پاکستان : جہاديوں کو زلزلے سے متاثرہ علاقوں ميں امدادی کام کی اجازت کيوں؟

1446143828_144614382857581_82

تجزيہ نگار عارف جمال ڈی ڈبليو سے خصوصی گفتگو ميں يہ بتاتے ہيں کہ پاکستانی حکام زلزلے سے متاثرہ علاقوں ميں جہادی تنظيموں کو امدادی سرگرميوں کا حصہ کيوں بننے دے رہے ہيں اور اس سے خطے کی سلامتی کو کيوں شديد خطرات لاحق ہيں۔

پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق وفاقی حکومت نے جماعت الدعوۃ کی کوریج پر پابندی عائد کر دی ہے۔ جماعت الدعوۃ اقوام متحدہ کی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں بھی شامل ہے اور وزارت داخلہ کے مطابق پابندی کا یہ فیصلہ بھی اسی وجہ سے کیا گیا ہے۔

قبل ازيں پاکستانی وزير اطلاعات پرويز رشيد کے اس اصرار کے باوجود کہ کالعدم جنگجو گروپوں کو زلزلے سے متاثرہ علاقوں ميں امدادی سرگرميوں کی اجازت نہيں، کئی رپورٹوں ميں يہ انکشاف کيا جاتا رہا ہے کہ چند جہادی تنظيموں کی جانب سے متاثرين کی امداد کا سلسلہ جاری ہے۔

جماعت الدعوۃ، جو اقوام متحدہ کے مطابق کالعدم تنظيم لشکر طيبہ سے منسلک تنظيم ہے، ايسا ايک گروپ ہے، جو ان دنوں زلزلے سے متاثرہ شمالی علاقوں ميں سرگرم ہے۔ لشکر طيبہ پر بھارتی زير انتظام کشمير ميں اکثر دہشت گردانہ کارروائياں کرانے کا الزام ہے۔ اس کے علاوہ ممبئی ميں 166 افراد کی ہلاکت کا سبب بننے والے 2008ء کے خونريز حملوں کا الزام بھی اسی تنظيم کے سر ہے۔

چھبيس اکتوبر کو شمالی افغانستان اور پاکستان کے کئی علاقوں ميں آنے والے ريکٹر اسکيل پر 7.5 شدت کے زلزلے کے نتيجے ميں دونوں ممالک ميں تين سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہيں۔ ذرائع ابلاغ پر نشر کردہ رپورٹوں کے مطابق زلزلے کے بعد جائے وقوعہ پر پہنچنے والی پہلی امدادی ٹيموں ميں جماعت الدعوۃ کے ارکان بھی شامل تھے۔ انسانی حقوق کی چند تنظيموں کا کہنا ہے کہ اس وقت بھی اس تنظيم سے تعلق رکھنے والے دو ہزار سے زائد رضاکار آزادی کے ساتھ متاثرہ علاقوں ميں امدادی سرگرميوں ميں حصہ لے رہے ہيں۔ اس دوران يہ رضاکار پاکستانی سويلين حکومت اور فوج کے ساتھ روابط بھی برقرار رکھے ہوئے ہيں۔

امريکی صدر باراک اوباما کے ساتھ حال ہی ميں واشنگٹن ميں ہونے والی ملاقات ميں پاکستانی وزير اعظم نواز شريف نے اوباما کو يقين دہانی کرائی تھی کہ لشکر طيبہ اور اس کے رہنماؤں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ اس کے برعکس جس آزادی کے ساتھ جماعت الدعوۃ کے ارکان متاثرہ علاقوں ميں سرگرميوں ميں حصہ لے رہے ہيں، وہ کسی اور ہی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔ يہ صورتحال پاکستان کی جانب سے بھارت مخالف جنگجوؤں کے خلاف کارروائی ميں عدم دلچسپی کی بھی نشاندہی کرتی ہے۔

ڈی ڈبليو کے ساتھ خصوصی انٹرويو ميں امريکا ميں مقيم صحافی اور متعدد کتابوں کے مصنف عارف جمال دعویٰ کرتے ہيں کہ جماعت الدعوۃ پاکستانی فوج کا ’پسنديدہ جہادی گروپ‘ ہے، جسے فوج بھارت کے خلاف استعمال کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

ڈی ڈبليو : حاليہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں ميں جہادی تنظيميں کتنی فعال ہيں؟

عارف جمال : پاکستان ميں تمام جہادی تنظيموں کے امدادی ادارے بھی ہيں، جو قدرتی آفات کی صورت ميں متاثرہ علاقوں ميں امدادی سرگرميوں ميں حصہ ليتے ہيں۔ قدرتی آفات فنڈز جمع کرنے اور نئی بھرتياں کرنے کے ليے اچھے مواقع فراہم کرتی ہيں۔ معمول کے حالات ميں بھی يہ تنظيميں امدادی کارروائيوں کے ذريعے فنڈز اکھٹا کرنے اور نئی بھرتياں کرنے کے عمل ميں مصروف رہتی ہيں۔ اس دوران يہ اپنے نظريات اور جہادی سوچ کو فروغ بھی ديتے ہيں۔

ڈی ڈبليو : جماعت الدعوۃ ايک امدادی تنظيم ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، ايسے ميں اس تنظيم کو ان افراد کی مدد کی اجازت کيوں نہيں دينی چاہيے جنہيں اس وقت مدد درکار ہے؟

عارف جمال : جماعت الدعوۃ دراصل سياسی و مذہبی تنظيم ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اور فلاح انسانيت فاؤنڈيشن (FIF) اسی کا ايک حصہ ہے، جو امدادی کاموں ميں سرگرم ہے۔ تاہم پاکستان ميں فوج نواز ميڈيا جماعت الدعوۃ کو ايک امدادی تنظيم کے طور پر دکھانے پر تُلا ہوا ہے، جو کہ حقيقت نہيں۔ جماعت الدعوۃ کی جانب سے اس تاثر کو مسترد اِس ليے نہيں کيا جاتا کيونکہ فوج نواز ميڈيا کی طرف سے پھيلايا جانے والا يہ تاثر اس تنظيم کے حق ميں جاتا ہے۔ تنظيم در حقيقت جہادی نظريات کے فروغ اور لوگوں کو اپنے مذہبی نظريات کی طرف راغب کرنے جيسی اپنی ديگر سرگرميوں کے مقابلے ميں فلاحی اور امدادی سرگرميوں ميں زيادہ حصہ ليتی ہے۔

ڈی ڈبليو : کيا متاثرہ علاقوں ميں جماعت الدعوۃ ديگر مذہبی تنظيموں کے مقابلے ميں زيادہ سرگرم ہے؟

عارف جمال : پچھلے کچھ سالوں ميں يہ کافی بڑی تنظيم کے طور پر سامنے آئی ہے، جس کے ارکان کی تعداد تقريبا نصف ملين ہے۔ پاکستان ميں فعال تمام ديگر جہادی تنظيموں کو اگر ملا بھی ديا جائے، تو ان کی تعداد جماعت الدعوۃ کے ارکان سے کم ہے۔ يہی وجہ ہے کہ يہ ديگر ايسی تنظيموں کے مقابلے ميں زيادہ بڑی نظر آتی ہے۔

ڈی ڈبليو : زلزلے سے متاثرہ متعدد افراد نے ذرائع ابلاغ کو مطلع کيا کہ جماعت الدعوۃ کے ارکان نے امداد کا کام سرکاری اور فوجی اہلکاروں کے متاثرہ علاقوں تک پہنچنے سے پہلے ہی شروع کر ديا تھا۔ ان کے نيٹ ورک کو اتنا کارآمد کيا چيز بناتی ہے؟

عارف جمال : يہ سچ ہے۔ ہم نے ديکھا تھا کہ جماعت الدعوۃ کے رضاکاروں نے سن 2005 ميں آنے والے زلزلے کے بعد بھی کافی جلدی امدادی کام شروع کر ديا تھا۔ اس کی ايک وجہ يہ ہے کہ يہ تنظيم ديہاتی علاقوں کی سطح پر کافی منظم ہے۔ کسی قدرتی آفت کی صورت ميں تنظيم کے کارکنان پہلے ہی سے وہاں موجود ہوتے ہيں۔ ايک اور وجہ يہ بھی ہے کہ غير مذہبی امدادی تنظيموں کو زلزلے سے متاثرہ علاقوں ميں کام کرنے کے ليے فوج کی اجازت درکار ہوتی ہے اور يہ رعايت ہر کسی کو نہيں دی جاتی۔ مغربی صوبہ بلوچستان جيسے ملک کے کچھ حصوں ميں لبرل يا آزاد خيال تنظيموں کو کام کرنے کی بالکل ہی اجازت نہيں کيونکہ وہ ان علاقوں ميں عليحدگی پسندوں کے خلاف فوجی آپريشن ميں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں کا پردہ فاش کر سکتے ہيں۔

ڈی ڈبليو : اقوام متحدہ کے مطابق جماعت الدعوۃ لشکر طيبہ سے منسلک ہے؟ آپ اس بارے ميں کيا موقف رکھتے ہيں؟

عارف جمال : زيادہ موزوں يہ کہنا ہو گا کہ لشکر طيبہ جماعت الدعوۃ کا وہ حصہ ہے، جس کا مقصد بھارتی زير انتظام کشمير ميں جہاد کرانا ہے۔ اس ايک علاوہ ’انٹرنيشنل افيئرز ڈپارٹمنٹ‘ نامی ايک اور محکمہ يا حصہ، جس کی سربراہی عبدالرحمان مکی کر رہے ہيں، عالمی سطح پر جہاد سے منسلک سرگرمياں ديکھتا ہے۔ ممبئی ميں 2008ء ميں ہونے والے حملے لشکر طيبہ اور جماعت الدعوۃ کے ’انٹرنيشنل افيئرز ڈپارٹمنٹ‘ کی مشترکہ کارروائی تھی۔

ڈی ڈبليو : پاکستانی فوج اور حکومت اس بات سے بے فکر کيوں ہيں کہ وہ ايک ايسی تنظيم کے ساتھ کام کر رہے ہيں، جس کے خلاف اقوام متحدہ نے پابندياں عائد کر رکھی ہيں؟

عارف جمال : عالمی سطح پر دہشت گرد تنظيم قرار دی جانے والی جماعت الدعوۃ پاکستانی فوج کی چہيتی تنظيم ہے۔ امريکا ميں 9/11 کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد پاکستان ميں ديوبندی شدت پسند گروپ فوج کے خلاف ہو گيا تھا کيونکہ اس نے افغانستان ميں طالبان کو ترک کر کے امريکا کا ساتھ دينے کا فيصلہ کر ليا تھا۔ جماعت الدعوۃ البتہ پاکستانی فوج کے ساتھ روابط برقرار رکھے رہی۔ اس پيش رفت سے انہيں کافی فائدہ بھی پہنچا اور 2001ء کے بعد تنظيم کی سرگرميوں ميں کافی اضافہ ديکھا گيا۔ جب تک پاکستانی فوج جہاد کے عنصر کو ملکی دفاعی پاليسی ميں استعمال کرتی رہے گی، اس وقت تک اس کا امکان کم ہی ہے کہ فوج جماعت الدعوۃ کا ساتھ چھوڑے۔

ڈی ڈبليو : لوگوں کو ريليف دينے کے معاملے ميں اگر سويلين حکومت کے مقابلے ميں جماعت الدعوۃ جيسی تنظيميں زيادہ کارآمد ثابت ہوئيں، تو يہ صورتحال ايک رياست کی صلاحيت کے بارے ميں کيا کہتی ہے؟

عارف جمال : اگرچہ سويلين حکومت کو اس کی ذمہ داری سے خارج نہيں کيا جا سکتا تاہم پاکستان ميں قومی بجٹ کا ايک بڑا حصہ دفاع پر خرچ کيا جاتا ہے۔ حتٰی کہ ريٹائرڈ فوجی افسروں کی تنخواہيں بھی سويلين بجٹ سے ادا کی جاتی ہيں۔ پاکستان رينجرز فوج کا ايک محکمہ ہے، جس کی سربراہی ايک فوجی جنرل کر رہے ہيں، ليکن اس کے اخراجات شہری اٹھاتے ہيں۔ اس سب کچھ کے بعد قدرتی آفات سے نمٹنے والے سويلين اداروں کے پاس کچھ زيادہ نہيں بچتا۔ پاکستانی عوام فوج کے خود ساختہ نيشنل سکيورٹی اسٹيٹ کے نظريے سے لگاؤ کی قيمت ادا کر رہے ہيں۔

Comments are closed.