بیرسٹر حمید باشانی
یہ کالم میں نے انتخابات سے پہلے لکھا تھا۔ میں نے عرض کیا تھا کہ “پاکستان میں سیاسی جماعتوں کےانتخابی منشور پر لکھنا وقت ضائع کرنے والی بات ہے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے تحریری منشور کوئی نہیں پڑھتا۔ جو پڑھتا بھی ہے، وہ ان کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ منشور لکھنے کی محض رسم پوری کی جاتی ہے۔ اہتمام حجت کے لیے منشور تیار کیے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ گاہے ” کاپی پیسٹ” اور سرقہ بازی سے بھی کام لیا جاتا ہے۔ منشور پر کسی سطح پر بھی کوئی بحث ومباحثہ نہیں ہوتا۔ ہر جماعت کی مرکزی قیادت کے اپنے وعدے اور دعوے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف امیدواروں کے اپنے وعدے اور اعلانات ہوتے ہیں۔ لہذا انتخابات میں منشور کوئی نہیں دیکھتا۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ حکومت بنانے کے قابل کون ہے۔ لوگ ہوا کا رخ دیکھ کر اندازے لگاتے ہیں، اور اس کے مطابق اپنی سمتوں کا تعین کرتے ہیں ” ۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کی انتخابی سیاست میں منشور کی کوئی اہمیت نہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ منشور شاید آخری چیز ہے جو انتخابی نتائج پر کوئی اثر ڈال سکتا ہے۔ پاکستان میں ہار جیت کے لیے دیگر عناصر ہوتے ہیں، جو فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان کی پوری انتخابی تاریخ میں شاید ستر کے الیکشن واحد الیکشن تھے ، جن میں انتخابی منشوروں کو کچھ تھوڑی بہت اہمیت دی گئی اور انتخابی مہم کے دوران جلسوں اور جلوسوں میں انتخابی منشوروں پر بحث کی گئی۔ اس طرح منشوروں کی روشنی میں سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اپنے اختلاف اور امتیاز کو واضح کیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ انتخابات میں نظریات ڈسکس ہوئے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سوشلزم بطور نظریہ عوامی بحث و مباحثے کا موضوع بنا۔ عوام اس کے لیے تیار نہیں تھے۔
ملک میں تعلیم اور شعور تو خیر اگلی بات ہے ، محض خواندگی کو ہی دیکھا لیا جائے تو اس کی شرح حیرت انگیز اور افسوس ناک حد تک پست تھی۔ ملک کا بہت ہی محدود شہری طبقہ سوشلزم جیسی اجنبی اور مشکل اصطلاحوں سے واقف تھا۔ اخبارات تک محدود شہری طبقے کو رسائی تھی، مگر اخبارات میں بھی اس طرح سنجیدہ اور سائنٹیفک قسم کے معاشی موضوعات پر تب بھی کچھ نہیں لکھا جاتا تھا۔ اخبارات میں اس طرح کا ماحول بھی نہیں تھا، اگر کچھ لوگ تھے بھی جو اس طرح کے موضوعات پر اظہار خیال کرنا چاہتے تھے تو ان کو موقع نہیں دیا جاتا تھا۔ چنانچہ پاکستان پیپلز پارٹی سوشلزم کو ایک نمایاں نعرے اور نظریے کے طور پر منشور میں تو لے آئی، مگر اس کو عوام تک پہچانے میں ناکام رہی۔
سوشلزم کے نام پر بڑے بڑے سوشلسٹ دانشور پیپلز پارٹی کے ساتھ شامل بھی ہوگئے، اور لفظ سوشلزم زبان زد عام ہو گیا، مگر عوام کو کوئی آئیڈیا نہیں تھا کہ سوشلزم کیا ہے، کس بلا کا نام ہے، اور حقیقی زندگی میں اس کا کیا مطلب ہوگا۔ بلکہ حقیقی زندگی میں سوشلزم کی شکل و صورت اور اس کے اطلاق پر تو خود دانشوروں میں سخت قسم کا کنفیوزن اور ابہام تھا۔ اور خود سوشلزم کے پرچارکوں میں نظریاتی تقسیم کی وجہ سے بھی اختلاف رائے تھا۔ کوئی سوویت یونین کے برانڈ کے سوشلزم کو مثالی قرار دے رہا تھا، تو کوئی ماوازم اور کوئی چے گویرا کے نظریات کو بہتر سمجھتا تھا۔ یہ نظریاتی کنفیوزن تو ایک طرف بڑا مسئلہ تھا ہی کہ اوپر سے دائیں بازوں کی رجعت پسند قوتوں نے سوشلزم پر ہلہ بول دیا، اور اس کو ایک اسلام مخالف نظریہ قرار دے کر لتاڑنا شروع کردیا۔ جواب میں اسلامی سوشلزم کا نعرہ بلند کیا گیا تاکہ دائیں بازو کی رجعت پسند قوتوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اس سے مزید کنفیوزن پیدا ہوا اور فائدے کے بجائے مزید نقصان ہوا۔
سوشلزم بنیادی طور ایک خالص معاشی اور سیاسی نظریہ تھا، جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ لیکن پاکستان میں اسلام اور سوشلزم کو آمنے سامنے لا کر کھڑا کر دیا گیا۔ اس صورت حال مقابلہ کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کے دانشور دور کی کوڑی لائے۔ انہوں نے اسلام ہمارا دین ہے۔ سوشل ازم ہماری معیشت ہے۔ جمہوریت ہماری سیاست ہے جیسے نعرے سامنے لائے۔ ان نعروں میں کچھ عوامی دانش تھی۔ یہ ایک سیکولر سوشلسٹ جمہوریت کی طرف جانے اور ملک کی رجعت پسند قوتوں کو جواب دینے کی ایک حکمت عملی تھی، مگر پیپلز پارٹی عملی طور پر اپنی اس حکمت عملی پر عمل پیرا ہونے میں ناکام رہی۔ ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کے علاوہ دوسری پارٹیوں کے پاس بھی ایسے منشور تھے، جن کے پاس بڑے نظریات اور نعرے تھے۔ سوشلزم کے علاوہ نیشنل ازم بھی ان انتخابات میں ایک اہم فیکٹر بن کر ابھرا۔ عوامی لیگ نے نیشنل ازم کو دیگر نعروں کے ساتھ جوڑ کر پیش کیا۔ نیشنل عوامی پارٹی بھی اس وقت نیشنلسٹ اور ترقی پسند نظریات کے ساتھ میدان میں موجود تھی۔ ان انتخابات میں ان نظریات اور نعروں کے ساتھ عوامی لیگ پیپلز پارٹی، نیشنل عوامی پارٹی نے نمایاں کامیبایاں حاصل کیں۔
دائیں بازو کی جن چھوٹی پارٹیوں نے اسلام کے نام پر سوشلزم کے خلاف مورچہ بنا لیا تھا، انہوں نے انتخابات میں تو کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں حاصل کی، تاہم انہوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر سوشلزم کے خلاف ایک عالمی محاذ کا حصہ بن کر باقاعدہ محاذ قائم کر لیا، جس نے آگے چل کر پاکستان کی سیاست پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے۔ ان انتخابات میں نظریات کے علاوہ شخصیات نے بھی اہم رول ادا کیا۔
ذولفقار علی بھٹو، شیخ مجیب، ولی خان اور میر غوث بخش بزنجو جیسے سیاست دان ابھر کر سامنے آئے اور عوام میں بہت بڑی مقبولیت حاصل کی۔ لیکن خاص بات یہ تھی کہ ان لوگوں نے اپنی شخصیات کے ساتھ ساتھ نظریات کو بھی سامنے لایا، جو ان کی ذات کی پہچان بن گئے۔ غالباً یہ تاریخ کا واحد موقع تھا، جب یہاں پر انتخابات بھی کسی حد تک شفاف ہوئے اور انتخابی عمل کے نتیجے میں کچھ بڑی شخصیات اور نظریات بھی ابھر کر سامنے آئے۔ اس کے بعد کا سفر سارا زوال کا سفر ہے۔ اس سفر کے دوران نظریات آہستہ آہستہ پیچھے ہٹتے گئے اور ان کی جگہ ایسی شخصیات نے لینی شروع کی، جن میں سے اکثر کو نہ تو نظریات کا کوئی خاص ادراک یا شعور تھا، اور نہ ہی وہ اس میں دلچسبی رکھتے تھے۔ چنانچہ اس سلسلہ عمل میں آگے چل کر سوشلزم اور اسلام دونوں کو استعمال اور بدنام کیا گیا۔
نظام اسلام، نفاذاسلام اور اسلام کو خطرہ جیسے نعرے مقبول ہوئے، جن کے بطن سے ضیاالحق جیسے حکمران آگے آئے، اور اس کا دامن تھام کر کئی رجعت پسند قوتوں نے اپنی سیات آگے بڑھائی ۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ زیادہ پرانا یا دور کا قصہ نہیں ، بلکہ ایک طرح سے آج کی کہانی ہے۔ مگر اس کہانی نے کچھ زیادہ ہی درناک موڑ لے لیا۔ کیسے کیسے لیڈر عوام پر مسلط ہوگئے۔ نظریات خواہ وہ سوشلزم ہو، اسلام ہو، سرمایہ داری ہو یا نیو لبرل ازم ان کے بارے میں گفتگو ہونی ہی بند ہو گئی۔ اس کی جگہ لیڈروں کی ذاتی خوبیوں اور خامیوں کی بحث نے لے لی۔ بلکہ زیادہ تر انتخابات دوسروں کی خامیوں اور کوتاہیوں پر لڑے جانے لگے۔
ایک طرف دولت نے اور دوسری طرف اسٹبلشمنٹ نے سنٹرل سٹیج سنبھال لیا۔ یہ دونوں فیکٹر مل کر انتخابی نتائج کا تعِین کرنے لگے۔ نظریات و مقبولیت کے ساتھ قبولیت پر بھی زور دیا جانے لگا۔ مقبولیت اور قبولیت کے سنگم سے موجودہ انتخابات میں جو نتائج آئے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ ایسےانتخابات کے نتیجے میں عوام کی حالت زار میں تبدیلی کی امید عبث ہے، مگر جمہوریت کی ناگزیریت اس مشق کی متقاضی ہے ۔ جمہوریت کے نقائص صرف جمہوری عمل میں ہی درست ہو سکتے ہیں۔
♠