لبرل ڈیمو کریسی کا فکری دائرہ کار

محمدحسین چوہان

آزاد خیال جمہوریت کا آغاز مغربی ممالک میں اٹھارویں صدی میں صنعتی ترقی کے ساتھ ہو گیا تھا،اور انیسویں و بیسویں صدی میں لبرل ڈیمو کریسی یا سوشل ڈیمو کریسی ایک مقبول عام سیاسی فلسفے کی شکل اختیار کر چکی تھی جس کا مقابلہ ایک طرف کمیونزم و سو شلزم سے رہا ا ور دوسری طرف آمریت، بادشاہت اور موروثی وخاندانی طرز حکومتوں سے بھی اس کو نبرد آزما ہونا پڑا۔اپنے نظام فکر میں تمامتر اصلاحات و تبدیلی کے با وجود زمام کار امرا و سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ہی رہی اور دنیا بھر میں یہ ایک مقبول ترین سیاسی فلسفے کے طور پر کامیاب بھی ہے۔

فکری ونظری لحاظ سے اس کو بہت سے چیلنجوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔علمی و فلسفیانہ سطح پر اس میں تضادات و تنا قصات کی بھی نشاندہی کی گئی۔مگر مغربی دنیا میں اس کی کامیابی کی بنیادی وجہ اصلاحات اور تبدیلی کا مسلسل عمل ہے،جس سے عوام میں اس کو مسلسل پذیرائی ملتی رہی ورنہ مارکسزم کے علم و انسان دوست انقلابی فلسفے کا مقابلہ کرنے کی اس میں سکت نہیں تھی۔دوسری اہم بات لبرل ڈیمو کریسی بھیانک سرمایہ داری کی نمائندہ نہیں رہی۔اصلاحات کے عمل نے اگر اسکو سوشلزم جیسا نہیں بنایا مگر اس کو سوشلزم کے ضرور قریب کر دیا،جس میں حقوق و فرائض کا ایسا تناسب قائم کر دیا،جہاں شہریوں کو شخصی آزادی،آزادیٗ رائے،آزادی ضمیر، سماجی انصاف ،انفرادیت،مذہبی رواداری اور آزاد تجارت کے حقوق حاصل ہوئے وہاں قانون کا احترام اور بالا دستی کو بھی یقینی بنایا گیا،فرد کی آزادی کو دوسروں کی آزادی سے بھی مشروط کیا گیا۔اقلیتوں کے حقوق اور مذہبی رواداری کو قانون کا حصہ بنایا گیا۔

طبقاتی جنگ کے بر عکس طبقات کے درمیان تفریق کم کرنے کی کامیاب کو ششیں کی گئیں۔شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ان کے سماجی تحفظ کو یقینی بنایا گیا۔فرد کے حق انتخاب کو اس کا فطری اور پیدائشی حق قرار دیا گیا۔تبدیلی کو انقلابی شکل دینے کی بجائے تدریجاً اس کا نفاذ کیا گیا۔حکومتی اور سیاسی معاملات میں عقلیت پسندی اور مثالی آدرشوں کے بر عکس علمی و تجربی اور سائنسی تعبیروں کے ذریعے سماجی و سیاسی مسائل حل کئے گئے۔تجربیت وعملیت پسندی کے نظریات کو سیاسی فلسفے میں جگہ دی گئی معاشی عدم مساوات کو اصلاحات کے ذریعے قابل قبول بنایا گیا اور جذبہء محرکہ کو بھی قائم رکھا گیا،تاکہ انسان کی ترقی کرنے کی حس اور کام کرنے کا جذبہ کہیں ماند نہ پڑ جائے۔ 

ٹیکس اور مراعات کے مابین ایسی معتدل پالیسی اپنائی گئی کہ عام مزدور قدر زائد کی بھیانک حقیقت کو بھول گیا ۔لبرل ڈیمو کریسی نے فلاحی ریاستوں میں انسان کی محرومیوں کا علمی و تجربی بنیادوں پر ازالہ کر دیا۔افادیت پسندی کے اصولوں کے تحت عوام میں زیادہ سے زیادہ خوشی و مسرت کو عام کرنے پر زور دیا گیا۔ہیلو ویل کے بقول ’’افادیت نے اخلاقی اور سیاسی نظریات کو تجربات اور مشاہدات کی بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کی ہے‘‘۔

کیونکہ عمرانی اقدار اور روایات کے تحت سیاسی تھیوری کی بنیاد زیادہ مستحکم ہوتی ہے نہ کہ مفروضوں اور روایات کی پاسداری سے۔آزاد خیال جمہوریت کی کامیابی کی بڑی وجہ اداروں کی آزادی اور خود مختاری بھی ہے جس سے نظم و ضبط قائم ہوا ہے۔قانون کی بالا دستی اور قانون سب کے لئے یکساں کو عملی طور پر رائج کیا گیاہے ،شفافیت اور میرٹ کی پاسداری کو یقینی بنایا گیا ہے۔نظریات و افکار کی ترسیل اور مقابلے کی فضا کو قائم رکھ کر اجتماعی معاشرتی حرکت کو رواں دواں رکھا گیا ہے۔قانون اور اخلاق کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے ۔

عام شہری بھی بدعنوانی ،بدنظمی،جھوٹ،دھوکہ دہی وغیرہ کی تائید کرنے کو مخرب اخلاق سمجھتا ہے۔یعنی جن قوموں کے حکمران دیانتدار ہوں ان کے عوام بھی اخلاق کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوتے ہیں۔آج تک ترقی یافتہ ممالک کے عوام نے کسی نا اہل اور کرپٹ سیاسی راہنما کی حمایت میں نہ ریلی نکالی اور نہ ہی علمی و فکری قضایا میں اس کو جگہ دی۔وہ آپنے سسٹم کو تیزی سے چلانے کے قائل ہیں،شخصیات ان کے نزدیک اضافی ہیں،جو جاتا ہے پلٹ کر نہیں دیکھتا۔ آزاد منشوں کے نزدیک دوسروں کو اذ یت دے کر نیکی کا تصور محال ہے ،سماجی اقدار وروایات کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے شخصی آزادی احساس زمہ داری کی پابند ہے۔

آج مغربی ممالک کی اکثریت لبرل ڈیموکریسی کے ثمرات سے مستفید ہو رہی ہے،اگر سیاسی و معاشی نظام میں تعطل و تضاد بھی پیدا ہو جائے تو اس میں اتنی لچک ہوتی ہے کہ وہ سنبھل جاتا ہے کیونکہ اس کی ذمہ داری صرف حکومت کے پاس نہیں ہوتی بلکہ عام فرد کی دلچسپی اور مفاد بھی اس میں شامل ہوتا ہے۔شخصی آزادی اور ذاتی مفاد کا تصور اجتماعی سطح پر سیاسی معاشیات کی چولیں ڈھیلی نہیں ہونے دیتا ۔محنت کرنے والے بامراد ہوتے ہیں اور کام چوروں کے منہ بھی ریاست نوالہ ڈال دیتی ہے،یہ سب افادیت پسندی کے سیاسی اصولوں کی وجہ سے ممکن ہوا ہے کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ کیسے خوشی اور مسرت فراہم کی جائے۔

مغرب کی لبرل ڈیمو کریسی کا مزاج و انداز ہمارے معاشروں کی طرح روایتی و اقداری بھی نہیں رہا ہے اور نہ ہی تجریدی و کلیت پسندانہ ،بلکہ تجزیاتی وتحلیلی سے بھی منحرف ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔نئی مادیت پسندانہ تعبیر سائنس وتجربے کی مرہون منت ہے۔اس کے نزدیک سیاسی معاشیات کا انحصار و ترقی اداروں اور دیگر شعبوں کو آلات وتجربے کے سانچے میں ڈھلنے سے ہوتا ہے۔صحت عامہ، پولیس، ماحولیات، معاشیات،تعلیم،نفسیات حیاتیات،بائیوٹیکنالوجی اور دیگر شعبہ جات سائنس و ٹیکنالوجی کی رہین منت ہیں جس میں کسی قیاس آرائی اور مفروضے کی اتنی ضرورت نہیں رہی ہے۔

لبرل ڈیمو کریسی نئی مادیت کی اس تعبیر کو اپنے نظام فکر میں جگہ دیتی ہے،جس سے سیاسی معاشیات سائنس و ٹیکنالوجی کے اداروں پر مرتب اثرات سے خود بخود اپنا قبلہ درست کرتی ہوئی نظر آرہی ہے،جہاں انقلاب کے بر عکس اصلاحات کے ذریعے تبدیلیوں کو قبول کیا جا رہا ہے۔ علم وٹیکنالوجی کے قائم کردہ اثرات سے سرمایہ داری کے تضادات سکڑ تے جا رہے ہیں اور ایسا قابل قبول فلاحی معاشرے کی ترقی یافتہ صورت ظاہر ہو چکی ہے جس کا فاصلہ ڈیمو کریٹک سوشلزم سے اتنا دور نہیں رہا ہے۔اب کے جنوں میں فاصلہ شاید کچھ نہ رہے ۔

پاکستان میں لبرل ڈیمو کریسی کو نظریاتی مسائل کا اتنا سامنا نہیں،جتنا اس کو عوامی مسائل حل کرنے کا ہے،کیونکہ وہاں ایک وسیع طبقاتی تفریق موجود ہے۔آدھی سے زائد آبادی سخت معاشی و سماجی تفریق کا شکار ہے۔احساس محرومی اور غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار ہے۔دیہات میں چھپی ہوئی غربت کسی کو نظر نہیں آتی۔جاگیر داری نظام نے اکثریتی آبادی کو غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا ہوا ہے۔بے گھری کا مسئلہ وسیع زمینیں ہونے کے با وجود حل نہیں ہوا ہے بلکہ کسی نے بھی اس معاملہ میں سنجیدہ کوششیں نہیں کی ہیں۔ ہاریوں ،خانہ بدوشوں اور بے زمینوں کو ابھی تک حقوق ملکیت نہیں ملے ہیں۔

جمہوریت کے لبادے میں سیاست کرنے والی مفاداتی سیاسی جماعتیں حکومت بچاؤ اور اثا ثے چھپاؤ کی پالیسی پر کاربند رہی ہیں اور اقتدار کو عوامی خدمت کے بر عکس ذاتی کاروبار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ملک پر طالع آزما مافیا اور اشرفیہ کا اقتدار قائم رہا ہے۔ملکی سیاست پر آمریت نواز بر اجمان رہے،سوشلزم کے نام پر عوام کو نہ صرف دھوکہ دیا گیا بلکہ ان کو لوٹا بھی گیا۔کسی بھی قسم کی اصلاحات متعارف نہیں کرائی گئیں۔مذہبی شدت پسندی نے سیاست میں فرقہ ورایت اور انتشاری سیاست کو فروغ دیا جس سے نہ صرف ملک کا امن تباہ ہوا بلکہ علمی و سائنسی اور جمہوری اقدار بھی پروان نہیں چڑھ سکیں۔

لسانی اور قبائلی سیاست نے گروہی سیاست کو فروغ دیا ۔خاندانی و موروثی سیاست نے اجارہ دار سیاست کی داغ بیل ڈالی جس سے جمہوریت قبیلے وخاندانوں تک محدود رہی اور جبر وتعصب کی فضا نے جمہوری اقدار و روایات کو پنپنے کا موقع نہیں دیا۔ملک میں قومی سیاست اور قومی جذبہ انتشاری سیاست کی نذر ہو گیا۔سیاست میں قومیت کے جذبے کے فقدان کی وجہ سے مفاداتی سیاست کو فروغ ملا۔جاگ پنجابی جاگ،سندھ کھپے، کے نعرے اسی انتشاری سیاست کی غمازی کرتے ہیں۔بدعنوانی کا راج اپنے جلوے دکھاتا رہا۔جس سے نہ صرف ملک میں غربت پھیلی بلکہ قوت خرید گھٹ گئی اور عام انسان محنت کرکے بھی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں رہاا د اروں کی آزادی و خود مختاری میں سیاسی مداخلت نے ان کی کار کردگی پر منفی اثرات مرتب کئے۔

Comments are closed.