رضوان عبدالرحمان عبداللہ
اقوام متحدہ کی ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ کے مطابق دنیا کے سب سے زیادہ خوش رہنے والے ممالک میں ہمارا شمار 66 ویں نمبر پر ہوتا ہے۔ اس رپورٹ کو مرتب کرنے کے لئے جن عوامل کا جائزہ لیا گیا ہے، اس میں ان ممالک کی فی کس آمدنی، شہریوں کی صحت مند زندگی، سماجی آزادی، معاشرتی تعاون اور بدعنوانی کا تناسب وغیرہ شامل ہیں، جبکہ اس رپورٹ کا مقصد یہ سمجھنے میں مدد دینا ہے کہ کونسے عوامل کسی ملک کے شہریوں کو خوش رکھنے میں مدد دیتی ہیں اور مزید کن ذرائع سے عوام کی بہتری کے لئے کام کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی ہمارے ہاں صورتحال اتنی اچھی ہے کہ ہم خوش باشی کے میدان میں دنیا کے آدھے سے زیادہ ممالک کو مات دیتے نظر آتے ہیں؟
کیونکہ اگر یو این ڈی پی کی سال 2020 کی انسانی ترقی کی فہرست دیکھی جائے تو اس لسٹ کے 189 ممالک میں ہمارا شمار 154 ویں ملک کے طور پر ہوتا ہے، اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ملک میں تقریبا 45 فیصد گھرانے مفلسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ میں پاکستان کا شمار 180 ممالک میں 124 ویں ملک میں ہے۔
نظام انصاف کی بات کی جائے تو امریکا کے ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان اس وقت انصاف کی فراہمی کے حوالے سے 128 ممالک کی فہرست میں 120ویں نمبر پر ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے ریاستی پالیسیوں کے باعث 2019 کو پاکستانی معاشرے میں موجود کمزور ترین طبقات کے لیے برا سال قرار دیا ہے۔
امریکا نے مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کے حوالے سے جن چار ممالک کو بلیک لسٹ کیا ہوا ہے ان میں ایک پاکستان ہے، جبکہ ٹریول رسک میپ 2021 جس کی تیاری میں سیاسی و سماجی بدامنی کو مدنظر رکھا جاتا کہ مطابق ہمارا ملک ’ہائی سکیورٹی رسک‘ کے دوسرے درجے میں ہے۔
گلوبل ٹیررازم رپورٹ 2020 کے مطابق پاکستان 2019 ء میں دہشت گردی کے شکار ممالک میں ساتویں نمبر پر رہا، جبکہ حکومت تاحال اپنے اقدامات سے عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کو مطمئن نہیں کر پائی۔
تعلیم کی طرف دھیان دیں تو ادارہ شماریات کے مطابق ملک میں شرحِ خواندگی 60 فیصد ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے مطابق پاکستان میں 23 ملین اسکول جانے کی عمر کے بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ جبکہ کیو ایس کی یونیورسٹیز کی درجہ بندی برائے2021 میں ہمارا کوئی ادارہ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں جگہ بنانے میں ناکام رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹس کے 2020 کے گلوبل انوویشن انڈیکس کی فہرست میں پاکستان 107 ویں نمبر پر موجود ہے۔
نظام صحت کی طرف نظر دوڑائیں تو میڈیکل جریدے دی لینسنٹ میں مجموعی کارکردگی کے لحاظ سے 195 ممالک کی فہرست میں پاکستان 154 ویں نمبر پر موجود ہے۔ پولیو پوری دنیا میں صرف پاکستان اور افغانستان میں موجود ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں زچگی کے دوران ماؤں کے ہلاک ہونے کا تناسب جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔
غیر سرکاری جرمن تنظیم ‘ورلڈ ہنگر ہیلپ‘ کی طرف سے جاری کردہ ‘ورلڈ ہنگر انڈیکس کے مطابق غذائی قلت اور بھوک کے شکار 107 ممالک کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان 88 ویں نمبر پر ہے جبکہ نیشنل نیوٹریشن سروے کی رپورٹ کے مطابق ملک میں پانچ سال سے کم عمر ہر 10 میں سے چار بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔
سوئٹزرلینڈ کا ادارہ آئی کیو ایئر کی فضائی آلودگی کی فہرست میں پاکستان دوسرا آلودہ ترین ملک قرار دیا جا چکا ہے جبکہ عالمی مالیاتی فنڈ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پانی کی سنگین قلت کے شکار ممالک میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم کی 141 ممالک کے حوالے سے جاری کردہ حالیہ مسابقتی رپورٹ میں وطن عزیز 110 ویں نمبر پر ہے جبکہ پاکستان کے مالیاتی نظام کی رینکنگ 99، انفراسٹکچر 105، اداروں کی رینکنگ 107 اور معاشی استحکام کی رینکنگ میں 116 ہے۔ وزارت خزانہ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق جون 2019 سے ستمبر 2020 تک اندرونی قرض 23 ہزار392 ارب روپے تک جا پہنچے ہیں جبکہ بیرونی قرضے اس وقت 6 ارب ڈالر ہیں۔
بین الاقوامی جریدے ’دی اکانومسٹ‘کی سال 2020 کی جمہوریت کے حوالے سے جاری کردہ فہرست میں پاکستان 105 ویں نمبر پر ہے۔
ہینلے پاسپورٹ انڈیکس کی طرف سے 2021 کے لیے دنیا بھر کے بدترین پاسپورٹ میں پاکستان کا چوتھا نمبر ہے۔
صنفی تفریق پر ورلڈ اکنامک فورم کی سالانہ رپورٹ کے دنیا کے 153 ممالک میں ہمارا نمبر 151 ہے۔ غیر سرکاری تنظیم ساحل کی رپورٹ آٹھا کر دیکھیں تو معلوم پڑے گا کہ ملک میں یومیہ 12 سے زائد بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔
فریڈم نیٹ ورک پاکستان کے مطابق 2020 ملک میں ڈیجیٹل حقوق، آزادی اظہار اور آن لائن معلومات تک رسائی کے لیے رکاوٹوں سے بھر پور سال ثابت ہوا ہے۔
کمیٹی ٹُو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی جاری کردہ گلوبل امپیونٹی انڈیکس میں پاکستان کو ان بارہ ممالک کی فہرست میں نویں نمبر پر رکھا گیا جہاں صحافیوں کو ان کے کام کی وجہ سے خطرے کا سامنا رہتا ہے۔
بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق کراچی ان شہروں میں شامل ہے جہاں دنیا کا بدترین پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم ہے۔
اس گنجلک میں پڑنے کی بجائے کہ ان اعداد وشمار کے ساتھ ہم دنیا کی 66 ویں خوش و خرم قوم کیسے ہو سکتے ہیں، ہمیں گلوبل فائر پاور انڈیکس 2021 کی اس فہرست پر متوجہ ہونا چاہیے جس کے مطابق دنیا کی طاقتور افواج کی فہرست میں ہماری فوج اب دسویں نمبر پر ہے۔
کہا جاتا ہے کہ کسی قوم کی پختگی کا اندازہ کرنے کے لئے اس قوم کا احساس مزاح ہی سب سے عمدہ معیار ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے وائرل ایک چار سیکنڈ کی ویڈیو جس پر قوم طرح طرح کے میمز بنا کر قہقے لگانے میں مصروف ہے، یہ دراصل ہمارے قوم کی مزاح، بذلہ سنجی اور زندہ دلی نہیں فقط کھوکھلے پن کی منظر کشی کر رہی ہے۔ اداراک ہوتا تو شاید معلوم بھی کر پاتے کہ بحثیت قوم ہم اس وقت ’’کہاں ہیں، ملک کہاں ہے اور بربادی کہاں ہو رہی ہے‘‘۔
♠