چین کے افغان طالبان سے براہ راست مذاکرات

0,,18835371_303,00

مختلف ممالک کی طرف سے پاکستان پر عدم اعتماد کا اظہا ر کرنے کے بعد چین نے براہ راست طالبان سے مذاکرات شروع کردیئے ہیں تاکہ افغانستان میں طالبان کی طرف سے جاری قتل و غارت کا سلسلہ بند ہو سکے اور وہ بھی اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔

یاد رہے کہ افغانستان میں چین اور بھارت کی طرف سے مختلف شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری ہورہی ہے جو طالبان کی دہشت گردی کی کاروائیوں کی وجہ سےتعطل کا شکار ہو جاتی ہے۔

مبصرین کے مطابق چین کا طالبان سے براہ راست مذاکرات کرنا، پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لیے ایک اور دھچکا ہے اور پاکستان کی سفارتی تنہائی میں اضافہ بڑھتا جارہا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان کی طرف سے افغانستان کو بھارت سے تجارت کے لیے راستہ فراہم نہ کرنے پر بھارت ، ایران اور افغانستان کے درمیان ایک سٹریٹجک معاہدہ بھی ہوا ہے جس کے تحت تینوں ممالک آپس میں مختلف شعبوں میں باہمی تجارت اور تعاون میں اضافہ کررہے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق افغان طالبان کے ایک وفد نے ایک مرتبہ پھر چین کا دورہ کیا ہے۔ مغرب کی حمایت یافتہ کابل حکومت کے خلاف لڑنے والے طالبان کے اس دورے کا مقصد افغانستان کی موجودہ صورتحال سے متعلق مذاکرات کرنا تھے۔

نیوز ایجنسی رائٹرز نے اپنے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ افغان طالبان کے ایک وفد نےعباس ستانکزئی کی قیادت میں رواں ماہ کے آغاز پر چین کا دورہ کیا ہے۔ عباس ستانکزئی قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ہیں۔ طالبان کے ایک سینئر رہنما کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ یہ وفد اٹھارہ سے بائیس جولائی تک دارالحکومت بیجنگ میں رہا جبکہ طالبان کو اس دورے کی دعوت چینی حکومت کی طرف سے دی گئی تھی۔

رائٹرز نے طالبان کے اس سینئر رہنما کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، ’’مختلف ممالک کے ساتھ ہمارے بہت ہی اچھے تعلقات ہیں اور چین ان میں سے ایک ہے‘‘۔

اس طالبان کمانڈر کا مزید کہنا تھا، ’’ہم نے چینی حکام کو جارحیت پسند اور قابض فوجوں کے بارے میں اور ان کی طرف سے افغان عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کے متعلق بتایا ہے‘‘۔

اس دورے کے مقصد کے بارے میں اس لیڈر کا مزید کہنا تھا، ’’ہم چاہتے ہیں کی چینی قیادت ہماری مدد کرے اور اس مسئلے کو دنیا کے مختلف فورمز پر اٹھایا جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ چین قابض فوجوں سے آزادی کے لیے ہماری مدد کرے‘‘۔

اسی طرح طالبان کے ایک دوسرے سینئر رہنما نے بھی رائٹرز کو ان خبروں کی تصدیق کی ہے۔ اس طالبان لیڈر کا بھی کہنا تھا کہ اس کا نام شائع نہ کیا جائے کیوں کہ ابھی تک قطر میں ان کے سیاسی دفتر کی جانب سے انہیں باقاعدہ طور پر میڈیا سے گفتگو کی اجازت نہیں ملی ہے۔ دوسری جانب چین کی وزارت خارجہ نے بھی ابھی تک اس ملاقات کی تصدیق نہیں کی ہے۔

پاکستان، امریکا، چین اور افغانستان اس چہار فریقی گروپ کا حصہ ہیں، جس نے رواں برس کے آغاز پر طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کرنے کی کوششیں شروع کی تھیں۔

لیکن ان کوششوں کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا تھا اور امن مذاکرات کا سلسلہ اس وقت ٹوٹ گیا تھا، جب طالبان کے سابق سربراہ ملا محمد اختر منصور کو مبینہ طور پر ایران سے پاکستان آتے ہوئے امریکا نے ایک ڈرون حملے کے ذریعے ہلاک کر دیا تھا۔

دوسری جانب طالبان اس کوشش میں بھی ہیں کہ وہ افغانستان کے ہمسایہ ملکوں کو یہ یقین دلائیں کہ وہ ان کے لیے خطرہ نہیں ہیں۔ ماضی میں طالبان یہ بیان بھی جاری کر چکے ہیں کہ وہ اپنے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔

News Desk/DW

Comments are closed.