لیا قت علی
پیر پگاراعلی مردان مرحوم کا شمار ایک وقت میں پاکستان کے معروف سیاست دانوں میں ہوتا تھا۔ وہ پہلی مرتبہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر 1973 میں اس وقت نمایاں ہوئے جب وہ یونائٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے سربر اہ بنے تھے۔ پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کے دوران پیر پگارا کا شمارصف اول کے سیاسی رہنماوں میں ہونے لگا تھا۔ جب قومی اتحادکے سبھی رہنماوں کو بھٹو حکومت نے گرفتار کر لیا تو یہ پیر پگارا ہی تھے جنھوں نے بھٹو کے خلاف تحریک کا تسلسل جاری رکھا تھا۔
جنرل ضیا الحق کے مارشلائی دورحکومت میں تو انھیں بادشاہ گر کا درجہ حاصل تھا اور۔یہ بات زبان زد عام تھی کہ پیر صاحب جس سیاست دان کے سر پر ہاتھ رکھ دیتے تھے اقتدار کا ہما اس سیاست دان کے سر پرآکر بیٹھ جاتا تھا ۔پیر صاحب کی یہ بادشاہ گری کی حیثیت جنرل ضیا الحق کےمارشل لا کے دوران اوربعدازاں کسی حد تک غلام اسحاق خان کے دور صدارت تک توقائم رہی لیکن 1990 کے بعد پیر صاحب پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں اپنی اہمیت اورحیثیت سے بتدریج محروم ہوتے چلے گئے اوران کی وفات سے قبل ایک وقت توایسا بھی آیا کہ ان کی باتوں کوعوام اورپریس کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں تھے۔
پیر پگارا( پگارا کا مطلب ہے پگڑی والا)سیاست دانوں کی اس کھیپ سے تعلق رکھتے تھے جو عوام کو اپنے حقوق کے لئے منظم کرنے، سیاسی جماعت کو مستحکم کرنے، سیاسی اور انسانی حقوق کے حصول کے لئے جدو جہد کرنے کی بجائے محلاتی سازشوں اور جورتوڑ پر یقین رکھتے تھے۔ وہ عوام کو تبدیلی کا ٹول سمجھنے کی بجائے انھیں بے وقوف بنانے پر پختہ یقین رکھتے تھے۔
پیر پگارا سیاست میں فقرے بازی، ذومعنی گفتگو، مستقبل کی سیاسی صورت حال کے بارے میں پیشن گویوں اورہم عصر سیاست دانوں کا تمسخر اڑانےکا خاص ملکہ رکھتے تھے۔ زیر نظرکتاب پیر پگاراکے مختلف اخبارات، رسائل اور ٹی وی چینلز کو دئے گئے انٹرویوز پر مشتمل ہے۔یہ انٹرویوز پیر پگارا کےایک مرید فقیر شاہنواز نظاما نی نےمرتب کئے ہیں۔
کتاب میں شامل پہلا ا نٹرویو اگر1973 کا ہے تو آخری 2011 کا جس کا مطلب ہے یہ انٹرویوز پیر پگارا کی چار دہائیوں پر محیط سیاسی زندگی کا احاطہ کرتے ہیں۔
پیر پگارا نے ان انٹرویوزمیں مختلف سیاسی واقعات کا اپنے مخصوص انداز میں تجزیہ اور شخصیات کے بارے میں تبصرہ کیا ہے۔جب انھیں ایم کیوایم کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا’ وہ مسلم لیگوں کی بگڑی ہوئی اورگمراہ اولاد ہیں ‘۔ اس ایک فقرے میں مسلم لیگ اور اردو بولنے والے لسانی گروہ کی پوری تاریخ سمٹ آئی ہیں۔یہ ایم کیوایم کے آباو اجداد ہی تھے جنھوں نے مسلم لیگ کو یوپی اور بہار میں مضبوط کیا تھا جہاں تک مسلم اکثریت والے صوبوں کا تعلق تھا وہاں مسلم لیگ نہ ہونے کے برابر تھی۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ نواز شریف کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے تو پیر پگارا نے کہا’ نواز شریف جب گرتا ہے تو پاوں پکڑ لیتا ہےکھڑا ہوتا ہے تو گریبان پکڑ لیتا ہے‘۔یہ ایک فقرہ نواز شریف کی ساری سیاست کو ایک فقرے میں بیان کر دیتا ہے۔
ائر مارشل اصغرخان کے بارے میں برجستہ کہتے ہیں کہ ’ اصغرخان کو کون سیاست دان کہتا ہے وہ ریٹائرڈ فوجی ہیں اور فوجی سیاست دان نہیں ہوسکتا کیونکہ فوج میں حکم کی تعمیل کی جاتی ہے اصغرخان کی ابتدائی ٹریننگ سیاسی نہیں ہے وہ فقط جہازاڑا سکتے ہیں۔نہ ان کے پاس تحریک ہے اور نہ استقلال۔
پنجاب میں جمہوری سیاسی شعور کے بارے میں پیر پگارا کہتے ہیں ’پنجاب نے تاریخ میں کبھی جمہوریت کی بات نہیں کی ہے۔جب پاکستان متحد تھاتو بنگال والے ہی جمہوریت کی بات کرتے تھے۔لیکن جس روز پنجاب نے جمہوریت کی بات کی ہمارے تمام مسائل ہو جائیں گےلیکن پنجاب سے میری مراد پنجاب کے غریب عوام نہیں ہیں بلکہ وہ طبقہ ہے جو کسی نہ کسی طرح اقتدار پر قابض رہا ہے۔پیر پگارا اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ محض چند جنرل نہیں بلکہ فوج بطور ادارہ سیاست میں ملوث ہے۔
کشمیر کے بارے میں پیر پگارا کہتے ہیں’ نہ پہلے تھا، نہ ہے اور نہ ہوگا ۔کشمیر امریکہ کی پراپرٹی ہے۔ کشمیری کبھی رائے شماری میں پاکستان کے حق میں رائے نہیں دیں گے۔میری کامن سنس کہتی ہے کہ کشمیری خود مختار کشمیر کے حق میں رائے دیں گے۔
پیر پگارا ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ ’ قائداعظم اور علامہ اقبال ان کی آئیڈیل شخصیات نہیں ہیں۔ یہ اپنی جگہ پر بہت بڑے لوگ تھے بہت پڑھے لکھے تھےمگرمیرے آئیڈیل نہیں ہیں۔‘نواز لیگ کو پیر پگارا ایجنسیوں کی بنائی ہوئی جماعت سمجھتے ہیں۔ایجنسیوں کی بنائی ہوئی سیاسی جماعتیں حکومت چلانے کے لئے ہوتی ہیں اپوزیشن کےطورپر کام کرنے کے لئے نہیں۔
پیر صاحب کہتے ہیں کہ ایک جنرل کے بقول نواز شریف جی ایچ کیو کا فخر،ہمارا نشان اور راجہ پورس کا بدل ہے جس کی دس سال تک ہم نے تربیت کی۔ سندھی قوم پرستوں کے بارے میں پیر پگارا کے ریمارکس بہت دل چسپ ہیں۔کہتے ہیں یہ قوم پرست نہیں ’پیٹ پرست ہیں۔جنھیں قوم کی بجائےاپنی روٹی،کپڑے اور مکان کی فکر زیادہ رہتی ہے۔سندھی قوم پرست جن کے پے رول پر ہیں انھیں کی زبان بولتے ہیں۔
پیر پگارا کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی بھٹو کے ساتھ ملی ہوئی تھی،جھگڑا محض سیٹوں کا تھا۔جماعت چونسٹھ سیٹیں مانگتی تھی جب کہ بھٹو انھیں صرف سولہ سیٹیں دینا چاہتے تھے۔بس ان کا بھٹو کے ساتھ یہی اختلاف تھا۔
پیرپگارا کا کہنا ہے کہ پاکستان دوسری عالمی جنگ میں پنجابیوں کی انگریزوں کی خاظر جنگ لڑنے کے معاوضے کے طور پر دیا گیا ۔ مسلم لیگ بااثر افراد پر مشتمل جماعت تھی اور ان با اثر افراد کو مسلم لیگ جائن کرنے کی ترغیب انگریزوں نے دی تھی۔پاکستان کی فوج سارے اضلاع سے تعلق رکھتی ہے لیکن جب چاہتی ہے وہ اپنے صوبے پر اور دوسرے صوبوں پر قبضہ کر لیتی ہے۔
پاکستان کی سیاست میں مولوی کی بڑھتی ہوئی مداخلت کے بارے میں پیرپگارا کہتے ہیں’مولوی کی تربیت مذہبی ہے سیاسی نہیں۔ وہ حکومت کرنے کے آرٹ سے واقف نہیں ہیں۔بچوں کو پڑھاو لکھاو، میت کو دیکھو،شادی کراو،جمعہ کی نماز پڑھاو،فتوی دو۔ان امور کی تو اسے ٹریننگ ہے لیکن حکومت کی نہیں۔وہ پڑوس کے کھانے پر رہنے کی بجائے خود روٹی،کپڑا اور مکان کی فکر کرنے لگ پڑا ہے اگر اس نے یہی کچھ کرنا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ملا ازم چھوڑ کر سیاست میں آجائے۔
ان انٹرویوز میں اور بہت سے دلچسپ تبصرے اور تجزیئے موجود ہیں جہاں تک پیر صاحب پیشن گوئیوں کا تعلق ہےان میں سےزیادہ تردیوانے کے خواب لگتی ہیں لیکن افراد کے بارے میں ان کے تبصرے دلچسپ ہیں۔
♦