں میں دلچسپی رکھتی ہے۔

 سنہ1947 میں حافظ صاحب کا خاندان مشرقی پنجاب سے نقل مکانی کرکے سرگودھا کے قریب چک 126جنوبی آبسا ۔ حافظ صاحب نے مڈل تک تعلیم اسی چک میں حاصل کی بعد ازاں وہ اپنے ماموں مولانا عبداللہ بہاولپوری کے ہاں بہاول پور چلے گئے اور وہاں سے انھوں گریجوایشن کی اور پنجاب یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم ۔اے کیا ۔

حافظ صاحب ابھی زیر تعلیم ہی تھے کہ ان کی ماموں زادمحترمہ میمونہ سے ان کی شادی کر دی گئی ۔عملی زندگی کا آغاز انھوں نے اسلامی نظریاتی کونسل سے بطور ریسرچ سکالر کیا تھا لیکن جلد ہی انھیں انجیئنرنگ یونیورسٹی میں لیکچرر شپ مل گئی ۔انھوں نے باغبانپورہ میں مکان کرائے پر لیااور اپنی زوجہ محترمہ میمونہ کو لاہور لے آئے ۔

محترمہ میمونہ کا خاندانی پس منظر بھی سلفی تھا اس لئے اپنے شوہر کی جہادی سرگرمیوں میں شرکت ان کے لئے کبھی بھی مسئلہ نہ بنی ۔ ان کے بیٹے حافظ محمد طلحہ کے مطابق ’ ان کا جہاد کشمیر میں خصوصی کردار رہا ۔ تقریباً ہر سال متعدد مرتبہ معسکرات(جہادی ٹریننگ کیمپسکا دورہ کرتیں۔پہاڑ چڑھتے چڑھتے تھک جاتیں حتی کہ معسکر پہنچ جاتیں‘ صفحہ28)۔

ام طلحہ ( محترمہ میمونہ)’ افغانستان پر روس کے حملہ کے ساتھ ہی حافظ صاحب کے شانہ بشانہ )مجاہدین کی ہر ممکن مدد کرتی رہیں ۔افغانستان میں روس نے انڈیا کے ساتھ مل کر ایک چھاؤ نی بنائی تھی جہاں سے انڈین عورتیں مجاہدین اسلام پر فائرنگ کیا کرتی تھیں ۔ ایک دن مجاہدین نے دیکھا کہ آپا جی عرب عورتوں کا قافلہ لے کر آئیں ، ساتھ ہی طلحہ سعید اور پوری فیملی بھی تھی ۔آپا جی اور طلحہ سعید پر گرد و غبار پڑا ہوا تھا ۔ ایک بھائی آگے بڑھ کر طلحہ کے چہرے سے مٹی صاف کرنے لگا تو آپا جان نے کہا بیٹا اس کو صاف نہ کر ،یہ جہاد کی مٹی ہے ‘صفحہ( 128)۔

محترمہ میمونہ کا تحریکی نام ام طلحہ تھا بیٹے کے نام کی نسبت سے وہ ام طلحہ کہلاتی تھیں لیکن جماعت میں وہ آپا جی کے نام سے پکاری اور جانی جاتی تھیں۔آپا جی ام طلحہ کی 2014 میں وفات کے بعد ان کی جہادی تحریک کے لئے خدمات کے حوالے سے لکھے گئے مضامین کو حافظ ثناء اللہ خاں نے آپا جی ام طلحہ شخصیت ، حیات اور خدمات کے عنوان سے مرتب کیا ہے اور دارالاندلس اردو بازار لاہور نے شائع کیا ہے ۔

کتاب کے ناشر جاوید الحسن صدیقی لکھتے ہیں کہ ’ جیسے ہی لڑکپن سے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئیں ۔جس کے بعد ایک کٹھن اور محنت و مشقت سے بھرپور تحریکی زندگی کا آغاز ہو ا‘۔لیکن جوں جوں جہادی کام آگے بڑھتا رہا حافظ صاحب کے ارد گر د اور اندرون خانہ خوش حالی اور فارغ البالی آتی چلی گئی اور ایک موقع ایسا بھی آیا کہ حافظ صاحب نے اپنے ڈرائیور کو طلب کیا اور ’ آپا جی کی گاڑی کی چابی دے کر کہا عبدالسلام بیٹا ۔یہ گاڑی اب آپ نے چلانی ہے ‘۔یہاں سے میرا آپا جی کے ساتھ سفر شروع ہوا ۔(صفحہ99)۔

Hafiz-Saeed-Horse

۔ ’آپا جی ہمیں اکثر بتایا کرتی تھیں کہ جماعت الدعوہ کی بنیاد رکھی گئی تھی تو اس وقت ابتدا میں نہ وسائل تھے اور نہ دفاتر ‘۔صفحہ(103)لیکن جہاد کی برکت سے فی الوقت جماعت الدعوۃکا 70 ایکٹر پر محیط مرید کے میں ہیڈ کوارٹر اورلاہور کی پرائم لوکیشن چوبرجی پر القادسیہ کے نام سے قلعہ نما مرکز ہے ۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں بالعموم اور پنجاب کے متعدد شہروں میں بالخصوص کئی درجن تعلیمی اور طبی ادارے جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی زیر نگرانی چل رہے ہیں ۔ بیرون ملک تو حافظ صاحب بوجوہ سفر نہیں کرتے لیکن اندرون ملک ان کا سفر عام طور پر ہوائی جہاز ہی سے ہوتا ہے۔ 

پروفیسر حافظ محمد سعید نے کتاب کا دیباچہ لکھا ہے ۔حافظ صاحب رقم طراز ہیں ’رخصتی (میمونہ کے ساتھ شادی کے بعد )کے لئے ایک چھوٹے لوہے کے بکسے میں کپڑوں کے چند جوڑے رکھے۔۔تانگا منگوایا ۔غالبا پچاس روپے مجھے دیے اور کہا کہ میں بیٹی کا جوتا نہیں خرید سکا تم سر گو دھا جا کر اس کا جوتا خرید لینا ۔ایک پرانی چپلی میمونہ نے پہن رکھی تھی اور ٹوپی والا سفید برقع ‘(صفحہ 14)۔ حافظ صاحب کو افسوس ہے کہ اب یہ برقع ہمارے گھروں میں نہیں رہا اورہم اس(اخلاقیتربیت سے محروم ہوگئے ہیں ۔

حافظ صاحب نے ابتدائی طور پر یونیورسٹی کے پاس باغبانپورہ میں ایک گھر کرائے پر لے کر اپنے جہادی مشن کا آغاز کیا ۔ جس محلے میں انھوں نے گھر کرایہ پر لیا’ اس کے قریب ہی مادھولال حسین کا مزار شرک کا بہت بڑا اڈہ تھا اور دوسری جانب مزار بابا شاہ عبدالغنی تھا ، ان مزاروں پر عرس اور میلوں کی بھر مار رہتی تھی ۔پورا علاقہ جہالت اور شرک کی پستی میں گھرا ہوا تھا ‘(صفحہ 32)۔

حا فظ صاحب ایک سے زائد بیویا ں رکھنے کے حق میں ہیں اور اس کی تائید سنت نبوی سے حاصل کرتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ ’آخری دنوں میں مجھے ام طلحہ )کہنے لگی کہ ایک شہید کی بیوہ ہے ۔ اس کا بھائی بھی شہید ۔تین بچوں کی ماں ہے ۔تم اس سے شادی کرلو وہ جماعتی اور دینی امور میں تمھارا ساتھ دے گی ‘ (صفحہ23)۔

مزید لکھتے ہیں کہ ’ ایک دن جب میں گھر پہنچا تو دیکھا کہ میری بیوی نے دوسری دونوں بیویوں کو اپنے پاس بٹھایا ہوا ہے ۔بڑی محبت سے انھیں گھر اور جماعت کے امور سمجھا رہی ہے۔ عزت اور وقار کا سبق پڑھا رہی ہے۔بعض خواتین ان چیزوں تعدد ازدواج)پر ام طلحہ سے ناراض بھی ہوتی تھیں لیکن وہ کہتی کہ ہمیں اپنے نبی کے گھر کی طرف دیکھنا چاہیے ۔صرف نماز روزہ ہی کافی نہیں سارے دین پر عمل کرنے سے ہی سر خرو ہوں گے ۔معاملات اور اخلاقیات دین کا بڑا حصہ ہیں جیسے نماز روزہ نبی ﷺ کے طریقے پر ہونے چاہییں ایسے ہی گھریلو اور خاندانی امور بھی نبیﷺ کی سنت کے مطابق ہونے چاہییں‘ (صفحہ 23 )۔

حافظ صاحب ایک سے زائد بیویا ں کا جواز کس طرح دیتے ہیں یہ قابل غورہے۔(شنید ہے کہ محترمہ ام طلحہ کی وفات کے بعد حافظ صاحب نے ایک اور شہید کی بیوہ سے سے شادی کرلی ہے اور ان کی منکوحہ بیویوں کی تعداد ایک دفعہ پھر تین ہوگئی ہے )۔

جواز خواہ کوئی بھی ہو ہمارے معاشرے میں پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی کو اچھا خیال نہیں کیا جاتا اورشائد یہی وجہ ہے کہ حافظ صاحب کی ایک سے زائد بیویوں کا مسئلہ ایک سے زائد مرتبہ کتاب میں ابھرتا ہے ۔’آ پا جی ام طلحہ صاحبہ سے حافظ صاحب کی شادیوں کے حوالے سے عورتیں تبصرے اورسوالات کرتیں ۔کئی عورتیں بہت ہی طنزیہ باتیں بھی کر جاتیں لیکن ان کا جواب یہی ہوتا کہ میں نے صبر کرنا اور اپنی عاقبت بنانی ہے‘(صفحہ 46)۔

ایک اور جگہ حافظ صاحب کی ایک سے زائد شادیوں کے حوالے سے ام طلحہ اپنی تشویش کا اظہار کچھ اس طرح کرتی ہیں،’بشریٰ میں بہت پریشان تھی ، تم نے تو سنا ہی ہوگا کہ حافظ صاحب نے شادی(ایک اور کر لی ہے ۔شیطان طرح طرح کے وسوسے ڈال رہا تھا ۔ اب میں نے ایک کام شروع کیا ہے کہ صبح تہجد کے بعد میں نے قرآن کی آیت ’ اور انھیں ان کے صبر کرنے کے عوض جنت اور ریشم کا بدلا عطا فرما ‘ کثرت سے پڑھنا شروع کر دی ہے‘ ۔

سرگرم جہادی ہونے کے باوجود ام طلحہ اول و آخر ایک عملیت پسند خاتون نظر آتی ہیں۔ جب بیٹی کی شادی کا مرحلہ آیا تو ’انھوں نے بتایا کہ حافظ صاحب حمیرا(بیٹی کی شادی کسی عرب مجاہد سے کرنا چاہتے تھے جو سعودی عرب سے جہاد کے لئے افغانستان آیا ہوا تھا ۔لیکن میں نے میمونہ ام طلحہ سے کہا کہ میمونہ ہماری ایک ہی بیٹی ہے ، کل کو کیا ہونا ہے اللہ ہی جانتا ہے لہذا انھوں نے خالد ولید کی والدہ سے جو قریبی عزیز تھیں ان کو بلایا اور کہا کہ ہم حمیر ا کا نکاح خالد سے کرنا چاہتے ہیں ۔ اور اس طرح دو چار دن بعد نکاح ہوگیا ‘(صفحہ 39 )۔

شادی کے وقت پرانی چپلی اور ٹوپی والا برقع پہننے والی میمونہ جب ا م طلحہ بنیں توان کے طرز زندگی اور بود وباش میں انقلابی تبدیلیاں نمودار ہوئیں۔ ’آپا جی خوش لباس اور عمدہ ذوق رکھنے والی خاتون تھیں ۔کڑے چوڑیاں اور انگوٹھیاں پہنتی تھیں ‘۔ (صفحہ 60)اور آپا جی اچھی بات کرتیں ، اچھی خوراک کھاتیں اور اچھا لباس پہنتی تھیں ۔طبیعت میں نفاست اور سلیقہ بہت تھا ۔ زیورات کا بہت شوق تھا‘۔(صفحہ 96)۔

حافظ صاحب کی شادیوں کا ذکر کتاب میں بار بار ملتا ہے ۔ ’فیملی ‘میگزین کو دیئے گئے انٹرویو میں جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ حافظ صاحب کی دوسر ی شادی کے حوالے سے ان کا رد عمل کیا تھا ؟ تو ام طلحہ کہتی ہیں ’جب حافظ صاحب نے دوسر ی شادی کی تھی تو ایک عورت ہونے کے ناتے جذباتی لحاظ سے ایک دھچکا ضرور لگا تھا ‘۔
یہ مضامین حافظ سعید اور ان کی خانگی زندگی اور ہماری جہادی لیڈر شپ کے ذہن و مزاج کو سمجھنے کا مواد فراہم کرتے ہیں ہیں۔ تقدیس کے نکتہ نظر سے لکھے گئے مواد میں معروضیت کا عنصر ہمیشہ مفقو د ہوتا ہے ۔ اور یہ مضامین چونکہ ایک مرحوم ہستی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ہی لکھے گئے ہیں۔

لہذا ان میں مبالغہ آرائی اور فرضی قصوں اور واقعات کا در آنا قدرتی امر ہے ۔ کچھ مضامین میں تو ایسے دعاوی کئے گئے ہیں جو خو د ساختہ اور فرضی ہیں جیسا کہ آپا جی ام طلحہ کے والد محترم مولانا عبد اللہ بہاولپوری کا شمار قائد اعظم کے قریبی نوجوانوں میں ہوتا تھا ۔اس کتاب کا فوکس عام قاری کی بجائے جماعت الدعوۃ کے اراکین اور متفقین ہیں ۔


Comments are closed.