پڑوسیوں سے امن اور دوستی کی کوشش بلا شبہ صایب ہے کیوں کہ آپ اپنا وجود اپنے پڑوسیوں سے منقطع کرکے کہیں اور منتقل نہیں کر سکتے۔لیکن پڑوسیوں سے امن اور دوستی کے ماحول کے قیام کے سلسلہ خوش آمدانہ رویہ دانشمندی نہیں او ر نہ یہ رویہ اس مقصد کے لئے ممد ثابت ہو سکتا ہے۔ایسا ہی تاثر عمران خان دے رہے ہیں۔
پچھلے مہینے ہندوستان کے عام انتخابات میں جیت پر عمران خان نے سفارتی آداب کے تحت نریندر مودی کو مبارک باد پیش کی تھی لیکن نہ جانے کس کے مشورہ پر انہوں نے ایک اور خط نریندر مودی کو بھیجا ہے جس میں ہندوستان کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے اور کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لئے مذاکرات کی خواہش ظاہر کی گئی ہے۔ یکے بعد یہ دو خط خوش آمد کا تاثر دیتے ہیں اور پاکستان کی عزت نفس کا گلا کرتے ہیں۔
ہندوستان کے عام انتخابات کے دوران عمران خان کو نہ جانے کس بنا ء پر یہ توقع تھی کہ نریندر مودی کی کامیابی کی صورت میں مودی کی پارٹی نئے مینڈیٹ کے ساتھ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر باہمی تنازعات کے تصفیہ کے لئے بہتر پوزیشن میں ہوگی۔ کیا اس وقت عمران خان کو اس کا ادراک نہیں تھا کہ مودی یہ انتخابات، کشمیر میں پلوانا کے حملہ پر پاکستان کے خلاف دھشت گردی کا الزام لگا کر اور پاکستان کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکا رہے ہیں اور یہ ثابت کر نے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان میں بالا کوٹ پر فصائی حملہ کرکے مودی نے ملک کا دفاع کیا ہے۔
اب ایسے نفرت بھرے زہریلے بیانیے پر انتخاب جیتنے کے بعد کیا عمران خان یہ توقع کرتے ہیں کہ مودی، پاکستان سے امن کے مذاکرات پر تیار ہو جائیں گے۔ کیا ہندوستان کے عوام یہ نہیں سوچیں گے کہ مودی، اسی پاکستان سے امن کے مذاکرات پر تیار ہو رہے ہیں جسے وہ کل تک دہشت گردی کا گڑھ قرار دیتے تھے اور جس سے ہندوستان کی سلامتی کو خطرہ تھا۔
اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ نریندر مودی کی انتخابی جیت در اصل راشٹریہ سویم سیوک سنگھ آر ایس ایس کی جیت ہے۔ 1964میں بمبئی میں میری آر ایس ایس کے سربراہ اور نریندر مودی کے گرو، گرو گول والکر سے ہوئی تھی جس مین انہوں نے صاف صاف کہا تھا کہ آر ایس ایس اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گی جب تک پاکستان کا خاتمہ نہیں ہو جاتا اور جو اس کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرے گا ہم اسے بھی ختم کردیں گے، چاہے نہرو کی حکومت ہو یا کوئی اور حکومت۔ انہوں نے بڑے دھڑلے سے کہا تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت مسلمانوں کو ہندوستان میں رہنے نہیں دے سکتی، مسلمانوں کو اس دھرتی سے نکلنا ہوگاکیوں کہ یہ غیر ملکی حملہ آور ہیں۔
پاکستان کو آر ایس ایس کی اسی حکمت عملی کو سامنے رکھ کر ہندوستان کے بارے میں اپنی مستقبل کی پالیسی وضع کرنی ہوگی۔ یہ عجیب و غریب صورت حال ہے کہ پاکستان کی کسی یونیورسٹی میں علوم ہند یا ہند کے حالات حاضرہ کے گہرے مطالعہ کا کوئی مرکز نہیں۔ نتیجہ یہ کہ ہندوستان کے بارے میں حقایق کے تناظر میں حکمت عملی وضع نہیں ہوتی۔
اگر عمران خان نہیں تو پاکستان کی وزارت خارجہ میں تعینات مشیروں کو اس حقیقت کا احساس ہوگا کہ کئی سال پہلے نریندر مودی کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوال نے کوئی خاموشی سے نہین بلکہ کھلم کھلا اس حکمت عملی کا اعلان کیا تھا کہ اگر پاکستان نے کشمیر میں حریت پسندوں کی مدد جاری رکھی تو اس کے جواب میں بلوچستان میں علحدگی پسندی کی بھر پور مدد و اعانت کی جائے گی اور اسی حکمت عملی کے تحت کلبھوشن یادو نے بلوچستان میں علحدگی پسندوں اور دھشت گردو کا جال بچھا کر ایسی آگ بھڑکائی ہے جو ابھی تک جاری ہے۔ اور اب اس کی آگ وزیرستان میں پھیلتی جارہی ہے۔
یہ ہیں وہ حالات جن کے پس منظر میں عمران خان ہندوستان کے ساتھ دوستی اور متنازعہ مسایل کے حل کے مذاکرات کی خواہش کے لئے مودی کو خط پر خط لکھ رہے ہیں اور نریندر مودی اس کے جواب میں برابر کشمیر میں حریت پسندوں کا خون بہا رہے ہیں۔
مسلہ کشمیر کے سلسلہ میں ایک بات یہ ذہن میں رہنی چاہیے کہ عام انتخابات کے بعد، مودی کے قریب ترین ساتھی امیت شاہ کی حکمت عملی حقیقی معنوں میں مودی حکومت کی کشمیر پالیسی ہوگی۔ امیت شاہ، کشمیر کے مسلہ کے حل کی جگہ طاقت کے بل پر اس مسلہ کا قلع قمع کرنے کے حامی ہیں۔ اور کوئی تعجب نہیں کہ بہت جلد ہندوستان کے آئین کا آرٹیکل حذف کردیا جائے جس کے تحت کشمیر کو خاص حیثیت حا صل ہے۔ اس آرٹیکل کے خاتمہ سے کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ انضمام مکمل ہو جائے گا۔
میں سن ساٹھ کے عشرہ کے اوایل میں دلی میں تعینات تھا۔ اُ س وقت ہندوستان اور چین کے درمیاں جنگی معرکہ آرائی جاری تھی۔ امریکا کو خطرہ تھا کہ پاکستان اس موقع پر اپنے گہرے دوست چین کا ساتھ دے کر ہندوستان کے خلاف جنگ کا پانسہ پلٹ سکتا ہے۔ اس خطرہ کے پیش نظر دلی میں امریکا کے سفیر گیلبرتھ نے صدر کینیڈی کے اعلی مشیر ایورل ہیری مین اور برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈنکن سینڈز کو فوری طور پر دلی طلب کیا جنہوں نے جواہر لعل نہرو کو مشورہ دیا کہ موقع کی نزاکت کے پیش نظر پاکستان سے کشمیر کے مسلہ پر مذاکرات کا عمل شروع کیا جائے۔
چنانچہ ڈنکن سینڈز اور ایورل ہیری مین نہرو کی رضامندی حاصل کرتے ہی راتوں رات اسلام آباد ہو گئے اور جنرل ایوب خان کو ان مذاکرات میں شرکت پر تیار کیا اور آخر کار 1963میں بھٹو اور سورن سنگھ کے درمیاں مذاکرات کا طویل دور شروع ہوالیکن چونکہ ان مذاکرات کے بارے میں ہندوستا ن کا مقصد کشمیر کے مسلہ کا حل حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ وقتی طور پر خطرہ ٹالنا تھا اس لئے ان مذاکرات کا کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوا۔
مجھے یاد ہے کہ اُس زمانہ میں ممتاز رہنما جے پرکاش نارائین نے بھی نہرو حکومت پر زور دیا تھا کہ ہندوستان کا مفاد اس میں مضمر ہے کہ پاکستان کے ساتھ کشمیر کے مسلہ پر سمجھوتہ کیا جائے،چاہے اس کے لئے پاکستان کو مراعات دینی پ پڑیں کیونکہ یوں نہ صرف ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تجارت بڑھے گی اور ہندوستان کو پاکستان کے راستہ افغانستان اور اس سے بھی پرے وسط ایشیا تک راہ داری ملے گی اور اس پورے علاقہ میں ہندوستان، سیاسی، اقتصادی اور فوجی طور پر چھا جائے گا۔ لیکن اس وقت نہرو نے جے پرکاش نارائین کی تجویز پر کوئی توجہ نہیں دی اور جب بہت دیربعد نہرو کو ہوش آ یا اور شیخ عبداللہ کو اسلام آباد بھیجا لیکن اسی دوران نہرو انتقال کر گئے۔اور یوں یہ کوشش ٹھپ پڑ گئیَ۔
عمران خان کے مشیروں کو سمجھنا چاہیے کہ اس وقت نریندر مودی ہندوستان میں ہندو قوم پرستی کی جس لہر پر سوار ہیں اور انتخابی جیت کے جس نشہ میں سر شار ہیں ان سے پاکستان کے ساتھ امن اور دوستی کے مذاکرات کی کوئی توقع نہیں رکھی جا سکتی ۔ اب تک عمران خان کی حکومت نے مودی سرکار سے جو خوشامدانہ رویہ روا رکھا ہے اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ پاکستان میں بالا کوٹ پر حملہ کرنے والے ہندوستانی فضائیہ کا طیارہ مار گرائے جانے والے ہوا باز ونگ کمانڈر ابھی نندن کوپاکستان کے حکام نے جس تیزی سے رہا کرکے انہیں مارکس اینڈ اسپینسر کا نیا سوٹ پہنا کر ہندوستان کے حوالہ کیا اس پر پاکستان کا مذاق اڑایا جاتا ہے لوگوں کا کہنا ہے کہ، صرف کمی ہار اور سہرے کی تھی۔
شاید ہندوستان کی فضایہ کے افسروں کو یہ پیغام دینا تھاکہ آیندہ آپ نے اگر پاکستان پر حملہ کیا تو آپ کو تحفے تحایف کے ساتھ آپ کے وطن بھیجا جائے گا۔نریندر مودی جن سے عمران خان کو امن اور دوستی کے مذاکرات کی قوی امید ہے انہوں نے جھوٹے منہ سے بھی پاکستان کا شکریہ ادا نہیں ونگ کمانڈر ابھی نندن کی رہائی پر۔
پھر نریندر مودی نے سارک کی تنظیم سے پاکستان کو جس انداز سے نکالا ہے اور سارک کو ہائی جیک کر کے پاکستان کے خلاف ایک نیا علاقائی اتحاد، بنگلہ دیش، انڈیا، میانمار، سری لنکا، تھائی لینڈ نیپال او ر بھوٹان پر مشتمل قایم کیا ہے اس کے بعد مودی سے امن اور دوستی کی توقع رکھنا اوریہ امید رکھنا کہ پاکستان سے مذاکرات کے لئے تیار ہوجائیں گے ایک معجزہ کی امید رکھنا ہے۔
کوئی ہے جو عمران خان کو یہ باتیں سمجھائے اور یہ بھی بتائے کہ قاید اعظم کی کامیابی کا سب سے بڑاراز ان کی ہندوستان کے رہنماوں کے تئیں بے اعتباری کی پالیسی تھی۔